ملک میں بجلی لوڈشیڈنگ کی ذمہ دار پی ٹی آئی حکومت ہے جس نے 3 ہزار 200 میگا واٹ کے سستے ذرائع کے 3 پاور پلانٹس تاخیر کا شکار کیے اور سستی ایل این جی کی خریداری کا موقع بھی ضائع کردیا۔
موجودہ حکومتی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ حکومت نے پاور سکیٹر کا گردشی قرضہ 1152 ارب روپے سے بڑھا کر 2467 روپے تک پہنچا دیا، سابق حکومت کی غلطیوں اور بر وقت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کا پاور سیکٹر آپریشن تھیٹر میں پہنچ چکا ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت نے 720 میگا واٹ کے کروٹ پن بجلی منصوبے، 1214میگا واٹ کے تھر کول اور تریموں کے مقام پر 1263میگا واٹ کے پاور پراجیکٹ کو تاخیر کا شکار کیا، ان منصوبوں سے سستی بجلی پیدا ہونا تھی۔
تریموں کے مقام پر ایل این جی منصوبے کو نیب دباؤ کا شکار کیا گیا اور فنانشل کلوز میں بہت تاخیر کی گئی، اگر یہ تینوں سستے ذرائع کے منصوبے مکمل ہو جاتے تو آج شہری علاقے لوڈشیڈنگ سے بچ جاتے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی حکومت سستی ایل این جی کے معاہدے کرنے میں بھی ناکام رہی، 2020 میں ایل این جی کی قیمتیں 3 سے 5 ڈالر تک گرنے کے باوجود لمبی مدت کی خریداری کے معاہدے نہیں کیے گئے، ن لیگی دور کے معاہدوں کے تحت ایل این جی کی اوسط قیمت 8.02 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تھی اور اسپاٹ خریداری 9.44 ڈالر میں پڑی، حالیہ مہینوں میں ایل این جی کی اسپاٹ پرائس 38 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تک پہنچ گئی، اگر پی ٹی آئی حکومت نے سستی ایل این جی خریدنے کے معاہدے کیے ہوتے تو آج بجلی کے بل بھی کم آتے۔
ذرائع کے مطابق ن لیگ نے پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 1152 ارب روپے چھوڑا تھا، جو پی ٹی آئی حکومت نے 114 فیصد اضافے سے2467 ارب روپے تک پہنچا دیا، گردشی قرض بڑھنے میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری بھی شامل ہے۔
ذرائع وزارت توانائی کے مطابق بڑھتا گردشی قرض آئی پی پیز کو ادائیگیاں مشکل بنا رہا ہے، انہی عدم ادائیگیوں کے باعث کوئلے کے 3900 میگا واٹ کے 3 پلانٹس کم صلاحیت پر چل رہے ہیں۔
Comments are closed.