منشیات سمگلر، قاتل اور اجرتی جنگجو: روس تربیت یافتہ افسران کی ہلاکتوں سے پیدا ہونے والی کمی کیسے پوری کر رہا ہے؟

روس

  • مصنف, اولگا ایوشینا، بیکی ڈیل اور جوزف لی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

جنگ کے میدان میں نقصانات کے بارے میں روس نے تاریخی اعتبار سے ہمیشہ ہی غیر معمولی حد تک رازداری سے کام لیا ہے۔ اسی لیے جب روس کی فوج نے یوکرین پر حملہ کیا تو بی بی سی نے ہلاکتوں کی گنتی اور تصدیق کا عمل شروع کر دیا۔

بی بی سی کی اس کوشش کے نتیجے میں ہم جانتے ہیں کہ اب تک کم از کم 25 ہزار روسی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

یہ اعداد و شمار روسی افواج پر اس جنگ کے اثرات کا ٹھوس ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ اس تحقیق نے کئی متاثرہ خاندانوں کی بھی مدد کی کیونکہ بہت سے رشتہ داروں کو اپنے پیاروں کے بارے میں اس وقت تک پتا نہیں تھا جب تک بی بی سی نے ان سے رابطہ نہیں کیا تھا۔

دو ریکروٹوں کی کہانی

سارجنٹ نکیٹا لوبریٹس روسی سپیشل فورسز میں سکواڈ لیڈر تھے جو گزشتہ سال 20 مئی کو مشرقی یوکرین کے ایک گاوں میں ہلاک ہوئے۔ ان کی عمر 21 سال تھی۔

تقریباً ایک سال بعد الیگزینڈر زبکوو کے رشتہ داروں کو ان کی ہلاکت کا علم ہوا۔ وہ باخموت کی لڑائی میں ہلاک ہوئے تھے۔ 34 سالہ الیگزینڈر منشیات سے متعلقہ جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے نو سال قید کی سزا کاٹ رہے تھے جب انھوں نے روس کی جانب سے کرائے پر لڑنے والے ویگنر گروپ میں اس امید سے شمولیت اختیار کی کہ ان کو آزادی ملے گی۔

یہ دو لوگ ان 25 ہزار ہلاک ہونے والے جنگجوؤں میں سے ہیں جن کی شناخت بی بی سی نے روسی میڈیا گروپ میڈیازونا اور رضاکاروں کی ایک ٹیم کی مدد سے کی ہے جس کے دوران سرکاری رپورٹس، اخبارات، سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ نئی تعمیر شدہ یادگاروں اور قبروں کا جائزہ لیا گیا۔

یہ دونوں اشخاص یوکرین پر حملے کے بعد سے روس کی فوج کے بدلتے ہوئے چہرے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی فوج ہے جس میں کم تربیت یافتہ جنگجووں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

جنگ کے آغاز پر جن روسی فوجیوں کی ہلاکت بی بی سی نے ریکارڈ کی ان کی اوسط عمر 21 سال تھی اور وہ کم درجے کے تربیت یافتہ سپاہی تھے بالکل سارجنٹ نکیٹا لوبریٹس کی طرح۔

سارجنٹ نکیٹا لوبریٹس

،تصویر کا کیپشن

سارجنٹ نکیٹا لوبریٹس

سارجنٹ نکیٹا کے والد کونسٹینٹائن کے مطابق وہ سکول چھوڑنے سے قبل ہی چھاتہ بردار فوجی بننا چاہتے تھے۔ نکیٹا یوکرین کی سرحد سے ساٹھ میل دور بریانسک نامی شہر کے رہائشی تھے۔ گریجویشن سے پہلے ہی انھوں نے مارشل آرٹس کی تربیت لینا شروع کر دی تھی۔ انھوں نے پیراشوٹ سے چھلانگ لگانا بھی سیکھ لی تھی۔

اپنی کوششوں سے وہ روس میں چھاتہ برداروں کی ٹریننگ اکیڈمی ریازان ہائر ایئر بورن سکول میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد انھوں نے روسی انٹیلیجنس جی آر یو کے سپیشل فورسز بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی۔

ان کے والد کے مطابق یوکرین پر حملے کے تین ماہ بعد سارجنٹ نکیٹا اور روسی فوجیوں کی ایک چھوٹی سی ٹیم پر خارخیو کے شمال میں حملہ ہوا جس میں وہ ہلاک ہوئے۔

ان کو اپنے آبائی شہر میں ’ہیروز کی وادی‘ نامی قبرستان میں دفنایا گیا اور ’آرڈر آف کرج‘ نامی اعزاز سے بھی نوازا گیا۔

جنگ کے ابتدائی مہینوں میں ایسی ہزاروں کہانیاں سامنے آئیں جو رفتہ رفتہ کم ہونا شروع ہو گئیں۔

حالیہ مہینوں کے دوران یوکرین میں ہلاک ہونے والے ایک عام روسی فوجی کی عمر 34 سال ہے جو سزا یافتہ بھی ہے بالکل الیگزینڈر زبکوو کی طرح۔

الیگزینڈر جیسے قیدی جو ویگنر گروپ کے دستوں میں شامل ہو کر لڑ رہے ہیں کوئی فوجہ عہدہ نہیں رکھتے۔ الیگزینڈر روس کے شمال مغربی ساحلی شہر سیویروڈونسک میں پیدا ہوئے جہاں روسی بحریہ کا بڑا اڈہ بھی موجود ہے۔

الیگزینڈر زبکوو

،تصویر کا کیپشن

الیگزینڈر زبکوو

عدالتی ریکارڈ کے مطابق 2014 میں قتل کے جرم میں ان کو آٹھ سال اور چھ ماہ قید کی سزا ہوئی۔ اس وقت وہ بیروزگار اور ایک بچے کے باپ تھے۔

2020 میں ان کو پیرول پر رہائی ملی لیکن ایک سال بعد ہی وہ ایک ساتھی کے ہمراہ 600 گرام منشیات رکھنے کے جرم میں پکڑے گئے۔ عدالت نے ان کو نو سال قید کی سزا سنائی۔

جب ویگنر گروپ نے جیلوں سے لوگوں کو جنگ کے لیے بھرتی کرنا شروع کیا تو الیگزینڈر بھی ماہانہ ایک لاکھ روسی روبل کی تنخواہ ملنے کے وعدے پر گزشتہ سال نومبر میں اس میں شامل ہو گئے۔ ان کو کہا گیا کہ اگر انھوں نے چھ ماہ تک جنگ لڑی تو ان کو رہائی مل سکتی ہے۔

لیکن پانچ ماہ بعد وہ ہلاک ہو گئے جب ویگنر گروپ باخموت شہر پر قبضے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان کو 28 اپریل کو آبائی شہر میں دفنایا گیا۔

قبرستان

تربیت یافتہ افسران کی ہلاکت

رائل یونائیٹڈ سروس انسٹیٹیوٹ میں زمینی جنگ کے ماہر ڈاکٹر جیک واٹلنگ کا کہنا ہے کہ الیگزینڈر اور ان جیسے لوگوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

بی بی سی کے ریکارڈ کے مطابق ہلاک ہونے والے سابق قیدیوں میں معمولی جرائم کرنے والوں سے لے کر گینگ لیڈرز تک شامل ہیں۔ ایک ایسا مجرم بھی محاذ پر ہلاک ہوا جسے دوسری عالمی جنگ میں لڑنے والے ایک 92 سالہ سابق روسی فوجی کو قتل کرنے کے جرم میں سزا ہوئی تھی۔

ڈاکٹر جیک واٹلنگ کہتے ہیں کہ ’ان کو محاذ پر اسی امید سے بھجوایا جاتا ہے کہ وہ ہلاک ہو جائیں گے اور اسی لیے روسی فوج بڑی تعداد میں ان کا استعمال کر رہی ہے۔‘

جنگی حکمت عملی میں یہ تبدیلی ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے ثابت ہوتی ہے۔ جنگ کے پہلے تین ماہ کے دوران روس نے کافی تعداد میں تربیت یافتہ سپاہی کھوئے لیکن گزشتہ تین ماہ سے غیر تربیت یافتہ جنگجو زیادہ تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں۔

ڈاکٹر جیک واٹلنگ کے مطابق روس اپنے تربیت یافتہ فوجیوں کو جان بوجھ کر بچا رہا ہے اور ان سے صرف اس وقت حملے کرواتا ہے جب حالات بہتر ہوں۔

بی بی سی نے اب تک 21 ہزار روسی فوجی افسران کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روس جونیئر افسران پر جنگ میں مغربی افواج کی نسبت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ ان میں سے 242 لیفٹینینٹ کرنل یا اس سے اوپر کے رینک کے افسر تھے۔

اعداد و شمار کے مطابق اب تک تقریبا 159 پائلٹ بھی ہلاک ہوئے ہیں جن کا متبادل تلاش کرنا وقت طلب کام ہے۔ ایک جنگی طیارے کے پائلٹ کی تربیت سات سال میں ہوتی ہے جس پر لاکھوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔

روس

،تصویر کا ذریعہReuters

ایسے ہی نقصانات کی وجہ سے ریٹائر ہو جانے والے فوجی بھی واپس بلائے جا رہے ہیں جیسا کہ میجر جنرل کنامت بوٹاشیو۔

جنرل کنامت کا کیریئر 2012 میں اس وقت ختم ہو گیا تھا جب انھوں نے بنا اجازت ایک لڑاکا طیارہ اڑایا اور اسے کریش کر دیا لیکن گزشتہ سال مئی میں 63 سال کی عمر میں وہ ایک ایس یو 25 لڑاکا طیارہ اڑا رہے تھے جب مشرقی یوکرین میں لوہانسک کے قریب ان کا طیارہ مار گرایا گیا۔

ہمارے اعداد و شمار کے مطابق وہ ہلاک ہونے والے سب سے عمر رسیدہ شخص نہیں تھے۔ میخائل شوالوو نے 71 سال کی عمر میں خدمات سرانجام دینے کی پیشکش کی۔ وہ ایک ریٹائرڈ پاور پلانٹ ورکر تھے۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پہلے تو ان کی پیشکش کو ٹھکرا دیا گیا لیکن پھر ان کو محاذ پر بھجوا دیا گیا جہاں وہ 10 دسمبر کو ہلاک ہو گئے۔

قابل بھروسہ اعداد و شمار

ان اعداد و شمار کو شروع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ بی بی سی روس کا سٹاف جانتا تھا کہ شاید ایسا کوئی قابل بھروسہ ریکارڈ بعد میں دستیاب نہیں ہو سکے گا جس سے جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کا علم ہو سکے۔

جنگ میں تمام حریف اپنے نقصانات چھپانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن روس میں تاریخ رہی ہے کہ جنگی ہلاکتوں کو ضرور سے زیادہ ہی چھپایا جاتا ہے جس کی وجہ فوج کی رازداری یا پھر قوم کا مورال بتایا جاتا ہے۔

افغان جنگ ہو یا چیچنیا کی لڑائی، کئی سابق فوجی اور ان کے اہلخانہ اب تک ہلاک ہونے والوں کے ریکارڈ درست کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حتی کہ دوسری عالمی جنگ میں ہونے والی کئی ہلاکتیں بھی اب تک سرکاری سطح پر تسلیم نہیں کی گئیں۔

میڈیازونا اور روسی عوام کی جانب سے ملنے والی معلومات کی مدد سے بی بی سی متعدد ہلاکتوں کی تصدیق کی جس کے لیے میڈیا رپورٹس، مقامی حکام کے بیانات اور سوشل میڈیا پر خاندان یا دوستوں کی پوسٹس کا استعمال بھی کیا گیا۔

اس مشق کے دوران ملک بھر میں جنگی یادگاروں کا بھی جائزہ لیا گیا اور رضاکاروں نے نئی قبروں کی تصاویر کھینچیں تاکہ ہر ہلاکت کی شناخت کے ساتھ تصدیق ہو سکے۔

اس مشق کے دوران ویگنر کے لیے لڑتے ہوئے ہلاک ہونے والوں کے لیے سات نئے قبرستان دریافت ہوئے جن میں سے چھ روس جبکہ ایک مشرقی یوکرین میں ہے۔ ان میں سے ایک کو، جو جنوبی روس میں بکنسکایا کے مقام پر واقع ہے، سیٹلائٹ تصاویر کے ذریعے گزشتہ مہینوں میں پھیلتا ہوا دیکھا گیا۔

روس

،تصویر کا کیپشن

بکنسکایا کے مقام پر واقع قبرستان

روس نے آخری بار جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ سال ستمبر میں فراہم کی تھی جو 5937 تھی۔ بی بی سی کے اعداد شمار کے مطابق اس وقت تک 6600 ہلاکتیں ہو چکی تھیں اور اب یہ تعداد 25 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔

فروری میں برطانوی خفیہ ایجنسیوں کے تخمینے کے مطابق 40 ہزار سے 60 ہزار روسی فوجی ہلاک ہو چکے تھے۔

بی بی سی نے روسی حکومت سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔

یوکرین میں روس کی فوج کی ہلاکتوں کی مکمل تصویر بی بی سی کے اعداد و شمار سے واضح نہیں ہو سکتی کیوں کہ ہم نے صرف ایسے افراد کو ہی شامل کیا جن کے بارے میں معلومات مل سکیں۔ روس کی وسعت کو دیکھتے ہوئے رضاکاروں کے لیے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ہر قبرستان کا پتا چلائیں۔ ان اعداد و شمار میں وہ روسی علیحدگی پسند بھی شامل نہیں ہیں جو ڈونباس کے علاقے میں موجود ہیں۔

نامکمل ہونے کے باوجود یہ اعداد و شمار چند خاندانوں کو وہ معلومات فراہم کر سکے جو روسی حکام بھی نہیں دے پائے۔

اینا کی کہانی

جب بی بی سی نے دسمبر میں اینا (فرضی نام) سے رابطہ کیا تو ان کو اپنی بیٹی کے باپ فیل نبیوو پر بیتنے والی مکمل کہانی کے بارے میں صرف شبہات تھے۔

’کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟ مجھے نہیں پتا کہ وہ کہاں دفن ہے اور وہ کیسے ہلاک ہوا۔‘

فیل نبیوو کی قبر بکنسکایا قبرستان میں ملی تھی۔

روس

وہ گزشتہ سال چھ اکتوبر کو 60 سال کی عمر میں اس وقت ہلاک ہوئے تھے جب باخموت پر قبضے کی جنگ جاری تھی۔

اینا نے ہمیں بتایا کہ ان کی علیحدگی ہو چکی تھی لیکن ان کے درمیان دوستی کا رشتہ قائم رہا۔ ’وہ ایک اچھا شخص تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ فیل کو پیسوں کی ضرورت تھی اور وہ گاڑیوں کے پرزے چرایا کرتا تھا۔ اسی وجہ سے فیل جیل پہنچے جہاں سے ویگنر گروپ نے ان کی خدمات حاصل کیں۔

روس میں ویگنر گروپ کے لیے لڑنے والوں کی موت کی تصدیق بہت مشکل ہے۔ جب اینا مقامی ریکروٹمنٹ دفتر گئیں تو ان کو کہا گیا کہ نبیوو کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔

جنگ میں ہلاکت کی سرکاری تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے خاندان کے لیے ہلاک ہونے والوں کی تنخواہ یا کسی قسم کی سرکاری مالی مدد حاصل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

اینا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ صرف یہ جاننا چاہتی تھیں کہ نبیوو زندہ ہے یا نہیں۔ ’آپ کے الفاظ کے علاوہ میرے پاس کوئی تصدیق نہیں۔ میں ان کے میڈل لینا چاہوں گی، جو کسی بھی قسم کی یادگار تو ہو کیونکہ یہ شخص مجھے عزیز تھا۔‘

’ڈھائی کروڑ ریزرو‘

ڈاکٹر جیک واٹلنگ کا کہنا ہے کہ روس کا ماننا ہے کہ اگر وہ کچھ اور وقت تک ڈٹا رہے گا تو مغربی ممالک کی جانب سے یوکرین کی حمایت میں کمی آئے گی۔

’لیکن دوسری جانب اگر یوکرین حالیہ جوابی کارروائی میں روسی دفاعی لائن کو توڑ دیتا ہے تو غیر تربیت یافتہ فوجی دستے بڑا نقصان اٹھائیں گے۔‘

تاہم ڈاکٹر جیک واٹلنگ کے مطابق ’جو بھی ہو، روس کے پاس فوجی کم نہیں ہوں گے۔‘ وہ روسی وزیر دفاع سرگئی شوگیو کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب وہ کہتے ہیں کہ میرے پاس ڈھائی کروڑ ریزرو ہیں تو وہ مزاق نہیں کر رہے، وہ اپنے ارادے کے بارے میں کافی سنجیدہ ہیں۔‘

واضح رہے کہ روسی وزیر دفاع نے ملک کے عام شہریوں کو بھرتی کرنے کے بارے میں بات کی تھی۔

اس کا مطلب ہے کہ روسی ہلاکتوں کے بارے میں بی بی سی سٹاف کو پیغامات ملتے رہیں گے جیسا کہ ویرا نامی خاتون جو کئی ماہ سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ان کے بھائی کے ساتھ کیا ہوا۔ ان کو ایسی افواہیں سننے کو ملی تھیں کہ ان کا بھائی ویگنر گروپ کی جانب سے لڑتا ہوا ہلاک ہوا گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نہیں جانتے کہ کہاں جائیں، کس سے مدد مانگیں۔ ہمارے ساتھ بہت برا ہوا ہے، ہم سچائی تک کیسے پہنچیں گے؟‘

BBCUrdu.com بشکریہ