معیشت، امیگریشن، ٹیکس اور تجارت: امریکی صدارتی امیدواروں کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں میں کیا فرق ہے؟ایک گھنٹہ قبلامریکی عوام 5 نومبر کو اپنے لیے نئے صدر کا چناؤ کریں گے۔ مقابلہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور موجودہ نائب صدر کملا ہیرس کے درمیان ہو گا۔کملا ہیرس ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصّہ لے رہی ہیں جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی جانب سے۔ اب یہ بات تو روز اول سے واضح ہے کہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں میں فرق ہے۔ مگر آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ کملا اور ٹرمپ کی پالیسیوں میں کتنا فرق ہے؟

معیشیت

کملا ہیرس کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے وہ محنت کش طبقے کے خانداںوں کے لیے کھانے پینے کی اشیا اور رہائش کی قیمتیں کم کرنے پر کام کریں گی۔انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ برسراقتدار آ کر وہ روز مرہ اشیا کی قیمتوں میں بے لگام اضافے پر پابندی عائد کریں گی۔ وہ کوشش کریں گی کہ جو لوگ پہلی دفعہ گھر خریدنا چاہ رہے ہیں اُن کے لیے مراعات متعارف کروائی جائیں اور رہائش کے لیے زمین آسانی سے دستیاب ہو۔

دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ’مہنگائی ختم کر دیں گے اور امریکہ کو پھر سے رہنے کے لیے مناسب ملک بنا دیں گے۔‘ انھوں نے شرح سود کم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے اس بات سے قطع نظر کہ شرح سود کو کم یا زیادہ کرنے کا کنٹرول صدر کے پاس نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا ہے ایسے تارکینِ وطن جن کے پاس امیگریشن سے متعلق درست دستاویزات موجود نہیں انھیں ملک بدر کرنے سے رہائش کے ذرائع پر دباؤ کم ہو جائے گا۔

اسقاط حمل

کملا ہیرس کی انتخابی مہم میں اسقاط حمل کے حقوق کا مرکزی کردار ہے اور وہ کوشاں ہیں کہ قومی سطح پر تولیدی حقوق کی حفاظت کے لیے قانون متعارف کروایا جائے۔جبکہ پچھلے چند پفتوں میں اس موضوع پر ٹرمپ کے بیانات میں تسلسل نہیں پایا جاتا۔اپنے صدارتی دور میں انھوں نے سپریم کورٹ میں تین ججز تعینات کیے تھے جنھوں نے اسقاط حمل کے آئینی حق کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ یاد رہے کہ سنہ 1973 میں ’رو وی ویڈ‘ نامی کیس میں اسقاط حمل کو آئینی حق قرار دیا گیا تھا۔

امیگریشن

بطور نائب صدر کملا ہیریس کو ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ امریکہ کی جنوبی سرحد پر بحران کی جڑ تک پہنچیں اور اسے حل کریں۔ نجی ذارئع استعمال کر کے انھوں نے اربوں ڈالر جمع کیے تاکہ مقامی سرمایہ کاری کے ذریعے جنوب کے حالات میں بہتری آ سکے اور لوگوں کو شمال کی طرف رُخ نہ کرنا پڑے۔تاہم سنہ 2023 کی آخر میں میکسیکو سے اتنے لوگوں نے نقل مکانی کی کہ نیا ریکارڈ قائم ہو گیا۔کملا ہیرس نے اپنی مہم میں غیر قانونی طریقوں سے امریکہ آںے والوں کے خلاف سخت مؤقف اپنا لیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سخت موقف کے پیچھے ان کے کیلیفورنیا میں بطور استغاثہ کام کرنے کا تجربہ ہے جس کے دوران انھیں انسانی سمگلرز سے نمٹنا پڑا تھا۔دوسری جانب ٹرمپ نے سرحد پر دیوار کی تعمیر مکمل کر کے سرحد بند کرنے اور وہاں سکیورٹی بڑھانے کا وعدہ کیا ہے۔ انھوں نے ریپبلکن سیاست دانوں سے کہا ہے کہ اس حوالے سے کملا ہیرس نے جو سخت موقف لے کر بِل متعارف کروایا ہے اس کا ساتھ نہ دیں۔انھوں نے مزید وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ منتخب ہو گئے تو ملک میں امیگریشن دستاویزات کے بغیر رہائش پذیر تارکین وطن کو امریکہ کی تاریخ میں سب سے بڑی تعداد میں ملک بدر کریں گے۔تاہم ماہرین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ایسا کرنے سے کئی قانونی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

ٹیکس

کملا ہیرس بڑے کاروباروں پر ٹیکس بڑھانا چاہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان امریکی شہریوں پر بھی زیادہ ٹیکس عائد کرنا چاہتی ہیں جن کی سالانہ آمدنی چار لاکھ ڈالر تک ہے۔انھوں نے کئی ایسے اقدامات بھی شروع کیے ہیں جن سے خاندانوں پر ٹیکس کے بوجھ کو کم کیا جا سکے گا۔ ان اقدامات میں بچوں کی وجہ سے خاندانوں پر ٹیکس میں رعایت کے منصوبے بھی شامل ہیں۔دوسری جانب ٹرمپ نے کئی کھربوں مالیت کے ٹیکسوں میں کٹوتیوں کی تجویز پیش کی ہے۔ اس میں ان کی سنہ 2017 میں متعارف کروائی گئی کٹوتیوں کی توسیع بھی شامل ہے جس سے زیادہ تر امیر لوگوں کو فائدہ پہنچا تھا۔انھوں نے کہا کہ وہ ان کے لیے درآمدات پر محصولات کے ذریعے ادائیگی کریں گے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور کملا، دونوں کے مجوزہ ٹیکس منصوبوں سے امریکہ کے خسارے میں اضافہ ہو گا تاہم ٹرمپ کے منصوبوں سے خسارے میں زیادہ اضافہ ہو گا۔

خارجہ پالیسی

کملا ہیرس نے کہا ہے ’چاہے جتنی دیر لگے‘ امریکہ یوکرین کا ساتھ دے گا۔ انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ منتخب ہو جاتی ہیں تو وہ کوشش کریں گی کہ ’21ویں صدی کا یہ مقابلہ‘ امریکہ جیتے نہ کہ چین۔وہ طویل عرصے سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان دو ریاستی حل کی حامی رہی ہیں اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

جبکہ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکہ خود کو دنیا میں کسی بھی جگہ کے تنازعات سے دور رہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ بات چیت کے ذریعے 24 گھنٹوں میں یوکرین میں جنگ کا خاتمہ کر دیں گے۔ تاہم ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو حوصلہ ملے گا۔ٹرمپ نے خود کو اسرائیل کا کٹر حامی قرار دیا ہے لیکن اس بارے میں بہت کم بیانات دیے ہیں کہ وہ غزہ میں جنگ کیسے ختم کریں گے۔

تجارت

ہیریس نے درآمدات پر محصولات لگانے کے ٹرمپ کے وسیع منصوبے کی تنقید کرتے ہوئے اسے محنت کش خاندانوں پر قومی ٹیکس قرار دیا ہے جس سے ہر گھر کو سالانہ چار ہزار ڈالر لاگت آئے گی۔توقع کی جاتی ہے کہ وہ درآمدات پر ٹیکس لگانے کے لیے زیادہ جارحانہ انداز اختیار کریں گی۔ٹرمپ نے اپنی مہم میں محصولات کو مرکزی جگہ دی ہے ۔ انھوں نے زیادہ تر غیر ملکی اشیا پر 10 سے 20 فیصد نئے ٹیرف لاگو کرنے کی تجویز پیش کی ہے جبکہ چین سے آنے والی اشیا پر باقی اشیا کے مقابلے کہیں زیادہ ٹیرف ہو گا۔

ماحول کا تحفظ

بطور نائب صدر کملا ہیرس نے مہنگائی میں کمی کے لیے ایک قانون پاس کروانے میں مدد کی جس کی بدولت قابلِ تجدید توانائی، الیکٹرک گاڑیاں کے لیے ٹیکس میں رعایت کے پروگراموں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔لیکن انھوں نے فریکنگ کے عمل کے خلاف اپنی مخالفت چھوڑ دی ہے جبکہ زمین سے گیس اور تیل نکالنے کی اس تکنیک کو ماحولیاتی ماہرین کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔تاہم وائٹ ہاؤس میں رہتے ہوئے ٹرمپ نے سینکڑوں ماحولیاتی تحفظات کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ انھوں نے پاور پلانٹس اور گاڑیوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی وجہ سے عائد پابندیاں بھی ہٹا دی تھیں۔اس مہم میں انھوں نے آرکٹک ڈرلنگ کو وسعت دینے اور الیکٹرک کاروں کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

صحت عامہ

کملا ہیرس وائٹ ہاؤس کی اس انتظامیہ کا حصہ رہی ہیں جس نے ایسی ادویات کی قیمتیں کم کی گئیں جو ملک میں صرف ڈاکٹری نسخے پر دی جاتی ہیں۔ مزید انھوں نے انسولین کی قیمتوں کو 35 ڈالر تک محدود کر دیا۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سابقہ دور حکومت کے دوران علاج کی سستی سہولیات کے قانون کو ختم کرنے کی جو کوشش کرتے رہے ہیں اب کی بار وہ ایسا نہیں کریں گے۔یہ قانون لاکھوں افراد کو میڈیکل انشورنس کی ضمانت دیتا ہے۔انھوں نے عوامی پیسے سے تولیدی صحت کے پروگرام کا اعلان بھی کیا ہے تاہم کانگریس میں ریپبلکنز اس کی مخالفت کر سکتے ہیں۔

جرائم

کملا ہیرس نے ٹرمپ کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے انھیں ایک عدالت سے سزا یافتہ مجرم جبکہ خود کو ایک تجربہ کار وکیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ٹرمپ نے عہد کیا ہے کہ وہ ڈرگ کارٹیلز اور جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے ہونے والے تشدد کا خاتمہ کریں گے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ ڈیموکریٹس کے زیر انتظام شہروں کو دوبارہ آباد کریں گے کیوںکہ وہاں جرائم بہت بڑھ گیا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}