نواب یوسف تالپور کی زیرصدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی آبی وسائل کا اجلاس ہوا، جس میں کمیٹی کو حالیہ بارشوں کے بعد پانی کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی یہ بھی بتایا گیا کہ منگلا ڈیم میں ابھی صرف 10 فیصد پانی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ جولائی میں بارشیں ہوئیں اس سے قبل پانی کی کمی کا سامنا تھا۔
اجلاس کے دوران نزہت پٹھان کا کہنا تھا کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے موسم کی غلط تفصیلات بتائی جاتی ہیں۔
اُنہوں نے یہ سوال بھی اُٹھایا کہ صوبے کتنا پانی استعمال کرچکے ہیں؟
جس پر چیئرمین ارسا زاہد حسین جونیجو نے کہا کہ خیبر پختونخوا نے اپنے حصّے سے42 فیصد زیادہ پانی استعمال کیا۔
کمیٹی کے چیئرمین نواب یوسف تالپور نے سوال کیا کہ کہیں بھارت تو پانی نہیں روک رہا؟
جس پر چیئرمین ارسا زاہد حسین جونیجو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دریائے چناب پر کوئی اسٹوریج ڈیم نہیں ہے، پانی کے بہاؤ پر جتنا پانی ہوگا وہ آئے گا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ جہلم پر بھی پانی کا بہاؤ ہے،اس پر بھی کوئی ڈیم نہیں، وولر جھیل بھی قدرتی ہے،اس پر کنٹرول ممکن نہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ موجودہ بارشیں مجموعی پانی کی ضرورت سے کم ہیں۔
چیئرمین ارسا زاہد حسین جونیجو کا کہنا ہے کہ منگلا ڈیم میں 10 فیصد پانی ہے، اسے بھرنے کے لیے مزید بارشوں کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے سیکریٹری آبی وسائل کاظم نیاز کا کہنا ہے کہ رواں سال اپریل پچھلے 10سال کی نسبت خشک ترین مہینہ تھا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ اب جولائی میں شدید بارشیں ہوئیں ہیں، ہمارے پانی کا ذخیرہ ابھی بھی 70 فیصد کم ہے۔
جس پر چیئرمین ارسا کا کہنا تھا کہ ربیع سیزن میں پانی کی کمی ہوگی تو سوچیں خریف میں کیا ہوگا۔
اُنہوں نے کہا کہ اگر بارشیں اچھی ہوجاتی ہیں تو پانی کی کمی پوری ہوسکتی ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ اگر زیادہ بارشیں نہیں ہوتی تو ربیع میں 50 فیصد سے زیادہ پانی کی کمی ہوگی۔
ملک میں پانی کی موجودہ صورتحال کے بارے میں سننے کے بعد نواب یوسف تالپور کا کہنا تھا کہ ہمیں پانی کی کمی کے پیش نظر متبادل ذرائع کی طرف جانا ہوگا۔
اُنہوں نے کہا کہ آبی وسائل کی کمیٹی میں صوبوں کی نمائندگی ہونی چاہیے، یہاں ابھی پنجاب کا نمائندہ موجود ہے، مگر سندھ اور بلوچستان کے نمائندے موجود نہیں۔
اس حوالے سے کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں شرکت کے لیے چیف سیکرٹری سندھ اوربلوچستان کو خط لکھ دیا ہے۔
Comments are closed.