مناہل العتیبی: محمد بن سلمان کی اصلاحات کی حامی سعودی خاتون جنھیں ’دہشت گردی قوانین‘ کے تحت 11 سال قید کی سزا سنائی گئی
جینیوا میں سعودی عرب کی حکومت کے سفارتی مشن کی جانب جاری کردہ ایک خط میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ مناہل ال عتیبی کے خلاف مقدمے میں جنوری کے ماہ میں سزا سنا دی گئی تھی تاہم مقدمے کے بارے میں اس خط میں زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔واضح رہے کہ گذشتہ دو سال کے دوران سعودی عرب میں درجنوں افراد، جن میں اکثریت خواتین کی ہے، کو سوشل میڈیا پر مواد پوسٹ کرنے سے متعلق مقدمات میں قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اور لندن سے کام کرنے والی ’القسط‘ تنظیم کا کہنا ہے کہ مناہل 2017 میں سعودی عرب کے ولی عہد بننے والے شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے اعلان کردہ معاشرتی اور معاشی اصلاحات کے ابتدائی حامیوں میں شامل تھیں۔محمد بن سلمان کی جانب سے ان اصلاحات کے اعلان کے دو سال بعد مناہل نے جرمنی کے ایک نشریاتی ادارے ڈوشے ویلی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں لگتا ہے کہ وہ ’اپنی مرضی کا لباس پہننے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں آزاد ہیں۔‘مناہل نے اسی انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ ان کا رویہ ولی عہد کے بیان پر مبنی ہے کہ ’میرے پاس اپنی مرضی کا لباس پہننے کا اختیار ہے، لیکن اسے (لباس) قابل احترام ہونا چاہیے۔‘نومبر 2022 میں مناہل کو ایک ایسے وقت میں ’دہشت گردی‘ کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا جب سعودی عرب میں آن لائن کی دنیا میں حکومتی بیانیے سے اختلاف رائے کے خلاف کارروائیوں میں شدت آئی تھی۔،تصویر کا ذریعہAMNESTY INTERNATIONAL
رواں برس نو جنوری کے دن مناہل کو عدالت کی جانب سے 11 سال کی سزا سُنا دی گئی تاہم یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب جنیوا میں سعودی سفارت کاروں کی جانب سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق آفس کو ایک خط بھجوایا گیا جس پر 25 جنوری کی تاریخ درج ہے۔اس خط میں تحریر ہے کہ ’عدالت نے دہشت گردی کے الزامات میں انسداد دہشت گردی قانون کے آرٹیکل 43 اور 44 کے تحت مناہل کو مجرم قرار دیا‘ جن میں ’ایسے افراد کی سزاؤں کا تعین کیا گیا ہے جو کسی ویب سائٹ یا کمپیوٹر پروگرام یا الیکٹرانک آلات کا استعمال کرتے ہوئے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان قوانین کے تحت ایسے افراد کو بھی سزائیں دی جا سکتی ہیں جو کسی بھی طریقے سے افواہیں پھیلانے، جھوٹے بیانات پھیلانے یا دہشت گردی کے جرائم میں ملوث ہوں۔‘سعودی حکومت کے اس خط میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’عدالت نے مناہل کے خلاف تمام شواہد کا جائزہ لیا اور ان کی تصدیق کی اور اس عمل کے دوران سعودی عرب کی عالمی ذمہ داریوں کا مکمل خیال رکھا گیا۔‘خط میں کہا گیا ہے کہ ’سعودی حکومت اس بات پر زور دیتی ہے کہ حقوق کا دفاع کرنا ملکی قوانین کے تحت کوئی جرم نہیں لیکن کسی دہشت گرد کے عمل کو یہ کہہ کر درست قرار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے حقوق کا دفاع کر رہے تھے جو ناقابل قبول اور دہشت گردی کے جرائم کو قانونی قرار دینے کی کوشش ہے۔‘القسط میں کام کرنے والی لینا کا کہنا ہے کہ ’مناہل کا یہ اعتماد کہ وہ آزادی سے کام کر سکتی ہیں محمد بن سلمان کی جانب سے ملک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے اصلاحات کی ایک مثبت تشہیر ثابت ہو سکتا تھا لیکن اسے گرفتار کرنے اور سزا دینے سے سعودی حکام نے ایک بار پھر اپنی اصلاحات کی متضاد شکل دکھائی ہے جو ثابت کرتا ہے کہ سعودی حکام ملک میں خواتین پر قابو رکھنے میں کتنے پرعزم ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.