وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان مودی بائیڈن ملاقات کے بعد جاری وائٹ ہاؤس اعلامیے کا جواب دے گا۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ واشنگٹن نے ہی مودی کا گجرات کی دہشتگردی کے باعث ویزا بند کیا تھا، مودی کے ہاتھ آج بھی مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کے خون سے رنگے ہیں، امریکا کو اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کشمیریوں پر مظالم یاد نہ آئے، امریکا کی ورثے میں چھوڑی دہشت گردی کا پاکستان آج بھی مقابلہ کر رہا ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگوں میں ہر اول دستہ رہا، امریکا کیلئے تو جنگیں انویسٹمنٹ ہوتی ہیں، بھارتی وزیراعظم کو امریکی صدر جو بائیڈن نے مدعو کیا تھا، ایک مرتبہ پھر انہوں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور ہرزہ سرائی کی، یہی مودی تھا جس نے بھارتی گجرات میں دہشتگردی کروائی اور اقوام متحدہ نے اس پر پابندی لگائی۔
وزیر دفاع نے کہا کہ کشمیر میں کئی سال گزر گئے غیر اعلانیہ کرفیو اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں، سویلینز کی بڑی تعداد آج بھی کشمیر میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ ہم نے گزشتہ 45 سال میں امریکا کا ساتھ دیا، دونوں افغان جنگوں میں ہم ہراول دستہ تھے، ہم نے پرائی جنگ میں حصہ لیا اور دہشتگردی کو گھیسٹ کر اپنے گھر لائے، آج بھی یورپ میں جو جنگ جاری ہے وہ انویسٹمنٹ ہے، ہماری پہلی پالیسی بھی فراڈ تھی پھر نائن الیون کے بعد ان کے اتحادی بنے، آج جو دہشتگردی ہورہی ہے یہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے، آج بھی پاکستانی قوم امریکی حلیف ہونے کی سزا بھگت رہی ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ آج جو بیان آیا وہ سابق حکومتوں کیلئے شرمندگی کا باعث ہے، 75 سال میں ہماری خارجہ پالیسی امریکی مفادات کا تحفظ کرتی رہی، ہم نے جنگیں اپنے اوپر خود مسلط کیں، ہمیں اپنے اندرونی معاملات بھی درست کرنے چاہئیں۔
خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ بھارت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) تجارت سیکٹر میں کافی ترقی کی، بھارت کے تجارتی تعلقات گلف ممالک کے ساتھ بڑھ گئے، ایسی بات نہیں ہم کسی کو دوست یا دشمن بنانا چاہتے ہیں، سب سے دوستی چاہتے ہیں لیکن ماضی میں ہم نے جو قیمت ادا کی نامناسب تھی؟ ہم نے امریکا کو راضی کرنے کیلئے روس کو ناراض رکھا، تاریخ نے ثابت کیا امریکا کیلئے روس کو ناراض کرنا غلط فیصلہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کی خارجہ پالیسی اصولوں کے بجائے کمرشل بنیادوں پر ہے، ایسا نہیں آئی ایم ایف ان ممالک کی ایما پر فیصلے کرے لیکن اثر و رسوخ تو ہوتا ہے، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے براہ راست تعلق نہ ہو لیکن ماحول کا اثر ہوتا ہے۔
Comments are closed.