- مصنف, وقار مصطفیٰ
- عہدہ, صحافی و محقق
- 2 گھنٹے قبل
وہ بریگزٹ بہت شدید تھا لیکن ساڑھے چار سو سال پہلے انگلستان کے یورپ سے اسی اخراج سے اس ملک کے اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات کی ابتدا ہوئی تھی۔اپنے والد، ٹیوڈر بادشاہ ہنری ہشتم کی پیروی میں ملکہ الزبتھ اوّل نے رومن کیتھولِک چرچ سے تعلق توڑا تو سنہ 1570میں پوپ پیوس پنجم نے انھیں ’دکھاوے کی ملکہ اور جرائم کی خادمہ‘ قراردیتے ہوئے ان کی رعایا کو ان کے خلاف بغاوت کا حکم دے دیا۔اِنھیں پروٹیسٹنٹ ملکہ نے شادی سے انکار کیا تو کیتھولِک سپین کے بادشاہ، فلپ دوم نے برطانیہ کی نہ صرف یورپی منڈیوں تک رسائی روک دی بلکہ اس پر حملے کی تیاری بھی شروع کردی۔دفاعی خطرات اور معاشی ضروریات کے پیشِ نظر ملکہ نے یورپ سے پرے حلیف ڈھونڈنا شروع کیے۔
تاریخ دان نادیہ خان لکھتی ہیں کہ تب یہ مسلم دنیا ہی تھی جو ملکہ الزبتھ اوّل کو ایک اتحادی اور تجارتی شراکت دار کے طور پر قبول کر کے بالواسطہ ان کے بچاؤ کو آئی۔’تین لاکھ پاونڈ کی مقروض اس تنہا مملکت کے یورپ کے ساتھ تجارتی مواقع محدود تھے۔ سیاسی مصلحت کے تحت، ملکہ نے امیر مسلم دنیا کی جانب دیکھا۔ یہ سلطنت عثمانیہ اور مراکش کے حکمران تھے جنھوں نے دوستی کا ہاتھ بڑھا کر اور تجارت شروع کر کے انگلینڈ، جسے تب کم کم جانا جاتا تھا کو تباہ کن انجام سے بچایا۔‘ملکہ الزبتھ اول نے فارس (ایران)، سلطنت عثمانیہ اور مراکش سے رابطے کیے۔ انگریز سیاح انتھونی جینکسن فارس کے شاہ تہماسپ کے دربار میں پہنچے اور انھیں عبرانی، اطالوی اور لاطینی زبان میں لکھا ملکہ کا خط پیش کیا۔واپسی پر جینکسن نے ملکہ کو ایک تاتاری لونڈی اَور اسلطانہ پیش کی۔ وہ ملکہ کی ’عزیز اور پیاری‘ خادمہ بن گئیں جو غرناطہ ریشم کے کپڑے پہنتیں اور جنھوں نے ملکہ الزبتھ کو ہسپانوی چمڑے کے جوتوں کے فیشن سے متعارف کرایا۔روس اور فارس کے ساتھ تجارت کے لیے ماسکووی کمپنی بنائی گئی۔اینگلو- عثمانی تعلقات کا آغاز ملکہ الزبتھ اوّل اور عثمانی سلطان مراد سوم اور بعد میں ان کے اور سلطان کی اہلیہ صفیہ سلطان کے درمیان خطوط اور تحائف کے تبادلے سے ہوا۔ یہ تبادلہ 17 سال تک جاری رہا۔مورخ جیری بروٹن اپنی کتاب ’دی سلطان اینڈ دی کوئین‘ میں لکھتے ہیں کہ عثمانی سلطان سے پہلی بار رابطے میں ملکہ نے لکھا کہ پروٹسٹنٹ ازم اور اسلام ’بت پرستی‘ کی مخالفت میں ایک ہیں۔تحائف میں عثمانی حکمران زیورات، ریشم اور فیشن ایبل ترکی کے کپڑے بھیجتے۔ ملکہ الزبتھ کپڑے، گھڑیاں، گاڑیاں اور اپنی تصویر بھیجتیں۔مورخ کرسٹین ووڈ ہیڈ کے مطابق مئی سنہ 1580 میں دونوں کے درمیان ایک معاہدہ سے انگریزتاجروں کا مشرقی بحیرۂ روم میں عثمانیوں کے زیرِِ نگیں سمندروں، بندرگاہوں اور شمالی افریقہ کے باربری ساحلوں کے ساتھ محفوظ سفر ممکن ہوا۔’انگریز تاجر بحری قزاقی کی وجہ سے 1550 کی دہائی سے بحیرۂ روم میں مؤثر طریقے سے تجارت کرنے سے قاصر تھے۔‘،تصویر کا ذریعہART FUNDستمبر سنہ 1581 میں، علاقائی تجارت پر نئی اجارہ داری کے لیے ترکی کمپنی قائم کی گئی۔ دو سال بعد بحیرۂ روم ہی میں کام کرنے کے لیے وینس کمپنی بنی۔ 1592 میں یہ دونوں لیوانٹ کمپنی میں ضم ہو گئیں۔ یہ کمپنی 1825 میں تحلیل ہونے تک چلتی رہی۔تاریخ دان نبیل ماتر لکھتے ہیں کہ مراکش کے سعدی خاندان کے سلطان احمد المنصور نے بھی نہ صرف فوجی تعاون بلکہ انمول تجارتی تعلقات کا امکان بھی فراہم کیا۔1585 میں مراکش (تجارتی) کمپنی یا باربری کمپنی کی اجازت دیتے ہوئے ملکہ نے زور دیا کہ ’خطے کا متنوع سامانِ کاروبار۔۔۔ ’انگلستان کے‘ استعمال اور دفاع‘ کے لیے اہم ہے۔سنہ 1588 میں سپین کے بادشاہ فلپ دوم ایک بڑے بحری بیڑے کے ساتھ انگلینڈ پرحملہ آور ہوئے۔ لیکن بروٹن کے مطابق مشرقی بحیرۂ روم میں عثمانی بحری بیڑے کی نقل و حرکت سے130 جہازوں پر مشتمل آرماڈا مہلک طور پر تقسیم ہوگیا اور جنگ میں یہ ایک ایسی اہم پیشرفت تھی جس کے نتیجے میں انگلستان کی فتح ہوئی۔ اس خبر پر پوری مسلم دنیا میں جشن منایا گیا۔المنصور کے درباری مصنف الفشتالی نے لکھا کہ اللہ نے ہسپانویوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے ’بحری بیڑے کے خلاف ایک غضبناک ہوا (رِیحاً صرصرا) بھیجی۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesباربری کمپنی مراکش کے بحر اوقیانوس کے ساحل کے ساتھ تجارت کرتی۔1600 کی دہائی میں ویسٹ انڈیز سے پہلے مراکش ہی سے انگلستان چینی خریدتا تھا۔ انگریز تاجر کپڑا، ہتھیار، گولا بارود اور لکڑی مراکش کو فروخت کرتے۔ سلطنتِ عثمانیہ کو توپ ڈھالنے کے لیے ٹن اور سیسہ اور گولہ بارود برآمد کیا جاتا۔سینکڑوں انگریز مردوں اور عورتوں نے مسلم ممالک کا سفر کیا اوران میں سے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ ان میں نورفوک تاجر سیمسن رولی بھی شامل تھے۔ وہ حسن آغا کے نام کے ساتھ الجزائر کے چیف خواجہ سرا اور خزانچی اور عثمانی گورنر کے سب سے قابل اعتماد مشیروں میں سے ایک بن گئے۔فارس، ترکی، مراکش کے ساتھ سفارتی، سیاسی اور تجارتی تعلقات سے انگلینڈ کی معیشت تو تبدیل ہوئی ہی مگر یہ بدلاؤ بھی آیا کہ لوگوں کے کھانے، پینے اور یہاں تک کہ کیا کہا کے بارے میں جانا جاتا۔
مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کے اثرات
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesایلن میخائل لکھتے ہیں کہ ملکہ الزبتھ اول کے دانت خراب تھے۔ 16 ویں صدی میں مراکش سے انگلستان آتی چینی کی بڑی مقدار دانتوں کی خرابی کا سبب بنی۔ کینڈی فروٹ ان کے بے حد پسندیدہ تھے۔’لیکن الزبتھ کی بدقسمت مسکراہٹ کی کہانی ملکہ کے نہ ہونے کے برابر جزیرے اور مراکش کے سلطان اور بحیرۂ روم کے نصف حصے پر غلبہ رکھنے والی اور مشرق تک یورپ کی رسائی کو کنٹرول کرنے والی شاندار دولت مند مسلم دنیا کے درمیان معاشی، ثقافتی اور سیاسی تعلقات کی ایک بہت بڑی اور کہیں زیادہ اہم تاریخ کا صرف ایک پہلو ہے۔‘’پروٹسٹنٹ انگلستان کے اسلام کے ساتھ شدید تعامل نے انگریزی ثقافت، صارفیت اور ادب کو متاثر کیا۔‘بروٹن کے مطابق مسلم دنیا سے انگلستان میں داخل ہونے والی اشیا، خیالات اور یہاں تک کہ الفاظ نے انگریز زندگی کو بدل دیا۔’ترکی اور مراکش سے درآمدشدہ قالین لوگ سجانے لگے، نئے ڈیزائنوں میں ریشمی اور سوتی کپڑے پہننے لگے، میٹھی شراب پینے لگےاور ان کی خوراک میں مختلف مسالے جیسےسونف، جائفل، ہلدی اور پستے شامل ہوئے۔ صرف عثمانی یونانی جزیروں ہی سے کرینٹس کی مانگ اتنی زیادہ تھی کہ الزبتھ کے دورِ اقتدار میں 2,300 ٹن سالانہ درآمد کیے جانے لگے۔’شوگر‘، ’کینڈی‘، ’کرِمزن‘ (ترک کرمز سے)، ’ٹرکوائز‘(فیروزہ یا ترکی کا پتھر)، ’انڈیگو‘ اور ’ٹیولپ‘ یہاں تک کہ ’زیرو‘ یا صفر سبھی انگریزی زبان میں شامل ہوئے۔مِشا ایوان کے مطابق انگریز تاجر عیش و آرام کی اشیا کے لیے شام سے لے کر مراکش تک مسلم ممالک کے ساتھ براہ راست تجارت کر رہے تھے۔ترکی کی کافی، مراکش کی چینی، جائفل، کرنٹ، پستے، قالین، زیورات اور روئی انگلینڈ لائے جاتے۔ ترک قالین (جنھیں آج کل اورینٹل قالین کہا جاتا ہے) انگلینڈ میں انتہائی فیشن ایبل بن گئے۔’لیکن شرفا انھیں اپنی دیواروں یا میزوں پر، یعنی فرش کے علاوہ کہیں بھی رکھتے یا لگاتے۔ یہ احترام کی علامت تھی، دراصل انگریز ان پر چلنا نہیں چاہتے تھے۔ 1700 کی دہائی سے پہلے انگریزی لفظ ’قالین‘ کا حوالہ دیواروں پر لٹکانے یا میزوں، الماریوں یا بینچوں پر رکھنے کے لیے تھا۔ حالانکہ انھیں بنانے والوں کا مقصد یہ نہیں تھا۔‘جیری بروٹن لکھتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا جب مسلمانوں نے انگلینڈ میں کھلے عام رہنا، کام کرنا اور اپنے عقیدے پر عمل کرنا شروع کیا۔شمالی افریقہ، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا تک سے آئے، زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے 16ویں صدی میں لندن میں سفارت کاروں، تاجروں، مترجموں، موسیقاروں اور نوکروں کے طور پر کام کیا۔’اسلام‘ یا ’مسلم‘ کے الفاظ 17ویں صدی میں انگریزی زبان میں داخل ہوئے۔مارٹن ڈاونر لکھتے ہیں کہ الزبتھ کے دور حکومت میں جیسے جیسے مسلم دنیا سے معاملات میں اضافہ ہوا، انگریز معاشرے میں غم و غصہ اور خوف بڑھتا گیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images’اس وقت کے ڈراما نگاروں رابرٹ ولسن، کیتھولک جلاوطن رچرڈ ورسٹیگن نے ان خدشات کی عکاسی کی۔ 16ویں صدی کے آخر اور 17ویں صدی کے اوائل میں سٹیج پر مسلم کردار پیش کیے گئے، کرسٹوفر مارلو کے وحشی ٹمبرلین سے لے کر شیکسپیئر کے زیادہ لطیف، متضاد مُور اوتھیلو تک۔‘بروٹن لکھتے ہیں کہ الزبتھ کے دورِ حکومت کے اختتام تک ’اسلامی دنیا میں ان کی رعایا کے ہزاروں افراد موجود تھے۔ جنھوں نے مراکش سے فارس تک تجارت کی، سپاہی بنے، آباد ہوئے، مذاکرات کیے، جاسوسی کی اور (کثرت سے) اسلام قبول کیا۔’کیتھولک سپین کے خطرے کے جواب میں، الزبتھ نے سفارتی اتحاد اور آزاد تجارتی سودوں کا ایک ’متاثر کن نیٹ ورک‘ بنایا۔ انھوں نے انگلستان کو مراکشی، عثمانی اور فارسی سلطنتوں سے جوڑا۔ 1600 تک ہسپانوی تسلط کے خلاف یہ اینگلو مسلم دیوار تقریباً 4,300 میل طویل ’مراکش سے قسطنطنیہ کے راستے اصفہان تک پھیلی ہوئی تھی۔‘برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو 1600 میں ملکہ الزبتھ اول ہی کے عہد میں ہندوستان سے تجارت کا پروانہ ملا۔ تب ہندوستان میں مغل شہنشاہ جلال الدین اکبرکی حکومت تھی۔کمپنیوں کی تجارتی کامیابی کے باوجود 1603 میں الزبتھ کی موت کے فوراً بعد نئے بادشاہ جیمز اول نے سپین کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے جس سے انگلینڈ کی جلاوطنی ختم ہوئی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.