سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی۔
سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کے کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔
عدالت میں وکیل شاہ خاور نے کہا کہ اب اس درخواست کی ضرورت نہیں رہی، کل عدالت پہلے ہی یہ معاملہ اٹھا چکی ہے، یہ اس وقت ہم نے ایک کوشش کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت عدالت نے 14 مئی کو انتخابات کا آرڈر دیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ہم قانون کے مطابق ایسا کر سکتے ہیں جو آپ درخواست میں مانگ رہے ہیں؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ آپ کو درخواست دینی چاہیے تھی کہ 90 دن میں الیکشن نہیں کرا رہے ان کے خلاف کاروائی کریں، آپ الیکشن التواء میں ڈالنے والوں کی معاونت کیوں کرتے رہے؟
شاہ خاور نے کہا کہ اس وقت ایک کوشش کی گئی کہ انتخابات سے متعلق اتفاقِ رائے پیدا ہو، اب عدالت پورے ملک کے انتخابات سے متعلق مقدمہ سن رہی ہے۔
چیف جسٹس نے شاہ خاور سے استفسار کیا کہ کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں آپ کیا بات کر رہے ہیں؟
شاہ خاور نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم جاری کیا تھا، پھر ہم نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواست دائر کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہی تو سارا جھگڑا ہے، کیا اس وقت کوئی آرڈر آف دی کورٹ جاری ہوا تھا؟
وکیل شاہ خاور نے کہا کہ 4 آرڈر آف دی کورٹ جاری ہوئے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی مقدمے پر مختلف رائے ہو تو ایک آرڈر آف دی کورٹ جاری ہوتا ہے۔
وکیل شاہ خاور نے کہا کہ اس طرح کا آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہوا تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ کو تو 14 مئی کے انتخابات کے سپریم کورٹ کے آرڈر کی خلاف ورزی کی درخواست دائر کرنا چاہیے تھی، آپ نے یہ دخواست دائر کر کے آئین کی خلاف ورزی کی کوشش نہیں کی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا عدالت کے پاس ایسا اختیار ہے کہ کوئی فیصلہ جاری کر سکے؟
وکیل شاہ خاور نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بالکل سزا ملنی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کس شخص نے سپریم کورٹ کے 15 مئی کو انتخابات کرانے کے حکم کی خلاف ورزی کی؟ الیکشن کا فیصلہ دینے والے بینچ کا آرڈر آف دی کورٹ کہاں ہے؟ آرڈر وہ ہوتا ہے جس پر سب ججز کے دستخط ہوں۔
عدالت میں فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 14 مئی کے الیکشن کا فیصلہ دینے والا آرڈر آف دی کورٹ موجود ہی نہیں، 14 مئی کو انتخابات کا حکم دے کر 90 دن کی آئینی مدت کی خود عدالت نے بھی خلاف ورزی کی، عدالت نے 14 مئی کا آرڈر دیا وہ 90 دن سے باہر تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہی تو سمجھ نہیں آرہی کہ انتخابات کرانے کا کیا آرڈر تھا؟ یہ وہی کیس ہے ناں جس میں بہت سے ججز نے اپنا اپنا آرڈر لکھا، آرڈر آف دی کورٹ کیا ہوتا ہے اسی کے لیے آپ 21ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ پڑھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کے فیصلے میں اختلاف موجود تھا مگر دستخط سب ججز نے کیے۔
Comments are closed.