secure hookup site hookup Colmar best hookup subredduts connect roku straight to internet not wifi without ethernet hookup american hookup lisa wade pdf 4 foot by 8 foot solar panel hookup

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

معید یوسف: گوادر میں چین کے فوجی نہیں معاشی اڈے ہیں، امریکہ کو بھی ان کی پیشکش کی ہے

معید یوسف کا بی بی سی ہارڈ ٹاک میں انٹرویو: ‘گوادر میں چین کے فوجی نہیں معاشی اڈے ہیں، امریکہ کو بھی ان کی پیشکش کی ہے

ہارڈ ٹاک

پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان اب ‘فوجی اڈوں کی پیشکش کے دھندے میں نہیں ہے مگر ہمارے اکنامک (معاشی) اڈے سب کے لیے کھلے ہیں۔’

بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں جب میزبان سٹیفن سیکر نے معید یوسف سے پوچھا کہ آیا پاکستان نے چین کو بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے بدلے صوبہ بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ دی ہے جو چین کے لیے علاقائی اہمیت کی حامل ہے، تو ان کا جواب تھا کہ ‘گوادر میں (چین کے) کوئی فوجی اڈے نہیں، بلکہ وہاں اکنامک بیسز ہیں جس کی پیشکش ہم نے امریکہ، روس، مشرق وسطیٰ کو بھی کی ہے اگر وہ یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔’

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے واضح کیا کہ ان کے ملک کی حکمت عملی اور سوچ میں بڑی تبدیلی آئی ہے جس میں اب جیو سٹریٹیجک کے بجائے جیو اکنامک ضروریات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جس کے لیے رابطوں کے مسائل کا حل اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے شراکت داری اہم ہوتی ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے اور ‘بدقسمتی سے جب امریکہ کا مفاد پورا ہو جاتا ہے تو پاکستان کو ایک طرف کر دیا جاتا ہے’ مگر پاکستان ‘امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات’ چاہتا ہے۔

’افغانستان کے معاملے پر عدم اعتماد اب بھی باقی ہے‘

سٹیفن سیکر نے پوچھا کہ ‘آپ امریکہ کو بہت بہتر انداز میں جانتے ہیں۔۔۔ کیا گذشتہ دہائیوں کے مقابلے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اب بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں؟ کیا میں یہ کہنے میں درست ہوں کہ جو بائیڈن نے ابھی تک ایک برس کے دوران اپنے دفتر سے آپ کے وزیراعظم عمران خان کو براہ راست فون نہیں کیا؟’

معید یوسف نے جواب دیا کہ ‘جی یہ درست ہے اگر وہ کال کرنا چاہیں گے تو کریں گے اور اگر نہیں تو یہ ان پر ہے۔ یہ دونوں ممالک کے تعلقات کا عکاس نہیں۔ مجھے وضاحت کرنے دیں کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں ہمیشہ اُتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ ہم بہت قریب آ جاتے ہیں، اتحادی بن جاتے ہیں لیکن بدقسسمتی سے جب امریکہ کا مفاد پورا ہو جاتا ہے تو پاکستان کو ایک طرف کر دیا جاتا ہے۔

طالبان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

‘اس وقت دو طرفہ بہت اچھی بات چیت چل رہی ہے لیکن افغانستان کے معاملے پر عدم اعتماد اب بھی باقی ہے۔’

اس پر سٹیفن نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ‘آپ اسے عدم اعتماد کہتے ہیں لیکن ریپبلیکن جماعت کے 22 سینیٹرز طالبان کے ساتھ تعلقات پر پاکستان کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے فوجی امداد روک دی اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ شاید اب پاکستان کو امریکہ کی جانب سے مالی امداد روکنے جیسے مزید اقدامات کا سامنا کرنے پڑے۔ آپ کی معشیت کی حالت خراب ہے تو کیا آپ ایسے وقت میں واشنگٹن کے ساتھ خراب تعلقات برداشت کر سکتے ہیں؟’

معید یوسف نے جواباً کہا ‘ہم امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، یہ بہت بڑی برآمدی مارکیٹ ہے۔ ہمارے لاکھوں شہری وہاں رہ رہے ہیں، اور ہم اس تعلق کو خراب کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہم امریکہ کے ساتھ اس بارے میں بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ہاں عدم اعتماد ہے اور آپ جو یہ 22 ریپبلیکنز کی بات کر رہے ہیں، تو یہ ان کی مقامی سیاست ہے اور میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

‘اصل معاملہ یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ ہمارے ساتھ رابطے میں ہے، ہم چاہتے یہ بات چیت تیزی سے آگے بڑھے، ہم بات کر رہے ہیں اور دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہم امریکہ سے اچھی تعلقات کے خواہاں ہیں اور اس بارے میں کوئی سوال یا دوسری رائے ہی نہیں۔

‘پاکستان اب فوجی اڈوں کے دھندے میں نہیں’

سٹیفن سیکر نے سوال کیا کہ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ تعلقات کی اپنی ترجیحات کا رُخ چین کی جانب کر لینا، کیا یہ پاکستان کا مستقبل ہے۔

معید یوسف نے کہا کہ ‘پاکستان کی اپنی سوچ اور نقطہ نظر میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔۔۔ اب جیو سٹریٹیجک کے بجائے جیو اکنامک نظریہ پایا جاتا ہے۔’

‘ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا سے لوگ پاکستان آئیں اور معاشی شراکت داری کریں۔۔۔ اب ہم فوجی اڈوں کی پیشکش کے دھندے میں نہیں مگر ہمارے اکانومک (معاشی) اڈے سب کے لیے کھلے ہیں۔’

چینی انجینیئر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان معاشی بنیادوں پر تمام ممالک کے لیے کھلا ہے اور یہ پیشکش امریکہ کے لیے بھی ہے۔

صوبہ بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر سے متعلق میزبان نے پوچھا کہ ‘گوادر اور بلوچستان میں آپ چین کو اپنے اڈے دے رہے ہیں اور چین کی سٹریٹجک دلچسپی میں یہ بہت بڑا انفراسٹرکچر منصوبہ ہے۔ آپ کو 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملی ہے تو کیا چین کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے آپ خوشی خوشی اپنے کچھ اصولوں پر سمجھوتہ کر رہے ہیں؟ آپ کی حکومت نے چین میں مسلم برادری اویغور کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت سے انکار کیا۔’

معید یوسف نے جواب دیا کہ ‘جی ہاں، 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لیکن شاید دوست اسی لیے ہوتے ہیں۔ ہمارا چین سے سٹریٹیجک تعلق ہے اور ہمیشہ رہا ہے۔ اور ہمارے آپسی تعلقات مضبوط سے مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ تعلقات کسی اور ملک کی قیمت پر نہیں۔’

‘میں گوادر کے بارے میں واضح کرتا جاؤں کہ وہاں (چین کے) کوئی فوجی اڈے نہیں بلکہ وہاں اکنامک (معاشی) اڈے ہیں اور ہم نے امریکہ، مشرق وسطیٰ اور روس کو بھی ان معاشی اڈوں کی پیشکش کی۔ کوئی بھی جو پاکستان میں آ کر سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘ہمیں معاشی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ چین ایک بہت اچھا دوست ہے۔ اور اس بارے میں کوئی شک نہیں۔۔۔ سی پیک سے مراد توانائی اور روڈ انفراسٹرکچر ہے جس سے کوئی بھی فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

معید یوسف نے کہا کہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ چین میں انسانی حقوق کا سوال بار بار کیسے سامنے آتا ہے۔

‘اس بارے میں بات نہیں کی جاتی کہ مسلم دنیا اور انسانی حقوق کے بہت سے ایسے معاملات ہیں جو پاکستان اٹھاتا رہتا ہے۔’

سٹیفن سیکر نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ‘مجھے پتا ہے کہ آپ کشمیر کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں اور انڈیا کے ساتھ بھی بات چیت میں آپ کا پہلا معاملہ یہی ہے۔ لیکن کیا یہ دوہرا معیار نہیں کہ آپ کشمیر پر تو زور دیتے ہیں لیکن چین میں مسلم برادری کے ساتھ ہونے والے مظالم پر بات نہیں کرتے؟ یہ کیا ہو رہا ہے؟’

معید یوسف نے اپنے جواب میں کہا کہ ‘میں جب کشمیر کی بات کرتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں دوسرے ملک کے لوگوں کی نہیں بلکہ اپنے لوگوں کی بات کر رہا ہوں۔ میں ایسے علاقے پر غیر قانونی قبضے کی بات کرتا ہوں، جسے اقوام متحدہ متنازع قرار دے چکی ہے۔ اپنے لوگوں کے لیے بولنا میرا حق ہے کیونکہ میں کسی دوسرے ملک کے لوگوں کی بات نہیں کر رہا۔ جہاں تک چین کی بات ہے تو سنکیانگ کے بارے میں ہم مغربی نقطۂ نظر کو قبول نہیں کرتے۔ اگر امریکہ کو تحفظات ہیں تو وہ چین سے بات کرے۔ وہ ایک خود مختار ملک ہے۔ پلیز جائیں اور انھیں اپنے خدشات سے آگاہ کریں۔ تو میں نے اپنے آپ کو واضح کر دیا ہے کہ یہ دوہرا معیار نہیں۔ کشمیر کے لوگ میرے اپنے ہیں تو میں ان کے بارے میں بات کروں گا اور یہ میرا حق ہے۔’

‘بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں نہیں’

چینی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سٹیفن سیکر نے کہا کہ ‘آپ کے بہت سے لوگ تو بلوچستان میں بھی رہتے ہیں اور آپ قومی سلامتی کے مشیر ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران بلوچستان سے ہزاروں افراد جبری طور پر لاپتہ کیے گئے۔ ہمیں آزادانہ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ وہاں سے لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ آپ اس بارے میں کیا کر رہے ہیں؟’

معید یوسف نے کہا کہ ‘ہر کیس کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ زیادہ تر تعداد میں وہ لوگ ہیں جو دہشتگرد تھے یا جرائم میں ملوث تھے، وہ کہیں لڑائی لڑنے گئے اور بدقسمتی سے مارے گئے۔’

انھوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے کسی کیس میں بھی خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ دار ریاست کی طرح اقدامات کیے جائیں گے۔

معید یوسف نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کے لیے سب سے زیادہ فنڈز بلوچستان سمیت غیر ترقی یافتہ علاقوں کو دیے ہیں۔ ‘کسی کی بھی خلاف ورزی کی صورت میں ہم تحقیقات کریں گے۔’

جب ان سے پوچھا گیا کہ عالمی تنظیموں کی رپورٹس کے برعکس کیا وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نہیں مانتے تو ان کا جواب تھا کہ ‘میں آپ کی اصطلاح سنگین کو نہیں مانتا۔’

‘اگر ہمیں کوئی بھی ایسا کیس ملتا ہے جہاں ریاست نے کچھ کیا جو اسے نہیں کرنا چاہیے تھا تو متعلقہ شخص کے خلاف تحقیقات کی جاتی ہے اور سزا دی جاتی ہے جیسے کسی ذمہ دار ریاست میں ہوتا ہے۔ ریاستیں ایسے ہی چلتی ہیں مگر کوئی ریاست مثالی نہیں ہے۔ لیکن انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں نہیں ہو رہیں۔

اکثر کیسز میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو ریاست سے لڑ رہے تھے یا کہیں اور۔۔۔ یہ لوگ بدقسمتی سے بچ نہیں سکے۔ ہماری یہ تحقیق ہے۔۔۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سب سے کمزور پاکستانی بھی خود کو محفوظ سمجھے۔’

‘ٹی ٹی پی کی لائف لائن انڈیا اور افغان انٹیلیجنس تھی، جو اب جا چکے ہیں’

سٹیفن سیکر نے معید یوسف سے پوچھا کہ آیا یہ دانشمندی ہے کہ کالعدم عسکریت پسند گروہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں افغان طالبان کی ثالثی قبول کی جائے۔

اس پر معید یوسف کا جواب تھا کہ ‘یہ مڈل مین کا معاملہ نہیں، وہ ملک (افغانستان) پر حکومت کر رہے ہیں اور ٹی ٹی پی کی ساری قیادت افغانستان میں ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس گروہ نے ہزاروں پاکستانیوں کو قتل کیا ہے۔ براہ راست یا بالاواسطہ ہر پاکستانت ان کی دہشتگردی کا نشانہ بنا۔ یہ وہ گروپ ہے جسے ہمارا حریف انڈیا اور اشرف غنی کے دورِ حکومت میں افغان انٹیلیجنس نے سپورٹ کیا تاکہ پاکستان میں دہشتگردی کو فروغ دیا جا سکے۔ تو اگر کسی کو اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے تو وہ صرف پاکستان اور پاکستان کے عوام ہیں۔’

طالبان

،تصویر کا ذریعہAFP

سٹیفن سیکر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ’بہت سے پاکستانی اس بارے میں فکر مند ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی ان مذاکرات پر آپ کے وزیراعظم عمران خان سے سخت سوال جواب کیے ہیں، ایک جسٹس نے سنہ 2014 میں ہونے والے اس خوفناک قتل عام کا بھی ذکر کیا، جس میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا گیا اور 130 سے زیادہ بچے مارے گئے تھے۔‘

‘سپریم کورٹ کے جج نے عمران خان سے کہا کہ کیا حکومت ایسے لوگوں سے شکست کے معاہدے دستخط کرنے جا رہی ہے، جنھوں نے ان بچوں کو قتل کیا اور کیا ہم ایک بار پھر ہتھیار ڈالنے جا رہے ہیں۔ آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟’

معید یوسف نے کہا کہ ‘میرا پہلا جواب یہ ہے کہ آپ اس ملک میں جمہوریت دیکھیں کہ ایک جج نے وزیراعظم کو بلایا اور وہ عدالت میں پیش ہوئے، جہاں جج نے ان سے سخت سوال جواب کیے اور پھر سٹیفن سیکر کو مجھ سے اس بارے میں بات کرنے کا موقع ملا۔ یہ میرے ملک میں جمہوریت ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔’

‘اب آپ کے ٹی ٹی پی کے سوال پر آتے ہیں تو آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ایسے والدین ہیں جنھوں نے اپنے بچے کھوئے، ایسے بھائی ہیں جنھوں نے بہنیں کھوئیں، ایسے بیٹے تھے جنھوں نے اپنے باپ کھوئے، ایسے قبائل تھے جن کو ختم کر دیا گیا، ان تمام لوگوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے لیکن پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہم کیا کرنے کی کوشش کرہے ہیں۔ بحیثیت ایک ریاست ہماری مستقل طور پر یہ کہنے کی پالیسی رہی ہے کہ بات چیت سے تنازعات کو ختم کیا جا سکتا ہے اور مذاکرات ہونے چاہیں۔ ہم نے افغانستان میں 20 برس تک امریکیوں، برطانیہ اور دوسروں کو بھی یہی بتایا۔ میری خواہش ہے کہ انھوں نے ہماری بات سنی ہوتی۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘اب صورتحال کیا ہے، ٹی ٹی پی کی لائف لائن انڈیا اور افغان انٹیلیجنس تھی جو اب جا چکے ہیں۔ ان کے افغانستان میں افغان طالبان کے ساتھ روابط ہیں۔ ہم اس وقت مضبوط پوزیشن میں ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ اس وقت کمزور ہو رہے ہیں تو ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ معافی مانگ رہے ہیں، اگر وہ پاکستان میں قانون کے راستے سے گزرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے آئین کے تحت رہنا چاہتے ہیں، اپنے جرائم کی سزا قبول کرتے ہیں، ہمیشہ کے لیے تشدد چھوڑ دیتے ہیں تو ہم ان کی بات سننے کو تیار ہیں۔’

اس پر سٹیفن نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ‘ذرا رُکیے! یہ صرف ان کی بات سننے کا معاملہ نہیں، پاکستانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق آپ ان کے قیدیوں کو رہا بھی کر رہے ہیں اور کچھ سینیئر طالبان رہنماؤں کو سیز فائر معاہدے کے تحت رہا کیا گیا ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟’

معید یوسف نے جواب دیا کہ ‘یہ سچ نہیں۔’

مزید پڑھیے

سٹیفن سیکر نے پھر پوچھا کہ کیا آپ نے کوئی قیدی رہا کیے ہیں، جس پر معید یوسف نے دوبارہ کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔

انھوں نے جواب دیا کہ ‘ہم ان (ٹی ٹی پی) کی بات سن رہے ہیں کہ کیا وہ اس بارے میں سنجیدہ بھی ہیں یا نہیں کیونکہ خاندان ہیں، بیوی بچے ہیں، ہزاروں پاکستانی ہیں جن کا کسی نہ کسی طرح ان سے لنک ہے اور ریاست کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی دوسرے پاکستانی کو مار ڈالے۔

ہم اس بات کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے کہ بغیر کسی خون بہے پاکستان کے شہری اب محفوظ ہیں۔

اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ریاست کے پاس تمام آپشنز کھلے ہیں لیکن ہر ریاست کو یہ حق حاصل ہے، جو میرے نزدیک عقلمندانہ اور سمارٹ ہے کہ جہاں آپ کے پاس مضبوط پوزیشن ہو، تنازعات کو بات چیت سے ختم کیا جائے۔ میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اس معاملے پر میڈیا رپورٹنگ میں بہت زیادہ شور شرابا پایا جاتا ہے۔

ابھی ایسا کچھ بھی نہیں اور اگر ایسا ہو گا تو میرا یقین کریں جب ہم چاہیں گے ہم آپ کو اور دنیا کو بتا دیں گے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.