منشیات سمگلنگ سے سونے کی کان کنی تک: لاطینی امریکہ کی جیلیں بدنام گروہوں کے ’کمانڈ سینٹر‘ کیسے بنیں؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, گیرارڈو لیسارڈے
  • عہدہ, بی بی سی
  • 20 منٹ قبل

کسی بھی ملک میں جیلیں مجرموں اور سماج دشمن عناصر کی سرکوبی اور اصلاح کے لیے قائم کی جاتی ہیں مگر لاطینی امریکہ کے مختلف ممالک میں یہ معاملہ بالکل برعکس ہے کیونکہ یہاں کی جیلیں عوامی سلامتی کے لیے ایک بڑے خطرے کا مرکز بن کر اُبھر رہی ہیں۔ایکواڈور ہو، برازیل یا وینزویلا، جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے تشکیل دیے جانے والے جرائم پیشہ گروہ اب پورے لاطینی امریکہ میں پھل پھول رہے ہیں جس کے پیش نظر ایسے ممالک کی حکومتیں جیلوں میں موجود گروہوں کی طاقت کو ختم کرنے کے لیے انتہائی اقدامات کر رہی ہیں۔لاطینی امریکہ کے متعدد ممالک میں مجرموں کی سرکوبی کے لیے بنائی گئی جیلیں بڑی اور بدنام زمانہ مجرمانہ تنظیموں اور گروہوں کے ’کمانڈ سینٹر‘ بن چکے ہیں۔حالیہ دنوں میں اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس وقت ہوا جب ایکواڈور کے بدنام زمانہ اور طاقتور گینگ ’لاس چونیروس‘ کے سرغنہ ایڈولف ماتھیاس ولامار، جنھیں فیتو کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک انتہائی سکیورٹی والی جیل سے اچانک غائب ہو گئے۔ ان کے جیل سے فرار نے ملک میں واقع متعدد جیلوں میں فسادات کی ایک لہر کو جنم دیا جبکہ جیلوں کے باہر چند شہروں میں بھی لوٹ مار اور مار دھاڑ کے واقعات رونما ہوئے۔

اس صورتحال کے بعد ایکواڈور کے صدر ڈینیئل نے ملک میں جاری ’اندرونی مسلح تصادم‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے ملک میں 60 روز کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا۔ عمومی طور پر لاطینی امریکی کی جیلوں میں بننے یا یہاں سے موصول ہونے والی ہدایات پر چلنے والے گروہوں کی آمدنی کا اہم ذریعہ منشیات کی سمگلنگ ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ ان میں سے چند گروہ بھتہ خوری سے لے کر غیر قانونی کان کنی جیسے دیگر جرائم تک بھی اپنی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کر چکے ہیں۔میکسیکو میں سینٹر فار اکنامک ریسرچ اینڈ ٹیچنگ سے منسلک ماہر گسٹاوو فونڈیولا کا کہنا ہے کہ ’اب جیلیں ویسی نہیں رہیں جیسا کہ ہم ماضی میں سوچتے تھے۔‘انھوں نے کہا کہ ’پورے خطے میں یہ جیلیں تشدد کے فروغ کی بڑی وجہ بن گئی ہیں: آپ کسی جگہ جیل بناتے ہیں اور اس علاقے میں جرائم کی شرح ڈرامائی انداز میں بڑھ جاتی ہے۔ یہ ملک میں واقع جیلوں کے اندر چلنے والی متوازی ریاست جیسا ہے۔‘

’کنٹرول کی جنگ‘

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesایکواڈور کی جیلوں پر حکومتی کنٹرول کا فقدان کوئی نئی بات نہیں۔ سنہ 2020 سے اب تک جیلوں کے اندر مختلف گروہوں کے درمیان ہونے والے پرتشدد واقعات میں 450 سے زائد قیدیوں کی ہلاکت ہوئی، اس ضمن میں سب سے سنگین واقعہ ستمبر 2021 میں پیش آیا جب درجن کے لگ بھگ قیدیوں کے سر قلم کیے گئے تھے۔ایکواڈور کی جیلوں میں ہونے والے تشدد سے آگے، ماہرین اس پورے سلسلے کو ایک گینگ وار کی طرح دیکھتے ہیں جو سڑکوں پر بھی پھیل چکی ہے، جہاں قتل و غارت، فائرنگ اور مخالفین پر حملوں میں اضافہ ہوا جبکہ یہ ملک (ایکواڈور) منشیات کی سمگلنگ کا ایک بڑا مرکز بن کر ابھرا ہے۔جیل سے متعلقہ مسئلوں کا تجزیہ کرنے کے لیے ایکواڈور کا دورہ کرنے کے بعد، بین امریکی کمیشن برائے انسانی حقوق نے 2022 کی ایک رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملک کی جیلیں ’قیدیوں کے ایسے گروہوں کے کمانڈ سینٹر کے طور پر کام کرتی ہیں جو جیلوں میں اپنے کنٹرول کی لڑائی میں مصروف ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جیلوں سے باہر رہائشی علاقوں پر کنٹرول کے لیے بھی۔‘حالیہ دنوں میں اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس وقت ہوا جب جیلوں اور باہر کی دنیا پر کنٹرول کی جنگ میں مصروف ایسے ہی پرتشدد گروہوں میں سے ایک ’لاس چونیروس‘ جس کے سرغنہ ’فیتو‘ چند روز قبل ’گویاکیل لیٹورل جیل‘ سے فرار ہوئے۔ فیتو اس ہائی سکیورٹی جیل میں منظم جرائم، منشیات کی سمگلنگ اور قتل جیسے الزامات ثابت ہونے کے بعد 34 سال قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔اس فرار کے بعد ملک کے مختلف جیلوں میں ہنگامہ آرائی ہوئی اور جیلوں کی سکیورٹی پر تعینات اہلکاروں کو قیدیوں کی جانب یرغمال بنایا گیا۔ ایکواڈور کے صدر نوبوا، جنھوں نے بمشکل ڈیڑھ ماہ پہلے ہی اپنے عہدے کا حلف لیا ہے، نے اپنے پیشرو کی طرح اس واقعے پر ردعمل ظاہر کیا اور ملک بھر میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا لیکن جیسے ہی صدر کی جانب سے یہ اعلان ہوا تو صورتحال کنٹرول میں آنے کے بجائے تشدد مزید غیرمعمولی حد تک بڑھ گیا۔ اس اعلان کے فوراً بعد گینگسٹرز نے مقامی ٹی وی چینل پر دھاوا بولا جہاں انھوں نے براہ راست نشریات کے دوران لوگوں کو یرغمال بنایا جبکہ مسلح افراد تعلیمی اور سرکاری اداروں میں بھی داخل ہوئے۔ مختلف شہروں میں بارودی مواد سے مخالفین اور عام شہریوں پر حملے بھی ہوئے۔بظاہر پہلے سے موجود سکیورٹی صورتحال کو صدر نوبوا کے ’اندرونی مسلح تصادم‘ کے اعلان نے دگنا کر دیا۔ صدر نے فوج کو احکامات دیے ہیں کہ وہ جیلوں میں نظم کو بحال کریں اور ’لاس چونیروس‘، ’لاس لوبوس‘ اور کئی دوسرے گروہوں کو ’دہشت گرد‘ تنظیمیں قرار دیا۔لڑائی کا بنیادی نکتہ ایکواڈور میں جیلوں کا نظام ہے، جس کی بابت صدر نوبوا نے اعلان کیا تھا کہ خطرناک قیدیوں کو عام قیدیوں سے الگ تھلگ کر کے انھیں تیرتی جیلیں میں رکھا جائے گا جبکہ اس نوعیت کے دیگر اقدامات بھی کیے جائیں گے لیکن ایکواڈور میں جو چیز خطرے میں ہے وہ جیلوں کے کنٹرول سے کہیں زیادہ دکھائی دیتی ہے۔

ایک علامتی کیس

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنگروپ کے سرغنہ مارکوس ہرباس کاماچو
لاطینی امریکہ کے ممالک کے لیے جیلوں کے انتظام سے متعلق چیلنج اب بڑھ چکا ہے کیونکہ حالیہ دہائیوں میں قیدیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا تاہم قیدیوں کی بحالی اور اصلاح کو کوئی باقاعدہ پروگرام یا مؤثر پالیسی موجود نہیں۔انسٹیٹیوٹ فار کرائم اینڈ جسٹس پالیسی ریسرچ کی طرف سے 2021 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق لاطینی امریکہ میں قیدیوں کی تعداد سنہ 2000 کے بعد سے دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق قیدیوں کی تعداد میں یہ اضافہ جنوبی امریکہ کے ممالک میں 200 فیصد تک جبکہ وسطی امریکہ کے ممالک میں 77 فیصد ہے۔برازیل میں ایسا ہی ایک گروہ، فرسٹ کیپیٹل کمانڈ، 90 کی دہائی میں ساؤ پالو کی ایک جیل کے اندر تشکیل پایا تھا اور حالیہ دہائیوں میں یہ برازیل اور شاید جنوبی امریکہ کا سب سے بڑا مجرمانہ گروہ قرار دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ابتدائی طور پر اس گروہ نے اپنی تشکیل کا مقصد ’قیدیوں کے تحفظ کی یونین‘ کے طور پر بیان گیا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اتنا مضبوط ہوا کہ سنہ 2006 میں اس کے کارندوں نے سڑکوں پر کئی پرتشدد حملوں کے ساتھ مخالفوں کے خلاف کارروائی کرنے کی اپنی صلاحیت کو منوایا جس کے باعث برازیل کا سب سے بڑا شہر مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔اس گروہ کے مقبول نعروں میں سے ایک یہ ہے کہ ’جرم ہی جرم کو مضبوط بناتا ہے۔‘اس گروپ کی توسیع اس وقت ہوئی جب حکام نے اس کے سرکردہ رہنماؤں کو برازیل کی دیگر ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کیا۔ اگرچہ یہ اقدام اس گروپ کی طاقت کو ختم کرنے کے لیے تھا مگر اس کا الٹا اثر ہوا اور دیگر ریاستوں میں منتقل کیے جانے والے گروہ کے سرکردہ افراد نے ان ریاستوں میں بھی مزید کارندوں کو بھرتی کیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ جیلوں کے اندر اور باہر اس گروہ کے تقریباً 30 ہزار ارکان موجود ہیں۔اس گروپ کی قیادت مارکوس ہرباس کاماچو، جو ’مارکولا‘ کے نام سے معروف ہیں، کرتے ہیں۔ وہ سنہ 1999 سے قید میں ہیں اور ان کی قیادت میں اس گروپ نے پیراگوئے، بولیویا اور خطے کے دیگر ممالک میں منشیات کی سمگلنگ کے بین الاقوامی راستوں کا کنٹرول حاصل کیا ہے اور اس میں توسیع بھی کی ہے۔منشیات سمگلنگ کے علاوہ اس گروہ نے دوسرے جرائم جیسا کہ بینک ڈکیتیوں اور سٹریٹ کرائمز کے ذریعے بھی اپنی کمائی کو بڑھایا ہے۔سنہ 2023 میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں حوالہ دیا گیا تھا کہ کیسے یہ گروہ ایمازون میں سونے کی غیرقانونی کان کنی میں ملوث ہوا ہے۔ فرسٹ کیپیٹل کمانڈ گروہ اس خطے کی جیلوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ایک تصویر ہے۔

اثرات

،تصویر کا ذریعہAFPوینزویلا میں ’ٹوکورون‘ جیل کے اندرونی حصے کی سکیورٹی کو کنٹرول کرنے کے بجائے، وینزویلا کے جیل حکام نے یہاں موجود قیدیوں کو ہی اس کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔وینزویلا کے سب سے بڑے منظم اور طاقتور جرائم پیشہ گروہ ’ٹیرن ڈی آرگوا‘ نے آہستہ آہستہ اس ذمہ داری کا کنٹرول حاصل کر لیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اس جیل میں قیدیوں کے لیے نائٹ کلب اور چڑیا گھر تک بنا لیا گیا اور ستمبر 2023 میں اس جیل کا گینگسٹرز سے قبضہ حاصل کرنے کے لیے وینزویلا کی حکومت کو 11 ہزار فوجیوں کو بھیجنا پڑا تھا۔’ٹیرن ڈی آرگوا‘ نامی گروہ کے لگ بھگ تین ہزار کارندے ہیں جو بھتہ خوری اور اغوا سے لے کر انسانی اور منشیات کی سمگلنگ اور سونے کی غیرقانونی کان کنی جیسے واقعات میں ملوت ہیں۔ اس جیل میں منظم جرائم پیشہ گروہ ’ٹیرن ڈی آرگوا‘ کے سرغنہ ہیکٹر گیریرو فلورس قتل اور منشیات کی سمگلنگ کے جرم میں 17 سال کی قید کاٹ رہے تھے۔ ایک تنظیم ’ونڈو ٹو فریڈم‘ کے کوآرڈینیٹر کارلوس نیتو کے مطابق وہ اتنا طاقتور تھا کہ جیل سے آزادانہ طور پر اندر باہر آتا جاتا تھا۔وینزویلا کی ایک صحافی اور گینگ کے بارے میں ایک کتاب کی محقق رونا ریسکیز کہتی ہیں کہ جیل میں یہ افراد محفوظ ہوتے ہیں اور وہیں سے پورا آپریشن چلاتے ہیں۔ ارجنٹائن میں منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ایک گینگ ’لاس مونوس‘ کے مقید رہنماؤں کی ہدایت پر کوکین کی سمگلنگ کا نیٹ ورک چلانے والے متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار افراد کی جانب سے دیے گئے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ کیسے جیل سے منشیات کی تقسیم اور منی لانڈرنگ کا ایک فعال نیٹ ورک چلایا جا رہا ہے۔میکسیکو میں جہاں گوزمین اور ال چاپو جیسے منشیات فروشوں نے انتہائی سکیورٹی کی جیلوں میں بیٹھ کر اپنے بہت وسیع پیمانے پر پھیلے غیر قانونی کاروبار کو برقرار رکھا۔ ایک اندازے کے مطابق جیلوں سے ہر سال لاکھوں بھتہ خوری کی فون کالز بھی کی جاتی ہیں۔لاطینی امریکہ کے چند ممالک کے حکمرانوں نے کھلے عام اعتراف کیا ہے کہ ان کے ممالک میں واقع جیلوں پر ’مافیا کا راج‘ ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}