’منحوس ہیرے‘: وہ جواہرات جن سے جڑی کہانیوں نے ان کی مقبولیت اور قیمت کو بڑھا دیا
- مصنف, ڈیزی وُڈورڈ
- عہدہ, بی بی سی کلچر
’منحوس ہیرے‘، محبت کی معروف کہانیوں کی حسِین نشانیاں اور سیاہ تاریخ کی علامتیں، دنیا کے شاندار ترین جواہرات کے پس منظر میں کئی حیرت انگیز کہانیاں ہیں۔
مشہور کوہِ نور ہیرا ان مشہور زیورات میں سے ایک ہے جو حال ہی میں خبروں میں ایک بار پھر سے آیا ہے۔ یہ ہیرا برطانوی بادشاہ، شاہ چارلس کی تاجپوشی کی تقریب کا مرکزی کردار ہے۔
اسی طرح گذشتہ ماہ ہالی وڈ سیلیبرٹی کِم کردیشین اس وقت سرخرو ہوئی تھیں جب انھوں نے 163,800 سٹرلنگ پاؤنڈ کی خطیر رقم سے ایک صلیبی علامت والا لاکٹ خریدا، جسے شہزادی ڈیانا اکثر پہنتی تھیں۔
امریکی ریئلٹی ٹی وی سٹار کم کردیشین، جنھوں نے 2017 میں جیکی کینیڈی کی کارٹئیر ٹینک گھڑی بھی حاصل کی تھی، کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایسے زیورات کا ایک ذاتی خزانہ اکھٹا کر رہی ہیں، جو ان خواتین کی یاد دلاتے ہیں جن کے پہننے کی وجہ سے ان جواہرات کو شہرت ملی تھی۔
لندن کے وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم (V&A) میں زیورات کی نگہبان ہیلن مُولزورتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک شاندار ماضی کسی زیور کی قدر و قیمت میں اضافہ کر سکتا ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر اگر اُس کی سابقہ مالک انتہائی دلکش تھی اور اس نے شہزادی مارگریٹ یا الزبتھ ٹیلر کی طرح زیورات کا مجموعہ جمع کیا تھا تو وہ اور بھی زیادہ اہم بن جاتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک زیور بنیادی طور پر اپنے معیار اور جمالیاتی خوبصورتی کے لیے اپنی حیثیت میں قیمتی ہوتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ تاہم ’جس نے اسے تخلیق کیا ہے اگر وہ ایک معروف ڈیزائنر ہیں تو اُس سے اُس کی قدر و قیمت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔‘ لیکن اکثر اس زیور کی اپنی ایک قدر ہوتی ہے جو اسے بیش قیمتی بناتی ہے۔
یہ بات واقعی غیر معمولی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کئی ایک قابل ذکر قیمتی پتھروں اور غیر معمولی زیورات کے ڈیزائن ایسے تاریخی قصے کہانیوں سے جُڑ گئے جن کی وجہ سے یا تو انھیں حیران کن حد تک شہرت ملی یا بدنامی ملی۔
لازوال محبت کی کہانیوں کی نشانیوں سے لے کر نوآبادیاتی فتح کی علامتوں تک، ’منحوس‘ ہیروں سے لے کرحوصلہ دینے والے اعزازات تک، یہاں ہم دنیا کے 10 سب سے مشہور زیورات سے جُڑی کہانیوں کا ذکر کرتے ہیں۔
شہزادی ڈیانا جو صلیب پہنتی تھیں، حال ہی میں کِم کردیشین نے اسے خریدا ہے
شہزادی ڈیانا کی ’صلیب‘
کردیشیئن کی حاصل کردہ دلکش صلیب، جو چوکورشکل میں کٹے نیلم کے ساتھ 5.2 قیراط کے ہیروں سے مزیّن ہے، کو 1920 کی دہائی میں لندن کے ایک جیولر گارارڈ نے تخلیق کیا تھا۔
یہ آنجہانی شہزادی ڈیانا کی ایک بہت زیادہ پسندیدہ کمپنی تھی اور اسی کمپنی نے خاص طور پر ان کی منگنی کی انگوٹھی ڈیزائن کی تھی۔
پھر بھی مزین و مرصع یہ لاکٹ کبھی بھی ڈیانا کی ملکیت نہیں تھا: اس لاکٹ کو اس کے اصل مالک نعیم عطا اللہ نے ڈیانا کو مستعاراً دیا تھا، جو کہ ڈیانا کے قریبی دوست اور اس وقت ایسپرے اینڈ گارارڈ کے جوائنٹ مینیجنگ ڈائریکٹر تھے۔
ان کے بیٹے کے مطابق، نعیم عطا اللہ نے شہزادی کو یہ صلیب صرف پہننے کے لیے دی تھی۔ مولزورتھ کے مطابق اسے پہننے کے لیے کِم کردیشیئن ایک نہایت موزوں مالک ہیں۔
’وہ اپنی محنت سے اس مقام تک پہنچنے والی عورت ہیں، اور وہ اس لاکٹ کو اپنے لیے خرید رہی ہیں، جو کہ تجارتی سطح پر زیورات کو جمع کرنے والی دنیا میں طبقاتی اور صنفی مساوات کے لیے تبدیلی کا ایک بڑا اشارہ ہے۔‘
جاذبِ نظر اور شاندار صلیب 1980 کی دہائی کے دوران ڈیانا کے بڑھتے ہوئے بااختیار انداز میں تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔ جیسا کہ لندن میں زیورات کے ادارے ’سوتھبیز‘ کی سربراہ، کرسٹیان سپوفورتھ نے فروخت سے پہلے اشارہ کیا کہ ’کسی حد تک یہ غیر معمولی لاکٹ شہزادی کی اپنی زندگی کے اس خاص لمحے میں اس کے زیورات اور زیورات کے انتخاب میں بڑھتی ہوئی خود اعتمادی کی علامت ہے۔‘
مثال کے طور پر جب اکتوبر1987 میں انھوں نے بڑی صلیب کو ’برتھ رائٹ‘ چیریٹی کی تقریب کے موقع پر پہنا تھا، تو انھوں نے اس صلیب کو موتیوں کے ایک ہار اور اُس سے ملتے جلتے جامنی رنگ کے اُس لباس کے ساتھ پہنا تھا جو الزبیتھن طرز کا تھا۔
’بلیک اورلوف‘ ہیرا جو بھگوان برہما کی آنکھ بھی کہلاتا ہے، اسے ’منحوس ہیرا‘ کہا جاتا ہے اور کہتے ہیں جو بھی اس کا مالک بنتا ہے وہ مر جاتا ہے
منحوس ’بلیک اورلوف‘ ہیرا
سیاہ کرسٹل لائن ہیرے اپنے آپ میں قابل ذکر ہیں، یہی وجہ ہے کہ بلیک اورلوف ڈائمنڈ، ایک تکیے کی شکل کا 67.49 قیراط کا پتھر، جو ایک الگ بندوق رنگت والی دھات سے جڑا ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ اس کی دل دہلا دینے والی ایک کہانی بھی جُڑی ہوئی ہے۔
شاید یہ اپنی نوعیت کا سب سے نایاب ہیرا ہے۔ جیسا کہ کہانی بیان کی جاتی ہے اصل کھردرا 195 قیراط کا ہیرا ہندو دیوتا برہما کے ایک بُت سے چوری کیا گیا تھا، جو 19ویں صدی کے ہندوستان میں واقع ایک مندر میں واقع ہے۔
اس کے بعد اس ’منحوس‘ ہیرے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس کے چور کی موت، اور اس کے تین مالکان کی خودکشی کا سبب بنا: ایک روسی شہزادی نادیہ ویگن اورلوف، ان کے ایک رشتہ دار، اور جے ڈبلیو پیرس جو ہیرے کا سوداگر تھا جس نے اسے امریکہ میں درآمد کیا تھا۔
امریکی محققین نے اس ہیرے کی ابتدائی تاریخ پر شک کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ماہرین اس بات کا امکان نہیں سمجھتے ہیں کہ ہیرے کی ابتدا ہندوستان میں ہی ہوئی تھی اور نادیہ ویگن اورلوف نامی کردار کے وجود پر بھی شک کرتے ہیں۔
تاہم جو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ آخر کار ہیرے کو دوبارہ کاٹ کر تین انفرادی جواہرات بنانے کے لیے اسے توڑنے کی کوشش کی گئی تھی تاکہ اس کی نحوست ختم ہو سکے، لیکن اس میں ناکامی ہوئی اور یہ ہیرا کسی بھی نقصان کے بغیر محفوظ رہا۔
،تصویر کا ذریعہAlamy
’پیراگرینا موتی‘(قصہ عاطفیہ)
سنہ 1576میں پانامہ کے ساحل سے ملنے والا ناشپاتی کی شکل کا ’لا پیریگرینا‘ موتی، جس کا حُسن دیکھ کر دل کی دھڑکن رُک جائے، قدرت کا ایک نایاب مظہر ہے۔
وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم کی ہیلن مولزورتھ وضاحت کرتی ہے کہ ’یہ دنیا میں صرف ایک سب سے زیادہ کامل موتی ہے، اور اس میں رومانوی کے ساتھ ساتھ عظیم تاریخ بھی پنہاں ہے۔‘
202.24 اناج کے دانوں (50.56 قیراط) کا وزنی یہ موتی ابتدائی طور پر سپین کے فلپ دوم نے انگلینڈ کی اپنی دلہن ملکہ میری اول کے لیے خریدا تھا اور نپولین کے بڑے بھائی، جوزف نپولین بوناپارٹ کے ہاتھ میں آنے سے پہلے اسے ہسپانوی شاہی خاندان میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
بہت بعد میں، 1969 میں اسے رچرڈ برٹن نے الزبتھ ٹیلر کے لیے خریدا اور کارٹئیر کے ڈیزائن کردہ ہار پر دوبارہ جوڑا گیا۔
مولزورتھ موتی کی اصل کہانی کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’یہ ایک زبردست محبت کی کہانی ہے بلکہ ایک مزے کی کہانی بھی ہے۔ ٹیلر نے اپنی سوانح عمری میں بتایا کہ کس طرح ایک بار برٹن کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوئے، اس نے محسوس کیا کہ موتی اس کی زنجیر سے ڈھیلا ہو گیا اور گر گیا۔ اس نے اپنے کتے کو قالین پر کچھ چباتے ہوئے پکڑنے کے لیے نیچے دیکھا تو موتی اس کے دانتوں کے درمیان تھا۔ خوش قسمتی سے وہ اسے اس کے منھ سے نکالنے میں کامیاب ہوگئی۔‘
لا پیریگرینا کو نیلامی کے ادارے کرسٹیز نیویارک نے 2011 میں ایک کروڑ 12 لاکھ ڈالر میں فروخت کیا تھا، جو اس وقت نیلام ہونے والا سب سے مہنگا قدرتی موتی تھا۔
،تصویر کا ذریعہAlamy
اس منحوس ’ہوپ ہیرے‘ کی ایک بہت ہی دلچسپ تاریخ ہے، یہ 1912 میں ایک امیر خاتون ایولین والش میکلین کو فروخت کیا گیا تھا
’ہوپ‘ نامی منحوس ہیرا
ایک اور سحر انگیز ماضی کی کہانی کے ساتھ ’منحوس‘ سمجھا جانے والا ’ہوپ ہیرا‘ امریکی میوزیم، سمتھسونین کے قومی جواہرات کے مجموعے کا سب سے اعلیٰ زیور ہے۔
’یہ ایک بہت ہی نایاب گہرے نیلے رنگ کا ہیرا ہے، جس کا نام اس کے ایک مالک کے نام پر رکھا گیا تھا۔‘
کرسٹیز لندن میں زیورات کی ماہر اربیلا ہِس کوکس، 45.52 قیراط کے اپنی نوعیت کے سب سے مشہور ہیرے کے بارے میں بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ’جب یہ بنفشی روشنی کے سامنے آتا ہے تو یہ اتنا حسین ہو جاتا ہے کہ بیان نہیں کیا جا سکتا، اور یہ حُسن اس کی پُر اسراریت میں اضافہ کرتا ہے۔‘
اپنی 1996 کی کتاب ’دی ان اِکسپلینڈ‘ میں ہوپ ہیرے کی من گھڑت کہانی کا ذکر کرتے ہوئے، کارل شوکر نے لکھا ہے کہ اسے ایک ہندو پجاری کے ذریعہ ’غیر اخلاقی طور پر ایک انڈین مندر کے بت کی پیشانی سے نکالا گیا‘ جس نے اس کی نحوست کو جنم دیا اور پھر وہ تباہ بھی ہوا۔
ہِس کوکس اس کی وضاحت کرتی ہیں کہ 1668 میں ہیرے کو فرانس کے لوئس چہارم نے خریدا تھا۔ ’اسے صرف فرانس کے انقلاب کے دوران چوری کیا گیا تھا کہ لوئس چہارم اور میری اینٹوئینٹ اس کی نحوست کا شکار ہو گئی تھے۔‘
پیئر کارٹئیر نے شاندار سفید ہیروں کے ہار میں ہوپ ہیرے کو جُڑ دیا تھا جو اب اسی میں مُزیّن ہے، جسے اس نے 1912 میں کان کنی کی بدقسمت خاتون ایولین والش میکلین کو فروخت کر دیا تھا۔
’1958 میں، ہوپ کے اس وقت کے مالک، جیولر ہیری ونسٹن نے اسے سمتھسونین کو عطیہ کیا تھا۔ ہِس کوکس کے مطابق اُسے ’ایک بہت ہی سود مند ٹیکس بچانے کا ماہر‘ سمجھا جاتا ہے اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اس کی نحوست دور ہو گئی ہے۔
والِس سمپسن کی فرمائیش پر 1952 میں تیار کیا گیا، کارٹئیر کا سُلیمانی پتھروں اور ہیروں سے مُزّین پینتھر بریسلیٹ (کڑا) جو 2010 کی سوتھبیز کی نیلامی کے دوران سب ہر ایک کے لیے مرکزِ نگاہ تھا۔
والِس سِمپسن کا کارٹئیر پینتھر بریسلیٹ
برطانیہ کے ایڈورڈ ہشتم نے 1936 میں امریکہ کی معروف امیر خاتون والس سمپسن کے لیے برطانوی تخت سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔
ان کا رومانوی تعلق کارٹئیر جیولرز کے فرمائشی طور پر تیار کیے گئے شاندار جواہرات کے مجموعے میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔
یہ جواہرات دونوں نے اپنی محبت کے دوران ایک دوسرے کے لیے بنوائے تھے۔ جن میں سے زیادہ تر سوتھبیز نے 2010 کی نیلامی میں فروخت کیے تھے۔
نیلامی کے دوران سب کی مرکزِ نگاہ بننے والا سمپسن کا 1952 کا سُلیمانی اور ہیرے سے مزین پینتھر بریسلیٹ (کڑا) تھا، جو مرکت کے پتھروں سے بھرا ہوا تھا۔
اسے پیرس میں اس شاہی جوڑے کی جلاوطنی کے دوران ایڈورڈ نے والِس سمپسن کو تحفہ میں دیا تھا۔
سوتھبیز پیرس میں زیورات کے شعبے کی سربراہ میگالی ٹیسیئر بی بی سی کلچر کو بتاتی ہے کہ ’اس فن پارے میں تقریباً ہر وہ معیار ہے جو زیورات کے ایک شاہکار کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ کارٹئیر کی تاریخ میں بہت اہم ہے۔ اسے (خواتین جیولری ڈیزائنر) جیان ٹوسینٹ نے ڈیزائن کیا تھا، جسے لوئس کارٹئیر نے ’لا پینتھر‘ کا عرفی نام دیا تھا۔‘
’لہذا آپ کے پاس معیار، کہانی والا ڈیزائن، اور یقیناً رومانوی بنیاد، سب ہی اس کی قدر و منزلت میں اضافہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘
میڈونا، جو اس وقت سمپسن کی دستاویزی فلم ’وی‘ بنا رہی تھیں، کہا جاتا ہے کہ انھوں نے نیلامی سے پہلے بریسلٹ کو آزمائشی طور پر پہنا تھا، لیکن خریدار جس نے فیلائن فائنری کے لیے 45 لاکھ پاؤنڈز ادا کیے تھے اُس کا نام کبھی افشاں نہیں کیا گیا۔
،تصویر کا ذریعہAlamy
کوہِ نور ہیرا پنجاب کے حکمران مہا راجہ دلیپ سنگھ کی ملکیت تھا، بعد میں یہ برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کے پاس پہنچ گیا
کوہِ نُور ہیرا
دنیا کے سب سے بڑے کٹے ہوئے ہیروں میں سے ایک، 105.6 قیراط کا کوہ نور ہیرا بھی برطانوی شاہی خزانے کے زیورات میں سب سے زیادہ متنازعہ شے ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ قرون وسطیٰ کے جنوبی انڈیا میں کان کنی کی گئی تھی لیکن اس ہیرے کی تحریری تاریخ صرف 1628 تک کی ہے، جب ہیرے کو مغل بادشاہ شاہ جہاں کے تاج میں جُڑا گیا تھا۔
1739 میں تخت فارس کے حکمران نادر شاہ نے دہلی پر اپنے حملے کے دوران اسے لوٹ لیا، اور وہ اس ہیرے کو افغانستان لے گیا۔
سمتھسونین میگزین کے مطابق، یہ پتھر پھر ’ایک کے بعد ایک خون آلود واقعہ میں مختلف حکمرانوں کے ہاتھوں میں آتا رہا‘، اور پھر انڈیا میں آنے سے پہلے، 1813 میں سکھ حکمران رنجیت سنگھ کے تاج کی زینت بنا۔
برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی اس وقت تک برصغیر کے بیشتر حصے کو نوآبادیاتی بنانے میں مصروف تھی۔ اسے اُس دوران اس ہیرے کے بارے میں معلوم ہو چکا تھا، اور وہ اس کی افسانوی حیثیت سے مسحور ہو کر اسے حاصل کرنے کا عزم کر چکی تھی۔
انھوں نے 1849 میں ایسا ہی کیا اور پنجاب کے تخت کے 10 سالہ وارث دلیپ سنگھ کو ہیرے اور خودمختاری دونوں سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا، اور کوہ نور ملکہ وکٹوریہ کو پیش کر دیا گیا۔
یہ پتھر 1851 کی عظیم نمائش میں پیش کیا گیا، جہاں اس کی چمک کی کمی کی وجہ سے اس کا مذاق اڑایا گیا، اور بعد ازاں اسے دوبارہ کاٹ کر پالش کیا گیا۔
اس دوران اس ہیرے کے بارے میں بھی خیال کیا جاتا تھا کہ یہ بھی منحوس ہے۔ کوہ نور اس وقت آنجہانی مادر ملکہ کے تاج میں جڑا ہے، لیکن انڈیا، پاکستان، ایران اور افغانستان کی حکومتوں نے نوآبادیاتی فتح کی اس واحد علامت کی واپسی کا مطالبہ کیا ہوا ہے۔
ایک ننھی سی گلابی رنگ کی انگوٹھی جس کے ہیرے میں ایک نقش تراشا گیا تھا، اس کی مالک انقلابِ فرانس سے پہلے کی ملکہ فرانس، مری انٹوئینٹ تھی۔ اس کی نیلامی 2018 میں ہوئی تھی۔
مری انٹوئینٹ کی گلابی انگوٹھی
قیمتی فن پاروں اور نوادرات کی نیلامی کے ادارے کرسٹی کی اربیلا ہِس کوکس کہتی ہیں کہ ’ان لوگوں کے لحاظ سے جو آپ اپنے زیورات کے مالک ہونے کی خواہش رکھتے ہیں، مری اینٹوئینٹ اس فہرست میں اول مقام رکھتی ہیں (یعنی اسے کئی نامور لوگ اپنی ملکیت میں رکھنا چاہتے ہیں)۔‘
اور اس بات کا ثبوت تو اس کے دیکھنے میں ہے: 10 حصوں پر مشتمل یہ انگوٹھی جو کبھی فرانسیسی ملکہ کی ملکیت تھی اور بعد میں اسے ایک امیر خاندان بوربن پارما نے خریدا تھا۔ سوتھبیز کی 2018 کی ریکارڈ توڑ نیلامی میں اس طرح کے زیورات لاکھوں ڈالروں میں فروخت ہوئے تھے۔
ایک خوبصورت قدرتی موتی کا لاکٹ جس سے کئی کہانیاں جُڑی ہوئی ہیں، سب سے زیادہ فروخت ہونے والا قیمتی فن پارہ تھا، جسے محفوظ کرنے سے پہلے میری اینٹوئینٹ نے ہاتھ سے لپیٹ کر ایک لکڑی کے ڈبے میں رکھا تھا اور برسلز بھیجا تھا۔
لیکن یہ تراشی گئی چھوٹی گلابی انگوٹھی ہے جسے سوتھبیز کی میگالی ٹیسیئر سب سے زیادہ خاص اور اہم سمجھتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے ہیروں میں ایم اے کے حروف کندہ کیے گئے ہیں، اور اندر میری اینٹوئینٹ کے بالوں کی ایک زُلف کا ٹکڑا ہے۔‘
’یہ انگوٹھی ناقابل یقین حد تک ان کی ذاتی زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ اسے اکثر پہنتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ اُس ماہر سے پوچھا گیا تھا جس نے ان زیورات کی قیمت کا تخمینہ لگایا تھا، کہ اس طرح کے نایاب نوادرات کتنے میں فروخت کیے جا سکتے ہیں۔ اس کا جواب تھا: بہت زیادہ۔ اس وقت اس کا تخمینہ آٹھ ہزار سے دس ہزار سوئس فرانک تھا، اور ہم نے اسے اس سے 50 گنا میں فروخت کیا۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اس منفرد ہیرے نے اوڈرے ہپبرن کو 1961 کی فلم ’بریک فاسٹ ایٹ ٹِفنی‘میں اس کے پریشان کن ماضی کی وجہ سے مشہور و معروف بنا دیا۔
’بریک فاسٹ ایٹ ٹِفنی‘ نامی ہیرا
اس ہیرے کو زیورات فروخت کرنے کی ایک اور کمپنی، ٹِفنی اینڈ کمپنی کے بانی چارلس لوئس ٹفنی نے 1870 کی دہائی میں خریدا، اور 1961 کی فلم بریک فاسٹ ایٹ ٹفنی کی پبلسٹی فوٹوز میں آڈری ہیپ برن نے پہن کر اسے شہرت دی۔
یہ انوکھا زرد رنگت والا ہیرا، جو کہ بصری طور پر شاندار اور ثقافتی طور پر بہت مقبول ہے، لیکن اس کے ماضی کی کہانی میں ایک مسئلہ ہے۔
128.54 قیراط کے اس ہیرے کو آج تک صرف چار خواتین نے پہنا ہے، سماجی طور پر معروف میری وائٹ ہاؤس، ہیپ برن (جس نے اسے ٹفنی جیولر جین شلمبرگر کے ربن روزیٹ کے ہار کے اشتہار میں پہنا تھا)، لیڈی گاگا اور بیونسے (ان دونوں میں ہر ایک نے اسے 2012 کے موقع پر پہنا تھا اور اس میں 100 قیراط کے سفید ہیرے لگے ہوئے ہیں)۔
لیکن آنکھوں کو خیرا کردینے والے اس شاندار ہیرے کی خصوصیت اس کے ساتھ جڑے پتھروں کی وجہ سے قدرے کم نظر آتی ہے۔
یہ ہیرا 1877 میں جنوبی افریقہ کی کمبرلے کان سے نکالا گیا تھا، جہاں سیاہ فام مزدوروں کو برطانوی نوآبادیاتی دور حکومت میں کام کے خوفناک حالات اور قابل رحم اجرتوں کو برداشت کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ کے 2021 کے کالم میں، مصنف کیرن عطیہ نے دلیل دی ہے کہ اگرچہ ’بلڈ ڈائمنڈ‘ کی اصطلاح عام طور پر ’خطرناک ملیشیا اور جنگجوؤں کی طرف سے اپنی کارروائیوں کے لیے مالی اعانت کے لیے استعمال کیے جانے والے وسائل کی طرف اشارہ کرتی ہے‘، لیکن ان ہیروں کے بارے میں ان کے لیبلز پر یہ اعتراف بھی لکھنے کی ضرورت ہے کہ ان ہیروں کی وجہ سے ’ہزاروں افریقی جانیں ضائع ہوئی اور کئی کمیونٹیز تباہ ہوئیں۔‘
نیلم کے پتھروں اور ہیروں سے جُڑا ہوا ایک مُکٹ (چھوٹا تاج) جسے شہزادہ البرٹ نے ملکہ وکٹوریہ کے لیے 1840 میں بنوایا تھا
ملکہ وکٹوریہ کا نیلم کے پتھروں اور ہیروں سے جُڑا ’چھوٹا تاج‘
وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم کے نامور زیورات کے خزانے میں سب سے زیادہ علامتی اہمیت کے حامل میں سے ایک وہ ہے جسے ہیلن مولزورتھ نے ایک ’خوبصورت لیکن انیق نیلم اور ہیرے کے مُکٹ (چھوٹا تاج)‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔
اسے 1840میں شہزادہ البرٹ نے ملکہ وکٹوریہ کے لیے ڈیزائن کروایا تھا، جس سال ان کی آپس میں شادی ہوئی تھی۔ اسے لندن میں کیچنگ اور ابود جیولرز کے جوزف کیچنگ نے بنایا تھا، اور یہ مُکٹ ملکہ وکٹوریہ کی زندگی بھر ان کی سب سے قیمتی چیزوں میں سے ایک رہا۔
مولزورتھ بتاتی ہے کہ ’ملکہ نے اِسے ایک نوجوان عورت کی حیثیت سے اپنے بالوں پر ایک چھوٹے تاج کے طور پر پہنا تھا، اور پھر دوبارہ اپنے شوہر کی موت کے بعد سوگ میں اپنی بیوگی کے لباس کے دوران اپنے سر پر پہنا۔ وہ اسے پہن کر اپنے شوہر البرٹ کے لیے اپنی لازوال محبت کا اظہار کرنا چاہتی تھی۔‘
نیلم شاہی خاندان کے لیے خاص طور پر ایک علامتی جواہر ہیں۔ مولزورتھ کہتی ہے کہ یہ ایسی چیز ہے جو وکٹوریہ کے لیے البرٹ کے ڈیزائن سے شروع ہوئی، اور ڈیانا کی منگنی کی انگوٹھی تک جاتی ہے۔
’وہ شاہی خاندان کے نیلے رنگ کے ساتھ ساتھ اُن کے ایمان اور اعتماد کی علامت ہیں، لہٰذا شادی کے لیے یہ ایک مثالی پتھر ہیں۔‘
مولزورتھ کے مطابق، یہ نیلے رنگ کے پتھر ’عوامی زندگی اور ذاتی زندگی دونوں کے لیے ایک علامتی معنی رکھتے ہیں۔‘
یہ دلکش ہیروں کا ہار نپولین نے اپنی دوسری بیوی مری لوئی کو دیا تھا جس میں 234 ہیروں کے پتھر جڑے ہوئے تھے۔
نپولین کا ہیروں کا ہار
نپولین کا تاریخی ہیروں کا ہار 1811 میں فرانسیسی شہنشاہ نے اپنی دوسری بیوی میری لوئی کو ان کے بیٹے نپولین دوئم، جو روم کے شہنشاہ تھے، کی پیدائش پر تحفے میں دیا تھا۔
چاندی اور سونے کے شاندار ڈیزائن کا تصور پیرس کے جوہری ایٹیاں نئٹوٹ اینڈ سنز نے پیش کیا تھا اور امریکی میوزیم سمِتھسونین کے مطابق، اس میں اصل میں 234 ہیرے جُڑے ہوئے تھے: 28 پرانے کان سے کٹے ہوئے ہیرے، نو پینڈیلوک اور 10 بریولٹس، جن کو دیگر قسم کے کئی ایک چھوٹے چھوٹے قیمتی جواہرات سے مزید بڑا بنایا گیا تھا۔
ہار کی دلکشی اور جاذب نظر ہونے پر ہس کوکس کا کہنا ہے کہ ’تمام پتھروں کی کان کنی انڈیا یا برازیل میں کی گئی تھی، جہاں سے یہ بہترین معیار کے ہیرے حاصل کیے گئے تھے۔ وہاں غیر معمولی لمبے اور پانی کے قطروں کی طرح صاف و شفاف نظر آنے والے ہیرے نکالے جاتے ہیں۔‘
نپولین کے زوال کے بعد، اس کی ہیپسبرگ بیوی اور اس کے بہت سے زیورات اس کے آبائی وطن ویانا واپس آگئے، اور اس کی موت کے بعد، یہ ہار آسٹریا میں اس کی بھابھی سوفی کے پاس چلا گیا۔
آرچ ڈچس نے دو پتھروں کو ہٹا کر بالیوں میں تبدیل کر کے اسے چھوٹا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب یہ نہیں معلوم کہ وہ بالیاں کہاں ہیں۔
اس کے علاوہ ہار 1948 تک اسی خاندان میں رہا، پھر اُسے پہلے ایک فرانسیسی کلکٹر کو فروخت کیا گیا، اور بالآخر امریکی کاروباری خاتون مارجوری میری ویدر پوسٹ کو فروخت کیا گیا، جس نے اسے 1962 میں سمتھسونین کو تحفتاً دے دیا تھا۔
Comments are closed.