بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

منشیات فروش بچے: ’ہمیں دن میں دو قتل کرنے کا ہدف دیا جاتا تھا‘

میکسیکو میں منشیات کے کاروبار اور جرائم کی دلدل میں پھنسے بچے

منشیات فروش بچے

،تصویر کا ذریعہBBC / CECILIA TOMBESI

دس سال ہی کی عمر میں اس لڑکی نے منشیات فروخت کرنے میں اپنی والدہ کی مدد کرنا شروع کر دی تھی۔

اور صرف چار سال بعد ہی وہ ایک کارٹیل میں شامل ہو گئی جہاں اسے مخالفین کو قتل کرنے کی باقاعدہ تربیت دی گئی۔

سوزانا کی کہانی میکسیکو کے اُن بہت سے بچوں کی کہانیوں میں سے ایک ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ اس ملک میں منشیات کی سمگلنگ کی دلدل اتنی گہری اور وسیع ہو گئی ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی دھنستے چلے جا رہے ہیں جو ابھی بالغ بھی نہیں ہوئے ہیں۔

جامع اعداد و شمار دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ایسے بچوں کی صحیح تعداد تو معلوم نہیں جو منشیات کے کاروبار سے منسلک ہیں اور بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ اُن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ لیکن مختلف تنظیموں اور حکام کا اندازہ ہے کہ میکسیکو میں منظم جرائم سے تعلق رکھنے والے بچوں اور نوعمروں کی تعداد 35 ہزار سے چار لاکھ ساٹھ ہزار کے درمیان ہو سکتی ہے۔

ان بچوں کی کہانیاں واقعی حیران کُن اور چونکا دینے والی ہیں۔

کارٹیل یا منشیات فروشوں کے منظم گروہ ان بچوں کو اس لیے پھانس لیتے ہیں کہ اگر وہ پولیس کے ہاتھ بھی چڑھ گئے تو انھیں کمر عمری کے باعث معمولی سزاؤں کے بعد چھوڑ دیا جائے گا۔

ایک غیر سرکاری تنظیم رینسرتا جو قانون کی گرفت میں آنے والے نوجوان کے لیے کام کرتی ہے اس کے ایک تجزیے کے مطابق نو عمر لڑکوں اور لڑکیوں کو منشیات فروشوں کے گروہ ایک منظم طریقے سے اپنے ساتھ شامل کرتے ہیں۔ اس غیر سرکاری تنظیم نے ایسے سینکڑوں لڑکے اور لڑکیوں کی دل ہلا دینے والی کہانیاں سنی ہیں۔

سوزانا جو اب سترہ سال کی ہیں ان کی کہانی ‘منشیات کے سمگلروں کے بچوں’ کی کہانیوں میں سے ایک ہے اور بی بی سی منڈو سروس نے اسے رینسرتا کی اجازت سے شائع کی ہے۔

میں مونٹیری، نیو لیون میں ایک سخت گیر خاندان میں پیدا ہوئی۔

میری ماں ہم بہن بھائیوں کے لیے ہمیشہ بہت اچھا چاہتی تھیں اور اس لیے ہماری تعلیم اور تربیت پر بہت زور دیتی تھیں۔

وہ دو جگہ کام کرتی تھیں۔ صبح سات بجے سے رات سات بجے تک وہ ‘کچن اسسٹنٹ’ کے طور پر کام کرتی تھیں اور پھر وہ ایک بار میں بطور ڈانسر صبح چار بجے تک کام کرتی تھیں۔ اس وجہ سے ہم بہن بھائی زیادہ تر اکیلے رہتے تھے۔

میں اپنے باپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی بس مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ ایک منظم جرائم کرنے والے ایک گروہ کے لیے کام کرتے تھے اور جب میں صرف تین سال کی تھی تو انھیں مخالف گروہ کے لوگوں نے قتل کر دیا تھا۔

اس وجہ سے میری ماں نے دوسری شادی کر لی اور میرے سوتیلے والد تھے جن کا نام میں اپنے نام کے ساتھ لگاتی ہوں اور انھوں نے مجھے اپنی بیٹی کے طور پر اپنایا۔

منشیات فروش بچے

میں بہت چھوٹی سی عمر سے اسلحہ دیکھا تھا۔ میری ماں کے پاس ایک 22 بور کا پستول تھا اور اس کے علاوہ ان کے پاس ایک 38 بور کا ریوالور بھی تھا۔ میری ماں اور باپ کے تعلقات بہت تلخ تھے اور ان میں اکثر جھگڑا ہوتا رہتا تھا کیونکہ میرے والد منشیات کے عادی تھے اور میری ماں کو ان کی یہ عادت پسند نہیں تھی۔ اس وجہ سے ان دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ چونکہ میری ماں ہماری دیکھ بھال نہیں کر سکتی تھیں، اس لیے ہم دن کا زیادہ تر حصہ نینی کے ساتھ گزارتے تھے اور وہ ہم پر زیادہ توجہ نہیں دے سکیں۔

وہ اضافی آمدن حاصل کرنے کے راستے تلاش کرنے لگیں۔ ان کے ایک بھائی نے انھیں بتایا کہ وہ منشیات بیچ کر زیادہ پیسے کما سکتی ہیں۔

اس طرح وہ اس دھندے میں آئیں اور کریک اور کوکین فروخت کرنے لگیں۔

کیونکہ وہ منشیات بیچنے میں بہت تیز تھیں اس لیے پہلے وہ سینالوس اور پھر زیتاس کے لیے کام کرنے لگیں۔

مجھے اپنی ماں سے بہت لگاؤ تھا اور وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں۔

میں ہمشیہ ان جیسا بنانا چاہتی تھی وہ بہت مضبوط خاتون تھیں اور اپنے بل بوتے پر آگے بڑھنا چاہتی تھیں۔

اپنی ماں کی طرح میں اور میرا بھائی بھی منشیات فروشی کرنے لگے۔ گھر کے اخراجات اٹھانے کے لیے دس سال کی عمر میں ہم اس کارروبار میں شامل ہوئے اور یوں یہ خاندانی کاروبار بن گیا۔

جب گلف کارٹیل نے علاقے پر قبضہ کر لیا تو میری ماں نے ان کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔

اس گروہ میں انھیں اہمیت دی جانے لگی لیکن دوسرے گروہ کے لوگوں کو یہ پسند نہیں آیا کہ وہ مخالف گروہ کے کام کر رہی ہیں اور اسی لیے انھوں نے میری ماں کو قتل کرنے کے احکامات جاری دیے۔

کرائے کے ایک قاتل نے میری ماں کو تین گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اس وقت میں صرف بارہ سال کی تھی جب میں یتیم ہو گئی۔ میری زندگی میں سب سے اہم شخصیت میری ماں تھیں جنہیں میں نے کھو دیا۔

میری والدہ کے قتل کے بعد میرے بھائی الگ ہو گئے۔ میں اپنی والدہ کے گھر میں رہتی رہی اور میں نے منشیات استعمال کرنا شروع کر دئیں۔ میں مختلف نشے کرتی جن کی میں آہستہ آہستہ عادی ہو گئی۔ ایک لڑکی ہونے کے ناطے مجھے علم نہیں تھا کہ زندگی میں آگے کیسے بڑھنا ہے۔

میں 14 سال کی تھی تو میری ملاقات ایک شخص سے ہوئی جو میرا بوائے فرینڈ بن گیا۔ وہ عمر میں مجھ سے بہت بڑا تھا اور اسی نے مجھے انتہائی نشہ آوور دوا ٹولوئین کا عادی اور کریک کا عادی بنا دیا۔

میں جس دلدل میں پھنسی ہوئی تھی اس میں دھنستی چلی گئی۔ میرے نئے دوستوں نے مجھے ‘سیلف سروس سٹورز’ اور کاروں کو لوٹنے کے طریقے سکھائے۔ رفتہ رفتہ میں مشہور ہونے لگی کیونکہ میں بہت بے دھڑک کام کرتی تھی اور میں نے تنہا ہی لوٹ مار شروع کر دی۔

ایک دن ایک لڑکا ملا جس نے مجھے بتایا کہ وہ نوروستے گینگ سے ہے اس نے مجھے چوری کرتے ہوئے میری تصاویر دکھائیں۔ اس نے مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش کی میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔

میں کارٹیل میں طاقتور محسوس کرتی تھی، میں نے محسوس کیا کہ میری قدر ان بہت سے مردوں سے زیادہ ہے جن کے ساتھ میں نے کام کیا۔‘

کارٹیل میں شامل ہونے کے تھوڑے دن بعد میں گرفتار ہو گئی لیکن صرف ایک ماہ ہسپتال میں رکھنے کے بعد مجھے رہا کر دیا گیا۔

ہسپتال سے نکلنے کے بعد مجھے لگا کہ میں منشیات فروشی نہیں بلکہ پیشہ ور قاتل بننا چاہتی ہوں۔

نئے کارٹیل کے مختلف کام تھے جن میں منشیات فروشی، اغوا، بھتہ اکھٹا کرنا، انسانی سمگلنگ اور بھاری رقوم وصول کر کے لوگوں کو قتل کرنا شامل تھا۔ میں گروہ کے ان لوگوں میں شامل ہونا چاہتی تھی جو ‘کنٹریکٹ کلنگ’ یا لوگوں کو قتل کرتے تھے۔

اس کے لیے کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے کسی کو بار کے باہر قتل کرنا پڑتا تھا۔ انھوں نے مجھے ایک سیاہ 40 بور کی بندوق دی اور مجھے بار کے باہر ایک شخص کو ہلاک کرنا تھا۔ حقیقت میں میں نے کبھی گولی نہیں چلائی تھی لیکن فلموں میں دیکھا تھا کہ گولی کیسے چلائی جاتی ہے۔ میں جانتی تھی کہ مجھے یہ کام کرنا ہے کیونکہ اس کارٹیل میں اپنی جگہ اسی طرح بنا سکتی تھی۔

میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا میں باہر بھاگی اور میں نے اس شخص کو چار گولیاں ماریں۔ مجھے اس میں مزا آیا، میں مزید قتل کرنا چاہتی تھی۔ آخر کار مجھے منشیات سے بہتر کوئی چیز مل گئی۔

میرا دوسرا امتحان ایک لڑکے پر تشدد کرنا تھا اور مجھے اس کا ہاتھ کاٹنا تھا۔

میں اس امتحان پر بھی پورا اترنا چاہتی تھی اور جو شخص میری تربیت کر رہا تھا اس نے مجھ سے کہا کہ یہ معمول کی بات ہے بس میں اس کے کہنے پر عمل کرتی رہوں۔

مجھے گولی مارنے، قتل کرنے، لوگوں پر تشدد کرنے اور منشیات بیچنے کی تربیت دی گئی تھی، لیکن جس چیز میں مجھے سب سے زیادہ دلچسپی تھی وہ لوگوں کو قتل کرنا تھا۔

مجھے صرف خواتین کو قتل کرنے کا کہا جاتا۔ میں نے ان سے پوچھا کیا ان کے خاندان ہیں تو انھوں نے کہا ہاں ان خواتین کے خاندان ہیں۔ میرے لیے یہ ایک اور وجہ تھی جس سے میں اپنی ماں کے قتل کا بدلہ لے سکتی تھی۔ میں سوچتی تھی کہ اگر انھوں نے میری ماں کو قتل کیا تو میں کیوں نہ قتل کروں۔ میں چاہتی تھی کہ میں جس اذیت سے گزری تھی وہ بھی اس کو محسوس کریں۔ میں ان خواتین کو قتل کرتی جن کے بچے تھے اور میں نے کئی کو ان کے بچوں کے سامنے قتل کیا۔

میں نئے لوگوں کو گینگ میں بھرتی کرنے کی انچارج تھی، ان لوگوں کی تلاش میں رہتی جو مارنے مرنے پر ہر وقت تیار رہتے تھے چاہے ان کی عمر کچھ بھی ہو۔

اگرچہ میں نے کبھی بچوں کو بھرتی نہیں کیا، لیکن میں جانتی تھی کہ وہ بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ کارٹیل ان سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے اور دوسروں کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کا ان پر الزام لگایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ کم عمر ہونے کی وجہ سے قید سے جلد نکل آتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اسی لیے انھوں نے مجھے بھی اپنے گینگ میں شامل کیا تھا۔

میں نے کارٹیل کے اندر طاقتور محسوس کرتی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ مردوں کے مقابلے میں انھیں گینگ میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

گولیاں چلاتے وقت کچھ گھبرا کر چلانا شروع کر دیتے تھے لیکن مجھے کبھی کوئی خوف یا افسوس نہیں ہوا۔

ہمیں دن میں دو قتل کرنے کا کوٹہ دیا جاتا۔ ہمیں معلومات فراہم کر دی جاتیں اور ہمیں یہ کام کرنے کے لیے پورا دن دیا جاتا کام نہ ہونے کی صورت میں ہمیں کوئی پیسہ نہیں ملتا تھا۔

میں 15 سال کی تھی جب انھوں نے مجھے ایک آدمی کا گھر دیکھنے کے لیے بھیجا جسے ہم مارنے جا رہے تھے، لیکن کسی نے پولیس کو بلایا اور میں دوسری مرتبہ پکڑی گئی۔

منشیات فروش بچے

اس وجہ سے مجھے پانچ ماہ جیل میں گزارنا پڑے۔ جب میں ہستپال میں داخل تھی میں نے کارٹیل کے بارے میں کوئی خبر نہیں سنی، انھوں نے مجھ سے منھ موڑ لیا اس لیے میں رہا ہونا چاہتی تھی۔

رہائی پانے کے بعد میں اپنے والد اور ان کی دوسری بیوی کے ساتھ رہنے کے لیے چلی گئی۔ میرے والد نے میرے بجائے اپنی بیوی کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔

میں اپنی ماں کے گھر چلی گئی اس وقت میں سولہ برس کی تھی۔

میرا گروہ چاہتا تھا کہ میں کام پر واپس آؤں اور انھوں نے مجھے تلاش کر لیا۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں نے کام چھوڑا نہیں ہے لیکن انھوں نے مجھے جیل میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔

میری جان بخشنے کے لیے وہ مجھے ایک خاتون کے گھر لے گئے جس پر تشدد کر کے مجھے اس سے کچھ معلومات حاصل کرنی تھیں۔ میں ایسا کرنا نہیں چاہتی تھی۔ میں مزید قتل نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ہپستال میں گزارے دنوں کی وجہ سے مجھے میں تبدیلی آئی تھی لیکن سوال یہ تھا کہ یا تو اپنی جان دے دوں یا دوسرے کی جان لے لوں۔

میں کارٹیل کے لیے کام کرتی رہی اور ایک دن انھوں نے مجھے کچھ اور ساتھیوں کے ہمراہ ایک کار چوری کرنے کے لیے بھیجا جس میں ’کپڑوں کی گانٹھیں‘ بھری ہوئی تھیں۔

میں گروپ کی انچارج تھی، اس لیے میں نے حکم دیا، لیکن میرے ساتھیوں نے وہی کیا جو وہ چاہتے تھے۔ انھوں نے گاڑی تباہ کر دی، ان کا اسلحہ ضائع ہو گیا، اور انھوں نے مجھے سزا دی۔ یہ سزا بہت شدید تھی اور مجھے سخت اذیت ہوئی۔

مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے اور میرے اندر ایک لاوا سا پکنے لگا۔ اس واقعے کے بعد مجھے پیسے ملنے بھی بند ہو گئے۔ جب میں نے دیکھا کہ پندرہ دن گزر گئے اور مجھے کوئی پیسہ نہیں دیا گیا تو میں نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر آزادانہ طور پر منشیات فروشی شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

لیکن چونکہ میں پولیس کی نظروں میں تھی، اس لیے انھوں نے مجھے پکڑ لیا اور دوبارہ جیل میں ڈال دیا۔

منشیات فروش بچے

اس وقت میں ایک حراستی مرکز میں ہوں اور قید میں ایک سال گزار چکی ہوں۔ میرا ایک بھائی مجھ سے ملنے آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے والد صاحب بھی مجھے سپورٹ کر رہے ہیں۔ میرے لیے، یہاں آنا میری زندگی کو دوبارہ بنانے اور اپنے خاندان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کا ایک موقع ہے، میں صرف یہی چاہتی ہوں۔

میں پڑھنا جاری رکھنا چاہتی ہوں لیکن سب سے بڑھ کر، میں منظم جرائم کی دنیا سے مکمل طور پر دور ہونا چاہتی ہوں۔ میرے لیے، ہسپتال میں رہنے کا مطلب سکون سے رہنا ہے۔ جب میں یہاں آئی تھی تو میری جان کو خطرہ تھا لیکن اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ میں نے اچھے دوست بنائے ہیں اور مجھے وہ تعاون حاصل ہے جو مجھے بچپن میں حاصل نہیں تھا۔

اگر میں کسی بچے یا نوعمر کو مشورہ دے سکتی ہوں، تو میرا مشورہ یہ ہی ہو گا کہ ان جرائم پیشہ گروہوں سے بچیں۔ کیونکہ وہ انھیں صرف استعمال کریں گے۔ جرائم کی زندگی میں دو ہی راستے ہیں قید ہے یا موت کوئی اور تیسرا راستہ نہیں۔ اگر میری ماں کو قتل نہ کیا گیا ہوتا تو وہ سب کچھ نہ ہوتا جس کا میں آج تجربہ کر رہی ہوں۔

* اس کہانی کے مرکزی کردار کا اصل نام اس کی شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کیا گیا ہے۔

منشیات فروش بچے

رینسرتا کے تجزیہ کاروں جنہوں نے سوزانا جیسے بچے بچیوں کی کہانیاں سنی تھیں انھیں سب سے زیادہ جس چیز نے متاثر کیا وہ جرائم پیشہ عناصر کے نرغے میں پھنسے بچے اور بچیوں کے ذہنوں اور نفسیات پر پڑنے والی منفی اثرات تھے۔ اس پرتشدد دنیا میں رہنے والوں کو شدید ذہنی اور نفسیاتی دباؤ برداشت کرنا پڑتا ہے۔

ایسے سب ہی بچے اس پرتشدد ماحول سے گزرے تھے اور انھیں نا قابل بیان حد تک بے رحمانہ اور سنگدلانہ سلوک کا سامنا رہا۔ بہت سے لاوارث بچے یا جنہیں ماں باپ نے چھوڑ دیا تھا انھیں بہت کم عمری ہی سے منشیات تک رسائی حاصل ہو گئی۔ منظم گروہ میں شامل ہونے کی طرف یہ پہلا قدم ہوتا ہے۔

مرینا فلورس کیمارگو ایک غیر سرکاری تنظیم کی ریسرچ ڈائریکٹر اور انھوں نے اس تحقیق کی نگراں تھیں۔

دیگر عوامل جو ان بچوں کو منظم جرائم میں شامل ہونے کا باعث بنتے ہیں ان میں عموماً گھریلو جگھڑے اور غربت بھی شامل ہے۔

مرینا فلورس کیمارگو نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ‘یہ صورت حال انہیں یہ دیکھنے پر مجبور کرتی ہے کہ سکول چھوڑنے کے بعد ایسے بچے یا تو گھر پر ہوتے ہیں یا جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے پیسہ کمانے کا واحد ذریعہ یہی ہوتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کی کہانیاں سن کر انھیں ملک کے مختلف حصوں میں جرائم پیشہ گروہوں کے طریقہ واردات کو سمجھنے میں آسانی ہوئی۔

امریکی سرحد سے متصل ملک کے شمالی حصہ میں ان بچوں کے مطابق منشیات لے جانا قدر آسان ہے اور جہاں بچوں کو پیشہ ور قاتل بنانے کی تربیت میں سابق فوجی بھی مدد کرتے ہیں اور یہ انتہائی کٹھن اور پرتشدد تربیت ہوتی ہے۔

جرائم پیشہ گروہ کسی بچے کو کام سونپتے ہوئے صنف کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرتے، جیسا کہ سوزانا کے معاملے میں تھا۔

بچے اور بچیوں میں فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ بچیوں کو نسبتاً زیادہ ظلم سہنا پڑتا ہے اور وہ بہت کم عمری میں جنسی زیادتیوں کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ انھیں اسقاط حمل کروانے پڑتے ہیں اور ان سے بہت بدسلوکی کی جاتی ہے۔

ماہرین اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ایسے بچوں کو بچانے کے لیے کوئی سماجی پروگرام نہیں ہے۔

رینسرتا کے ماہرین اس نتجے پر پہنچے ہیں کہ، مسائل سے دو چار بچوں کو بچانے کے لیے ‘کمیونٹی مراکز’ بنانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں جرائم پیشہ عناصر سرگرم ہیں۔ سکولوں میں ایسے بچوں کا بروقت پتہ لگانا چاہیے تاکہ ان کو تحفظ فراہم کیا جا سکے اور اس مسئلے کا پوری طرح احاطہ نہ کرنا سنگین غلطی ہو گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.