- مصنف, عامیرہ مداہبی
- عہدہ, بی بی سی عربی
- 45 منٹ قبل
اگرچہ غزہ میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق 13 ہزار سے زیادہ ایسے لوگ بھی ہیں جو بظاہر لاپتہ ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اکثر افراد کو مبینہ طور پر ’جبری گمشدگی‘ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔احمد ابو ڈیوک کئی ماہ سے اپنے بھائی مصطفیٰ کی تلاش میں ہیں۔یہ خاندان جنوبی شہر خان یونس کے ناصر ہسپتال کے صحن میں پناہ لیے ہوئے تھا۔ لیکن جب انھیں پتہ چلا کہ ان کا قریبی گھر آگ کی لپیٹ میں آ گیا ہے تو مصطفیٰ یہ دیکھنے گئے کہ وہاں کُچھ بچا بھی ہے یا نہیں لیکن اُس کے بعد سے وہ کبھی واپس نہیں لوٹے۔
احمد بتاتے ہیں کہ ’ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ اُس کا کچھ پتا چل سکے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’جہاں کبھی گھر ہوا کرتے تھے وہاں اب صرف جھلسی ہوئی باقیات تھیں۔ آس پاس کے علاقوں کو تباہ کر دیا گیا تھا اور کثیر منزلہ عمارتوں کو زمین بوس کر دیا گیا تھا۔‘غزہ کی سول ڈیفنس ٹیم کی جانب سے ملبے اور قریبی اجتماعی قبروں سے نکالی گئی لاشوں میں ریٹائرڈ ایمبولینس ڈرائیور مصطفیٰ کی لاش کی تلاش کی لیکن وہ نہیں مل سکا۔احمد کہتے ہیں کہ ’ہمیں اب بھی امید ہے کہ ہسپتال میں داخل ہونے والی ہر ایمبولینس میں سے کسی میں تو ہم اسے ڈھونڈ لیں گے۔‘غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اب تک جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 35 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے لیکن یہ تعداد صرف ہسپتالوں میں ریکارڈ کی گئی اموات کی ہے۔مصطفیٰ کے خاندان کی طرح بہت سے خاندان ایسے ہیں جو اس بارے میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں کہ گذشتہ سات ماہ میں ان کے گمشدہ پیاروں کے ساتھ کیا ہوا۔جنیوا میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کا اندازہ ہے کہ اس کے بعد سے اب تک تقریباً 13 ہزار افراد لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ ان اعداد و شمار میں یہ ذکر نہیں ہے کہ ان افراد میں سے کتنے عام شہری اور کتنے حماس کے اہلکار ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesغزہ کے شہری دفاع جو فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی سروسز کا حصہ ہے کا اندازہ ہے کہ ان میں سے ممکنہ طور پر 10 ہزار سے زیادہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں تقریباً 37 ملین ٹن ملبہ موجود ہے جس کے نیچے بہت سی لاشیں ہیں اور تقریباً 7500 ٹن ایسے بم موجود ہیں جو ابھی تک پھٹے نہیں ہیں۔ یہ امدادی کارکنوں اور رضاکاروں کے لیے ایک اضافی خطرہ ہو سکتا ہے۔سول ڈیفنس کا کہنا ہے کہ اس کا عملہ رضاکاروں کے ساتھ مل کر ملبے کے نیچے سے لاشیں نکالنے کا کام کرتا ہے لیکن ان کے پاس صرف سادہ اوزار ہیں اور اکثر مرنے والوں تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔اس بات پر بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ جب غزہ اپنے گرم ترین مہینوں کی طرف بڑھ رہا ہے تو لاشوں کو مناسب انداز میں دفن نہ کرنے کی وجہ سے اُن کے گل سڑ جانے کی وجہ سے صحت کا ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔عبدالرحمٰن یغی کو ملبے سے لواحقین کو نکالنے کی کوشش کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔22 فروری کو وسطی غزہ کے شہر دیر البلاح میں تین منزلہ عمارت کو اس وقت میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا جب ان کے خاندان کے 36 افراد اس عمارت کے اندر موجود تھے۔ان کا کہنا ہے کہ 17 لاشیں نکالی گئی ہیں لیکن لاش کے جو حصے بھی نکالے گئے ہیں ان کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں گھر میں موجود زیادہ تر بچوں کی لاشیں نہیں ملیں۔‘سول ڈیفنس نے لاشیں نکالنے میں مدد کے لیے اقوام متحدہ اور اس حوالے سے تجربہ رکھنے والے ممالک سے بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے بین الاقوامی تنظیموں سے فوری طور پر مداخلت کرنے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ غزہ میں امدادی کارروائیوں میں مدد کے لیے بھاری سازوسامان کے داخلے کی اجازت دے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کا خیال ہے کہ بظاہر لاپتہ ہونے والے دیگر افراد کو اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے ان کے اہل خانہ کی معلومات کے بغیر حراست میں لیا ہو گا جسے وہ ’جبری گمشدگی‘ قرار دیتے ہیں۔یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کا اندازہ ہے کہ غزہ سے سینکڑوں فلسطینیوں کو آئی ڈی ایف نے ان کے اہلخانہ کو بتائے بغیر حراست میں لیا ہوا ہے۔ جنیوا کنونشن جس پر اسرائیل نے دستخط کیے ہیں میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کو حراست میں لیے گئے شہریوں کی شناخت اور مقام کی اطلاع دینی ہو گی۔اسرائیلی حکام نے سات اکتوبر کے حملوں کے بعد ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آر سی) کے حراستی مراکز کے دورے بھی معطل کر دیے ہیں۔،تصویر کا ذریعہFamily handout
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.