بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

موت کے منھ میں جانے والا کم عمر سپاہی جو لندن میں سٹار بن گیا

انگولا کی فوج میں زبردستی بھرتی کیا جانے والا بچہ لندن میں سٹار کیسے بنا

  • اوون اموس
  • بی بی سی نیوز

انگولا، لندن

،تصویر کا ذریعہJEFF OVERS / BBC

جب گولی سیزر کیمبیریما کے منھ اور گردن پر لگی تو وہ وہاں گھاس پر لیٹ گئے، انھوں نے اپنے خاندان کے بارے میں سوچا اور موت کا انتظار کرنے لگے۔

اس سے پہلے بھی وہ گولی کا نشانہ بن چکے تھے۔ دراصل تین مرتبہ، دو مرتبہ ٹانگوں پر اور ایک مرتبہ بازو پر لیکن اس بار کا حملہ بدترین تھا۔

ان کی نظروں کے سامنے آسمان گھومنے لگا، ان کا خون انگولا کی خشک زمین پر گر رہا تھا بے۔ بے ہوشی کے اندھیرے میں ڈوبتے ہوئے انھوں نے سوچا کہ اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے، ان کی زندگی گھاس پر ہی ختم ہو جائے گی۔

20 سال کے بعد زندگی ہارتا وہ سپاہی جنوبی لندن میں اپنے شراب خانے میں شراب انڈیل رہا ہے۔ جس طرح وہ تاش کھیلنے والوں سے بات چیت کر رہے ہیں اور پرام میں بیٹھے بچوں کو ہاتھ ہلا رہے ہیں اسے دیکھ کر سیزر کی سابقہ زندگی کا کوئی اشارہ نہیں ملتا جب تک کہ آپ بغور سیزر کی گردن کو نہ دیکھ لیں۔

کیونکہ وہاں کالر سے بالکل اوپر ایک نشان ہے جو گولی، کومہ اور فرار کی یاد دلاتا ہے۔

سیزر جنوب مغربی افریقہ کے ملک انگولا میں پیدا ہوئے۔ ان کے 11 بہن بھائی تھے۔ ان کی والدہ پرائمری سکول میں ٹیچر تھیں اور ان کے والد ایک نرس اور الیکٹریشن تھے۔

یہ خاندان ملک کے تیسرے بڑے شہر ہوامبو میں رہائش پذیر تھا۔ طویل خانہ جنگی کے باوجود ان کا بچپن بہت خوشگوار گزرا اور انھوں نے سکول کے دور کو بھی انجوائے کیا مگر سنہ 1990 میں جب سیزر کی عمر 17 برس تھی تو ان کا بچپن ختم ہو گیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ فوج نے انھیں ایک گلی میں دھر لیا۔

’ایسا ہی ہوتا تھا۔ اگر آپ بڑے ہیں، لمبے ہیں، تو وہ بس آپ کو پکڑ لیں گے اور فوج میں شامل ہونے کا کہیں گے۔ آپ کے والد کی اجازت کے بغیر، کسی بھی چیز کے بغیر۔‘

انھیں اپنا بیگ پیک کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔ اپنے گھر والوں کو خدا حافظ بھی نہیں کہنے دیا گیا تھا اور اگلے تین برس تک وہ اپنے اہلِخانہ سے نہیں مل پائے لیکن اس میں سے کچھ بھی حیران کن نہیں تھا۔

وہ بتاتے ہیں جب ہم بچے تھے تو ہم ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ’اگر انھوں نے ہمیں پکڑ لیا تو بس ختم کیونکہ ہم جانتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ جب وہ آپ کو پکڑ لیتے ہیں تو آپ کے پاس کوئی چوائس نہیں ہوتی۔‘

کیا وہ بھاگ سکتے تھے؟

’اگر آپ بھاگنے کی کوشش کریں گے تو مار دیے جائیں گے اس لیے بہتر ہے کہ یہیں رہیں، فرش پر بیٹھ جائیں اور ٹرک کا انتظار کریں۔‘

اینگولن فوج اپنے سپاہیوں کا کوئی خیال نہیں کرتی تھی یا کر نہیں سکتی تھی۔

چھ ماہ کی تربیت میں سپاہیوں کو دن میں ایک وقت کا کھانا ملتا تھا۔ ٹریننگ کے بعد جب انھیں مشن پر بھیجا جاتا تو خشک دودھ کا ایک ڈبہ، دو پیکٹ بسکٹ اور پانی کی بوتل دیے جاتے تھے۔

اس راشن کو 30 دن تک چلانا ہوتا تھا۔

سیزر کہتے ہیں ہم نے سیکھ لیا تھا کہ زندہ کیسے رہنا ہے۔

’اگر آپ کو پلاسٹک بیگ ملے تو اسے پتوں کے گرد لپیٹ دیں اور ان کے سرے بند کر دیں۔ پتے کو پسینہ آئے تو وہ بہے گا اور وہ پینے لائق پانی ہو گا۔‘

جنگ

،تصویر کا ذریعہJEFF OVERS / BBC

جب سیزر کی عمر 18 برس تھی تو ان کی ٹانگ میں گولی لگی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ( خانہ جنگی میں گاؤں کی حفاظت کرنے کے لیے) کیمپ لگاتے تھے۔ بائیں بازو کی حامی فوجیں نیچے آ کر ہم پر حملہ آور ہوتی تھیں۔ ہم بچے تھے اور ہمارا کوئی تجربہ نہیں تھا۔‘

سیزر کو موت کے منھ میں لے جانے والے اس حملے سے پہلے دو الگ واقعات میں دو مرتبہ گولی لگی۔

وہ بتاتے ہیں کہ عام طور پر مخالف فوجیں آدھی رات کو آتی تھیں۔ اس بار وہ آٹھ بجے کے قریب آ گئیں۔

’ہم نے شور کی آواز سنی۔ میرے ایک ساتھی نے بھاگنا شروع کر دیا۔ اس لیے انھوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ مجھے پیچھے سے آ کر گولی لگی۔‘

پہلے تو انھیں کوئی سمجھ نہیں آئی مگر انھیں منھ پر گولی ماری گئی تھی۔ اُنھوں نے اپنی گن پھینک دی کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ اگر دشمن نے اُنھیں بندوق کے ساتھ دیکھا تو انھیں مار دیا جائے گا۔ ساتھ ہی وہ بھاگتے بھی رہے۔

مزید پڑھیے

پندرہ سے بیس میٹر آگے جا کر وہ گھاس پر گر گئے اور انھوں نے محسوس کیا کہ خون ان کی پشت سے نکل کر نیچے بہہ رہا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے خاندان کے بارے میں سوچا جنھیں میں خدا حافظ بھی نہیں کر پایا تھا۔ مجھے لگا کہ بس یہی ہے۔ میری زندگی ختم ہو گئی۔ بس یہی ہے۔ ایک اور نوجوان لڑکا چلا گیا۔ میرے یہ خیالات تھے۔ یہ وہ آخری بات تھی جو مجھے یاد تھی۔‘

سیزر کی آنکھ ہسپتال میں کھلی۔ ’مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں زندہ ہوں۔‘

اور وہ دو سے تین روز تک زیر علاج رہے لیکن پھر وہ کومہ میں چلے گئے اور وہ پانچ ماہ تک کومہ میں رہے۔ جب وہ اٹھے تو ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ وہ کبھی چل نہیں پائیں گے۔

ایک اچھی خبر تھی۔ فوج میں نو سال رہنے کے بعد انھیں نکال دیا گیا۔ انھیں ایسا سپاہی نہیں چاہیے تھا جو چل نہ سکتا ہو۔

لیکن بری خبر بھی تھی کہ وہ 26 برس کے تھے اور ان کے ہاتھ میں کوئی رقم نہیں تھی اور معلوم نہیں تھا کہ وہ خاندان کو کیسے تلاش کریں جن میں اُن کی اہلیہ اور اُن کی تین سال کی بیٹی شامل تھے۔

انھوں نے ہسپتال چھوڑا تو ان کے پاس کچھ نہیں تھا سوائے لکڑی کی بیساکھیوں کے۔

جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

وہ کہتے ہیں کہ یہ زندہ رہنے کی صورتحال تھی۔

’میں کھانے، پیسوں اور کہیں رہنے کے لیے کے لیے بھیک مانگ رہا تھا۔‘

پھر آخر کار وہ اقوام متحدہ کے ایک سپاہی سے ملے۔ ’میرا خیال ہے کہ وہ امریکی تھے۔ وہ انگلش بول رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ سب بچے اس صورتحال میں ہیں۔ وہ جانتے تھے میں زخمی ہوں۔ انھوں نے مجھ سے سوالات کیے کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔‘

امریکیوں نے انھیں اس رہائش میں رکھا جہاں زخمی سپاہیوں کو رکھا جاتا ہے۔

’ایک سو لوگ، گہرے زخموں کے ساتھ، جن کی ٹانگیں تک نہیں تھیں۔‘

خاندان کا پتہ لگانے کے بعد انھوں نے امریکی فوجیوں کو بتایا کہ وہ انگولا چھوڑنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

’ذہنی طور پر میں وہاں رک نہیں سکتا تھا۔ آپ حکومت کے مخالف کچھ بھی کہیں تو وہ آپ کو پکڑ لیں گے۔‘

وہ تفصیلات نہیں جانتے۔ یہ بھی نہیں کہ کیا یہ سرکاری سکیم تھی۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ کدھر جا رہے ہیں۔ افریقہ یا یورپ یا کہیں اور لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا۔ حتیٰ کہ اب بھی سیزر کو اس امریکی کے الفاظ یاد ہیں جس نے ان کی مدد کی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اب سمجھ آئی ہے کہ وہ کیا کہتے تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ نوجوان زندگیاں اس طرح ضائع نہیں کی جا سکتیں۔‘

سیزر، ان کی شریکِ حیات اور چھوٹی بیٹی کو براستہ لوبانگو برطانیہ کی فلائیٹ مل گئی تھی۔ وہ محفوظ تھے لیکن جیسے ہی انھوں نے انگلینڈ کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا اس وقت تین بڑے مسائل تھے۔

وہ انگریزی نہیں بول سکتے تھے۔

برطانیہ میں داخل ہونے کے بعد یہ خاندان تارکین وطن میں شامل ہو چکا تھا۔ انھیں جنوبی لندن میں کروئڈون میں موجود پناہ لینے کے عمل سے منسلک سینٹر میں لے جایا گیا۔ اس سے پہلے کہ علاقے کی کونسل ان کی کہیں رہائش کا بندوبست کرتیں انھیں ہوٹلوں اور ہوسٹلز میں لے جایا گیا۔

سیزر اب بھی انگریزی نہیں بول سکتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اپنی جیب میں ایک چھوٹی سی ڈکشنری رکھتا تھا۔ تھورنٹون ہیلتھ میں سفیر کے گھر میں انھوں نے بنیادی انگریزی کا کورس کرنا شروع کیا۔ انھوں نے کیٹرنگ سے متعلق تعلیم حاصل کرنے سے پہلے کروئیڈون کالج میں بھی انگریزی کا کورس کیا۔

انھیں نوکری کی تلاش تھی۔

’میں حکومت پر انحصار نہیں کر سکتا تھا۔ جاب سینٹر کی جانب سے پتہ چلا کہ ریچمل کرومپٹن پب میں جگہ خالی ہے۔ یہ ویدر سپونز کی چین ہے جو بروملے کے قریب واقع ہے۔‘

لیکن یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ وہ اس چین کے کھانا پیش کرنے کے سستے مگر نفیس انداز سے واقفیت نہیں رکھتے تھے۔

سیزر کہتے ہیں کہ میں نے ایک بکسے میں اپنا شیف کا سیٹ ڈال رکھا تھا۔ میرا انٹرویو کرنے والی خاتون نے کہا کہ یہ کیا ہے’۔

’میں نے کہا کہ یہ شیف کا سیٹ ہے اور وہ ہنسنے لگیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیوں؟‘

وہ مجھے کچن میں لے گئیں اور کہا ’دیکھو ہمارا کچن۔‘

’وہاں ایک مائیکرو ویو اور ایک فرائیر تھا۔ پہلے تو میں حیران ہو گیا لیکن پھر میں نے سوچا میں یہ کر لوں گا۔‘

وہ برطانیہ میں مستقل رہائش رکھنے والوں میں شامل نہیں تھے اس لیے انھیں وازرت داخلہ کی اجازت درکار تھی۔ لیکن جنوری 2004 میں انھوں نے ویدر سپونز کچن میں کام کرنا شروع کر دیا۔

ان کا چھریوں کا سیٹ گھر پر رہ گیا۔

’میں نے واقعی بہت اچھا محسوس کیا۔ ایک اچھا شراب خانہ، اچھا ماحول، اچھی کمپنی۔‘

تین سال کے بعد وہ کچن سے فرنٹ آفس تک پہنچنے اور پھر جنوری سنہ 2014 میں وہ بروکلے برج ویدر سپون کے منیجر بن گئے۔

ان کا 17 سال کا بیٹا، جوئی جب کالج نہیں جاتا تو وہ بھی شراب خانے میں کام کرتا ہے۔ ان کی بیٹی دوانی کی عمر 23 برس ہو چکی ہے۔ انھوں نے حال ہی میں یونیورسٹی میں سیاسیات کے مضمون میں گریجویشن کی ہے۔

WETHERSPOONS NEWS

،تصویر کا ذریعہWETHERSPOONS NEWS

سنہ 2020 کے آخر میں ویدر سپونز کے باس جم مارٹن نے شراب خانے کا دورہ کیا تو وہ سیزر کی کہانی سے بہت متاثر ہوئے۔

انھوں نے پب کے میگزین سے کہا کہ سیزر پر فیچر کریں۔

پہلی مرتبہ بار آنے والوں کو اس شراب خانے کو چلانے والے شخص کی اپنی زندگی کی کہانی پتا چلی۔

دوسرے شراب خانوں سے کچھ لوگ عقیدت کے اظہار کے لیے ان سے ملنے آئے۔

جب سے وہ برطانیہ میں آ کر بسے ہیں تب سے اب تک فقط ایک بار سنہ 2014 میں وہ انگولا گئے ہیں۔

’میں زندگی میں جتنی مشکل صورتحال سے گزرا ہوں یہ ان میں سب سے خوفناک چیز تھی۔‘

’فلائٹ اچھی تھی لیکن ایئرپورٹ پر بہت خوفناک ماحول تھا۔ ہر جگہ سپاہی تھے، ہر جانب بندوقیں تھیں۔ جب میں واپسی کے لیے طیارے میں بیٹھا تو میں بہت سکون محسوس کر رہا تھا۔‘

ان کا مستقبل برطانیہ میں تھا اور وہ ویدرسپونز میں محنت سے کام جاری رکھنا چاہتے تھے، اپنے خاندان کے لیے اور چار بچوں کے لیے۔ ان کے سب سے چھوٹے بچے کی عمر چار برس ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’چھوٹی عمر میں آپ شاید محسوس ںہ کر سکیں کہ آپ کی زندگی خوشگوار ہے یا نہیں۔‘

’لیکن اگر آپ کی زندگی خوشگوار نہیں یا کچھ ہوا ہے جیسے میں زبردستی فوج میں شامل کیا گیا تھا، یہ آپ کی یاداشت میں محفوظ رہتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے ایسے مسائل سے گزریں۔ میں ان کے لیے کچھ اچھا کرنا چاہتا ہوں۔‘

اور اس کے ساتھ بروکلی برج کے مینیجر اپنے دفتر سے نکلے، چلتے ہوئے سیڑھیوں سے اترے اور پھر واپس شراب خانے میں لوٹ گئے۔

شراب خانے میں آنے والے گاہکوں سے گفتگو کرتے، بچوں کو ہاتھ ہلاتے، ان کی گردن پر موجود نشان واضح نظر آتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.