مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر حملے: ’غزہ میں جنگ کا فائدہ اٹھا کر ہمیں اپنے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے‘
مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر حملے: ’غزہ میں جنگ کا فائدہ اٹھا کر ہمیں اپنے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے‘
،تصویر کا ذریعہReuters
- مصنف, جوئل گنٹر
- عہدہ, بی بی سی نیوز
عبد ودی کو جب ایک دھمکی آمیز پیغام موصول ہوا تو اس وقت وہ ایک جنازے کی تیاری کر رہے تھے۔
یہ پیغام ان کے ایک دوست کی طرف سے بھیجی گئی ایک تصویر کی صورت میں تھا، جس میں ماسک پہنے کچھ لوگ نظر آتے ہیں جو کلہاڑیوں، پیٹرول کے ڈبوں اور زنجیر پکڑے ہوئے ہیں۔ اس تصویر میں عبرانی اور عربی میں ایک تحریر بھی لکھی تھی۔
اس تحریر میں لکھا تھا کہ ’قُصرا گاؤں کے گٹروں کے تمام چوہوں کے نام ہمارا یہ پیغام ہے کہ ہم آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور آپ کو ماتم نہیں کرنے دیں گے۔ بدلے کا دن آ رہا ہے۔‘
نابلوس کے قریب ویسٹ بینک کے شمالی حصے میں واقع قصرا عبد ودی کا آبائی گاؤں ہے جہاں انھیں اب اسرائیلی آباد کاروں کے اس طرح کے دھمکی آمیز پیغامات موصول ہو رہے تھے۔
اس دن اس گاؤں کے چار رہائشی فلسطینیوں کا جنازہ ادا کیا جانا تھا۔ ان میں سے تین فلسطینی 11 اکتوبر کو مارے گئے تھے جب اسرائیلی آباد کار قصرا گاؤں میں داخل ہوئے اور ایک فلسطینی خاندان کے گھر پر حملہ آور ہو گئے۔ چوتھا فلسطینی اگلے روز اسرائیلی فوج کے ساتھ جھڑپوں میں مارا گیا۔
اگلے روز قصرا کے لوگ آدھے گھنٹے کے فاصلے پر ہسپتال جانے اور مرنے والوں کی لاشوں کو لے کر واپس آنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ایسا کرنے کے لیے انھیں اس علاقے سے گزرنا تھا، جو اسرائیلی آباد کاروں کی بستیوں پر مشتمل ہے۔ ان علاقوں میں اسرائیل کی حماس کے ساتھ جنگ چھڑنے کے بعد سے دو ہفتوں میں تشدد کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
عبد ودی نے اپنا فون نیچے رکھا اور پھر سے اپنی تمام تر توجہ جنازے میں شریک ہونے کے لیے تیاری پر رکھی۔ انھیں ہسپتال کے سرد خانے سے چار لاشوں کو لے کر گھر آنا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی دھمکی سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ انھوں نے پہلے بھی ایسی کئی دھمکیاں سن رکھی ہیں۔
عبد ودی اس سے بے خبر تھے کہ چند گھنٹوں میں کیسے شدت پسند اسرائیلی آباد کار ایک جنازے پر حملہ آور ہوجائیں گے اور ان کے بھائی اور بھتیجے کو قتل کر دیں گے۔
قصرا میں اپنے سایہ دار گھر میں بیٹھے عبد ودی کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم اس جنازے کو مزید ایک یا دو دن تک ملتوی بھی کر دیتے تو پھر کون سی کوئی دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جاتیں؟‘
’کیا آپ کا خیال ہے آباد کار اس جگہ کو دوسرے دن خالی کر کے چلے جاتے؟‘
اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2005 کے بعد سے اب تک حماس کا اسرائیل پر حالیہ حملہ ویسٹ بینک میں بسنے والے فلسطینیوں کے لیے سب سے مہلک ثابت ہوا ہے۔ حالیہ کشیدگی کے بعد اسرائیلی فوج یا اسرائیلی آباد کاروں کی جانب سے کم از کم 75 فلسطینیوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے ایک پناہ گزین کیمپ پر حملے اور 12 اکتوبر کو اسرائیلی فوج کے ایک فضائی حملے میں کم از کم 12 فلسطینی مارے گئے۔ اسرائیلی پولیس نے ایک اسرائیلی افسر کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی۔
اقوام متحدہ نے اس ہفتے کہا کہ مقبوضہ علاقے کے حالات قابو سے باہر ہونے کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔
ویسٹ بینک کے فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ عالمی رہنماؤں کی توجہ غزہ میں پیدا ہونے والی تباہی کی طرف ہے تو ایسے میں اسرائیلی آباد کار صورتحال کا فائدہ اٹھا کر ویسٹ بینک کے مختلف گاؤں میں داخل ہو کر مقامی فلسطینیوں کو بے دخل کر رہے ہیں اور عام شہریوں کو قتل کر رہے ہیں۔
گاؤں کے عینی شاہدین اور ویڈیو فوٹیج کے مطابق ان اسرائیلی آباد کاروں نے فوجی یونیفارم پہن رکھا تھا یا اپنے حملے کے وقت اسرائیلی فوجیوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔
متعدد مقامی فلسطینیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ قصرا میں مرنے والے پہلے تین افراد گاؤں کے نواح میں ایک گھر میں ایک خاندان کے دفاع کے لیے گئے تھے، جب آباد کار گھر کے قریب پہنچے اور اس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔
،تصویر کا ذریعہVideo still of clashes in the village of Qusra
ان کا کہنا ہے کہ آباد کاروں نے فلسطینیوں کے ان پڑوسیوں پر بھی فائرنگ شروع کر دی جو وہاں ان کی مدد کے لیے آئے تھے۔ مرنے والے تین افراد میں 16 برس کے حسن، 17 سالہ عبیدہ اور 25 برس کے مصعب شامل ہیں۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں متعدد دیگر شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔
21 برس کے مہوتھ اودے بعد میں اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے۔
نزدیکی میڈیکل کلینک پر دو لوگ جنھوں نے مردہ اور زخمیوں کو موصول کیا کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والوں میں ایک والد اور ان کی چھ برس کی بیٹی شامل ہیں۔ انھیں منھ اور پیٹ میں گولیاں ماری گئیں۔
کلینک میں مدد کرنے والوں میں سے ایک عامر ابو سرور تھے جو متاثرین کے کزن ہیں۔ عامر نے 17 سالہ عبیدہ کے والد کو فون کیا۔
عامر نے منگل کو قصرا میں سید کے ہمراہ ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میں نے ان سے کہا، آپ کا بیٹا زخمی ہے۔ میں فون پر انھیں صدمہ نہیں دینا چاہتا تھا۔‘ یہ سنتے ہی سید میڈیکل سینٹر کی طرف دوڑ پڑا۔
سید نے روتے ہوئے بتایا کہ ’انھوں نے مجھے بتایا کہ میرا بیٹا زخمی ہے مگر اس لمحے میرے پاس انھیں دیکھنے کے لیے کوئی صورت موجود نہیں تھی۔‘
ان کے مطابق ’میں نے انھیں کہا کہ میں اپنے بیٹے کو ابھی دیکھنا چاہتا ہوں اور پھر میں اس کمرے میں داخل ہو گیا اور میں نے دیکھا کہ وہ خدا کی خوشنودی سے شہادت کے مرتبے پر فائز ہو گیا تھا۔‘
اگلے دن چار مرنے والوں کا جنازہ تھا۔ عبد ودی نے تصویر میں کلہاڑیاں اور زنجیریں تھامے اور ماسک پہنے افراد کو ذہن میں رکھا۔ وہ ہسپتال سے گھر لاشوں کو واپس قصرا جانے والے جلوس میں شریک ہوگئے۔
جیسے ہی کاریں اور ایمبولینسیں نابلوس سے رملہ جانے والی سڑک سے گزر رہی تھیں تو شدت پسند اسرائیلی آباد کاروں نے قافلے پر گھات لگا کر حملہ کر دیا۔ اس کے بعد ہونے والی جھڑپ میں، ویڈیو فوٹیج اور عینی شاہدین کے مطابق آباد کاروں نے قافلے پر پتھراؤ کیا۔ قافلے کے کچھ لوگوں نے جوابی پتھراؤ کیا جس پر اسرائیلی آباد کاروں اور فوجیوں نے براہ راست فائرنگ شروع کر دی۔
افراتفری اور اندھا دھند فائرنگ میں عبد ودی اپنے 63 برس کے بھائی ابراہیم، جو کہ فتح موومنٹ کے مقامی سیاسی رہنما بھی ہیں، اور اپنے 24 برس کے قانون کے طالبعلم بھتیجے احمد کو کھو دیا۔ ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوتی ہے تو احمد دیگر افراد کے ہمراہ بھاگ رہے ہوتے ہیں اور پھر سڑک پر گولی آ کر احمد کو لگتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میرے بھتیجے کو پیٹ میں دو گولیاں ماری گئیں جبکہ ایک گولی ان کی گردن میں ماری گئی۔ اور میرے بھائی کی کمر میں دل کی طرف گولی ماری گئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے جنازے میں کوئی ہتھیار لے کر نہیں آیا تھا۔ عام طور پر ہم کاروں پر فلسطینی جھنڈے لہراتے ہیں مگر اس روز ڈر کی وجہ سے ہم نے جھنڈے بھی نہیں لہرائے۔‘
قصرا کے رہائشیوں نے اس ہفتے بی بی سی کو بتایا کہ گاؤں میں خوف پھیل گیا ہے۔ گذشتہ ہفتے کے آخر میں علاقے میں زیتون کے موسم کا آغاز تھا، لیکن یہاں کے رہائشی جو اپنی آمدنی کے لیے اس فصل پر انحصار کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ وہ آباد کاروں کی فائرنگ کے خوف سے گاؤں کے مضافات میں واقع اپنے باغات میں نہیں جائیں گے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق حماس کے حملے سے پہلے ہی اس سال اسرائیلی آباد کاروں کے تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا تھا، ہر ماہ 100 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے اور جنوری اور اگست کے درمیان تقریباً 400 افراد کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیا گیا۔
اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم نے بی بی سی کو بتایا کہ حملے کے بعد ’آباد کاروں نے ایک ٹھوس اور منظم کوشش‘ سے اس صوتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ جب عالمی برادری کی تمام تر توجہ غزہ پر ہے تو ایسے وقت میں ویسٹ بینک میں زیادہ زمینوں پر قبضہ یقینی بنایا جائے۔
اس تنظیم کی طرف سے جمع کیے گئے ڈیٹا میں حماس کے حملے کے بعد پہلے چھ دنوں کا جائزہ لیا گیا۔ اس دوران کم از کم 46 الگ الگ واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں آباد کاروں نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو دھمکیاں دیں، ان پر حملے کیے یا پھر ان کی املاک کو نقصان پہنچایا۔
اس تنظیم کے ایک ترجمان روئے یلن کے مطابق ’بہت سے چرواہوں کے خاندان اور مقامی برادریاں جان بچا کر علاقے سے نکل گئی ہیں۔ انھیں گذشتہ ہفتے آباد کاروں کی طرف سے دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔
ان کے مطابق آباد کار مقامی رہائشیوں کو وہاں سے نکلنے کی ڈیڈلائن دے رہے ہیں اور انھیں بتا رہے ہیں کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو انھیں نقصان پہنچے گا۔ ’کچھ دیہاتوں کو مکمل طور پر خالی کرا دیا گیا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ان دیہاتوں میں سے ایک گاؤں رام اللہ کے قریب وادی السیق تھی، جہاں پہلے تقریباً 200 فلسطینی بدوؤں کی کمیونٹی آباد تھی۔ اس وادی کے ایک کسان 48 برس کے عبدالرحمان نے بتایا کہ ’مہینوں سے ہمیں دن رات آباد کاروں کی طرف سے ہراساں کیے جانے اور حملوں کا سامنا ہے، لیکن جنگ کے آغاز کے بعد سے حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔‘
یہاں سے چلے جانے والے دو شہریوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 9 اکتوبر کو تقریباً 60 آباد کاروں کے ایک گروپ نے جن میں سے اکثر فوجی وردیوں میں ملبوس تھے نے کمیونٹی پر حملہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے ہم پر ہتھیاروں سے حملہ کیا اور سب کو خوفزدہ کر دیا۔ پھر انھوں نے ہمیں اپنی بھیڑوں کو لے کر علاقہ چھوڑنے کے لیے ایک گھنٹے کا وقت دیا اور نہ جانے کی صورت میں ہمیں جان سے مارنے کی دھمکی دی۔‘
ایک اور رہائشی کے مطابق انھوں نے وہاں سے فرار ہونے کے لیے دس کلومیٹر سے زیادہ پیدل سفر کیا۔
ایک اور رہائشی، 35 برس کے علی نے بتایا کہ ’آباد کاروں نے ہمارے گھروں سے سب کچھ لوٹ لیا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میری بیٹی خوفزدہ تھی۔ انھوں نے ہمیں مارا پیٹا اور ہمارے پاس کچھ بھی نہیں چھوڑا۔‘
مغربی کنارے کے تشدد پر نظر رکھنے والی ایک اور اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم ’یش دِن‘ کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے پورے مغربی کنارے میں شہریوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کے لیے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔
گذشتہ ہفتے کیمرے کی آنکھ میں بند ہونے والے ایک منظر میں سب سے زیادہ چونکا دینے والے واقعات میں سے ایک واقعے میں ایک اسرائیلی آباد کار نے ہیبرون کے قریب الطوانی نامی فلسطینی گاؤں میں گھس کر ایک غیر مسلح فلسطینی باشندے کو قریب سے پیٹ میں گولی مار دی، جبکہ اس ویڈیو میں ایک اسرائیلی فوجی بھی دکھائی دے رہا ہے۔
گھر کے مالک سمیت تین رہائشیوں نے بتایا کہ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب دو مسلح آباد کاروں نے ایک فوجی کے ہمراہ گاؤں کے مضافات میں ایک گھر پر حملہ کیا۔
36 برس کے مصعب ربائی نے کہا کہ ’تین اسرائیلی میرے گھر آئے، وہ مسلح تھے، اور ایک نے فوج کی وردی پہن رکھی تھی۔‘
ان کے مطابق ’ایک اسرائیلی آباد کار میرے گھر کے اندر داخل ہوا، اس نے مجھے دھکا دیا اور بندوق سے سر پر مارا اور بتایا کہ وہ مجھے گولی مارنے والا ہے۔‘
ان کے مطابق مصعب کی چیخیں سن کر پڑوسی مدد کے لیے آئے۔ ان میں چار بچوں کا باپ ذکریہ عدرہ بھی تھا۔ ذکریہ عدرہ کے کزن باسل کی طرف سے بنائی گئی ویڈیو فوٹیج میں اس آباد کار کو دکھایا گیا ہے، جس نے مبینہ طور پر مصعب کو مارا پیٹا۔ اس ویڈیو میں فلسطینی پڑوسیوں کے گروپ سے کچھ فاصلے پر کھڑے ایک اسرائیلی فوجی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد مسلح آباد کار اچانک ذکریہ کے قریب پہنچتا ہے، انھیں اپنی رائفل سے مارتا ہے اور چند فٹ کے فاصلے سے انھیں پیٹ میں گولی مار دیتا ہے۔
پورے انکاؤنٹر کے دوران ذکریہ اپنے بازوؤں کو اپنی اطراف سے پکڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہVideo grab
اہل خانہ کے مطابق ذکریہ اب تشویشناک حالت میں ہسپتال میں داخل ہیں۔ باسل نے کہا کہ ’وہ بچ گئے ہیں لیکن گولی نے ان کے پیٹ کے اندر کافی نقصان پہنچایا ہے۔‘
مصعب ربائی، جن کے گھر پر حملہ کیا گیا تھا، نے کہا کہ یہ فائرنگ ان دنوں کے دھمکی آمیز رویے اور آباد کاروں کی جانب سے مقامی افراد کی املاک کو تباہ کرنے کی انتہا کو ظاہر کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ہفتے سے وہ بندوقوں سے مسلح ہو کر گاؤں کے ارد گرد کھڑے ہیں اور درختوں کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کر رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’یہاں گاؤں میں مرد مختلف شفٹوں میں سوتے ہیں، اس لیے آباد کاروں کے حملے کی خبر دینے کے لیے ہمیشہ کوئی نہ کوئی جاگتا ہے۔‘
بی بی سی نے مغربی کنارے اور دیگر جگہوں پر آباد کاروں کی تنظیم یِشا کونسل سے اس صورتحال پر موقف دینے کا کہا مگر انھوں نے کسی قسم کا بھی کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
بنیامین کونسل کے قائمقام نائب سربراہ موتی یوگیو، جو خطے میں آباد کاروں کی بھی نمائندگی کرتے ہیں، نے کہا کہ پُرتشدد آباد کار سب کی نمائندگی نہیں کرتے اور ایسے آباد کاروں کی محدود تعداد ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایسے آباد کاروں کے ساتھ کسی بھی دوسرے مجرموں والا سلوک ہی کیا جانا چاہیے۔ اسرائیلی فوج اور اسرائیلی پولیس فورس نے متعدد بار رابطہ کرنے پر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
ایک سابق اسرائیلی سیاستدان اور امن کے لیے کام کرنے والے کارکن ڈوو کھنین نے کہا کہ ’سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ان انتہا پسند آباد کاروں کے تشدد کا اسرائیلی فوج کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا۔‘
ان کے مطابق تشدد اور ایسی کارروائیوں کا ایک مقصد ان چھوٹی فلسطینی برادریوں سے چھٹکارا حاصل کرنا اور انھیں ان کے گھروں سے بے دخل کرنا ہے۔
اب بہت سے فلسطینیوں کو یہ خدشہ ہے کہ مغربی کنارے میں حالات مزید خراب ہوں گے۔ اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اٹار بین گویر نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ حکومت اسرائیلی شہریوں کو مسلح کرنے کے لیے 10,000 رائفلیں خریدے گی، جن میں مغربی کنارے کی بستیوں میں رہنے والے بھی شامل ہیں۔ یوں اس اقدام سے آباد کار آبادی اور اسرائیلی فوج میں ایک باریک فرق بھی مٹ کر رہ سکتا ہے۔
عبد نے کہا کہ انھوں نے 10،000 رائفلیں دی جانے کی خبر سنی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اس سے قصرا کے لوگوں کی حالت نہیں بدلے گی۔‘
عبد ودی اپنے صحن میں بیٹھے تھے۔ ان کے ارد گرد ایسے پوسٹرز چسپاں تھے، جن پر ان کے بھائی، بھتیجے اور گاؤں کے ان چار دوسرے فلسطینیوں کی تصاویر تھیں جو گذشتہ ہفتے مارے گئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے ہمیشہ آباد کاروں کے ہاتھ میں رائفل دیکھی ہیں، وہ کافی عرصے سے ہم پر گولیاں برساتے آ رہے ہیں۔‘
عبد ودی نے کہا کہ اب کچھ مزید بدل گیا تھا۔ ’ایسا لگتا تھا جیسے آبادکار زیادہ جارحانہ اور زیادہ بنیاد پرست ہو گئے ہیں۔ فارم ہاؤسز کو جلایا جا رہا ہے، زیتون کے درخت کاٹے جا رہے ہیں، گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے اور دیگر املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اور یہ صرف ہمارا گاؤں ہے۔ اگر آپ اگلے گاؤں اور اس سے اگلے گاؤں کو دیکھیں تو آپ کو ہر ایک میں غصہ اور درد نظر آئے گا اور آپ کو اس صورتحال کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آئے گا۔‘
Comments are closed.