معاشی مفادات یا اصول کی حمایت: کینیڈا اور انڈیا کے تنازعے نے مغربی ممالک کو مشکل میں کیوں ڈال دیا ہے؟

رشی سونک اور جو بائيڈن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

رشی سونک اور جو بائيڈن

خالصتان کے حامی سکھ رہنما کے قتل کا معاملہ جہاں ایک جانب کینیڈا اور انڈیا کے درمیان سفارتی تنازع کا باعث بن چکا ہے وہیں دوسری جانب اس تنازعے پر مغربی دنیا میں تقسیم پیدا ہونے کے امکانات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔

انڈیا کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے پیش نظر امریکہ، برطانیہ اور دیگر اہم مغربی ممالک کینیڈا کا ساتھ دیں گے یا انڈیا کا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔

تاہم بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مغربی ممالک کے وزراء اور حکام اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ کینیڈا اور انڈیا کے درمیان سفارتی تنازع دوسرے ممالک کے بین الاقوامی تعلقات کو خراب نہ کرے۔

واضح رہے کہ کینیڈا کے وزیراعظم نے خالصتان کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے واقعے میں انڈیا کے ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کینیڈا میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سربراہ پون کمار کو ملک بدر کیا تو انڈین حکومت نے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے انڈیا سے کینیڈا کے ایک سینیئر سفارتکار کو ملک چھوڑنے کا کہا۔

عالمی جغرافیائی اور سیاسی شطرنج کی بساط پر انڈیا ایک اہم کھلاڑی ہے۔ ایسے میں امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں ایسی کوئی چيز نہیں چاہیں گے جو انھیں انڈیا سے علیحدہ کر دے۔

انڈیا ناصرف ایک بڑھتی ہوئی طاقت ہے بلکہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور دنیا کی پانچویں بڑی معیشت۔ اس کے ساتھ ہی مغربی ممالک اسے چین کے خلاف ممکنہ بندھ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔

انڈیا میں ہونے والے جی 20 ممالک کے حالیہ سربراہی اجلاس میں انڈیا کی اس اہمیت کا اظہار ہوا جب یوکرین کے مغربی اتحادیوں نے ایک حتمی اعلامیے پر اتفاق کیا جس میں روس کے حملے کی مذمت نہیں کی گئی تھی۔

انھوں نے مشترکہ بیان پر کسی قسم کے تنازعے سے گریز کرتے ہوئے انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بچانے کا انتخاب کیا۔ یہ ایک ایسا انتخاب تھا جس نے کیئو یعنی یوکرین میں کچھ لوگوں کو ناراض بھی کیا۔

مغربی سفارت کاروں میں دوسرا خوف یہ ہوگا کہ کینیڈا-انڈیا تنازعے میں کہیں دوسرے ممالک ایک دوسرے کے حلیف نہ بننے لگیں۔

دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی رواں ہفتے اس وقت کافی بڑھ گئی جب کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے مغربی کینیڈا میں جون کے مہینے میں ایک سکھ رہنما کے قتل کے پیچھے انڈیا کا ہاتھ ہونے کا الزام لگایا۔

حالیہ مہینوں میں انڈیا خود کو ترقی پذیر ممالک کے رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جسے بعض اوقات ’گلوبل ساؤتھ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی ممالک نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

امریکہ اور بعض یورپی ممالک ان ممالک کو منانے کی حقیقی سفارتی کوششیں کر رہے ہیں اور انھیں یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنگ اور ان کی معیشت بھی ان کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔

جگمیت سنگھ کے ساتھ ٹروڈو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جگمیت سنگھ نے سنہ 2019 میں ٹروڈو کو حکومت سازی میں مدد کی تھی

کہیں انڈیا اور کینیڈا میں سے ایک کے انتخاب کی نوبت نہ آ جائے!

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

عالمی سفارت کار یہ نہیں چاہیں گے کہ یہ تنازع ان کی کوششوں کو بکھیر دے اور کہیں یہ دو دولت مشترکہ ممالک کے درمیان شمالی بمقابلہ جنوبی جنگ نہ بن جائے جس میں ایک ٹرانس اٹلانٹک طاقت ہے تو دوسرا ترقی پذیر ملک۔

کینیڈا کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے یہ معاملہ امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کے ساتھ بھی اٹھایا ہے۔

فی الحال کینیڈا کے اتحادی اس کے ساتھ وفادار تو ہیں لیکن محتاط بھی ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے کہا کہ امریکہ کو قتل کے الزامات پر ’گہری تشویش‘ ہے۔ اس کے ساتھ مزید کہا ہے کہ ’یہ انتہائی اہم ہے کہ کینیڈا کی تحقیقات آگے بڑھیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘

برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کے لیے، جہاں سکھ برادری کی اچھی خاصی تعداد ہے، اس طرح کے سفارتی تنازع پر گھریلو سیاسی نتائج کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔

برطانیہ کے خارجہ سکریٹری جیمز کلیورلی نے کہا کہ برطانیہ ’کینیڈا کی طرف سے اٹھائے گئے سنگین خدشات کو بہت غور سے سنے گا۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے سوموار کو کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانی جولی سے ان الزامات کے بارے میں بات کی تھی اور برطانیہ نے ’کینیڈا کی باتوں کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

برطانیہ کے خارجہ سکریٹری جیمز کلیورلی نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ آیا برطانیہ انڈیا کے ساتھ تجارتی مذاکرات معطل کرے گا یا نہیں لیکن انھوں نے یہ کہا کہ برطانیہ مزید کارروائی کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے کینیڈا کی تحقیقات مکمل ہونے کا انتظار کرے گا۔

مسٹر کلیورلی نے کہا: ’کینیڈا اور انڈیا دونوں برطانیہ کے قریبی دوست ہیں، وہ دولت مشترکہ کے شراکت دار بھی ہیں۔‘

آسٹریلیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ کنبیرا ان الزامات سے ’سخت فکر مند‘ ہے، اور اس نے ’انڈیا کو سینیئر سطحوں پر اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔‘

لہٰذا، ابھی مغربی ممالک کو اس بات کا انتظار رہے گا کہ کینیڈا میں تفتیش کس طرح آگے بڑھتی ہے۔

کچھ اتحادیوں کو کینیڈین انٹیلی جنس کی معلومات تک رسائی ہوگی۔ اگر پختہ ثبوت ملیں گے تو ہو سکتا ہے کہ صورت حال تبدیل ہو جائے۔

اگر ایسا ہوا تو مغربی طاقتوں کو اوٹاوا اور دلی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ اور اس طرح یہ بات سامنے آئے گی کہ کون قانون کی حکمرانی کے اصول کی حمایت کرتا ہے اور کون حقیقی سیاست کی سخت ضرورت کے سامنے جھکتا ہے۔

ماضی میں مغربی ممالک نے روس یا ایران یا سعودی عرب جیسے ممالک کی طرف سے کیے گئے مبینہ ماورائے عدالت قتل کی مذمت کی ہے۔ وہ نہیں چاہیں گے کہ انڈیا بھی اس فہرست میں شامل ہو۔

سفر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’انڈیا میں سفر کے دوران انتہائی محتاط رہیں‘

دریں اثنا کینیڈا نے انڈیا کے حوالے سے ایک نئی ٹریول ایڈوائزری جاری کی ہے جس میں اس نے اپنے شہریوں کو انڈیا سفر کے دوران ’انتہائی محتاط‘ رہنے کو کہا ہے۔

کینیڈین حکومت نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ ’سکیورٹی کی غیر معمولی صورتحال کی وجہ سے‘ جموں و کشمیر کے مرکزی علاقے کا سفر کرنے سے گریز کریں۔

منگل کو جاری کردہ اس ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ ’جموں و کشمیر میں دہشت گردی، انتہا پسندی، بدامنی اور اغوا کا خطرہ ہے۔ اس میں لداخ کا سفر شامل نہیں ہے۔‘

اس کے علاوہ شہریوں کو یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ شمال مشرقی انڈیا کے کچھ علاقوں میں نہ جائیں۔ پاکستان سے متصل گجرات، پنجاب اور راجستھان کے علاقوں میں بھی نہ جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

کینیڈا کی جانب سے یہ نئی ٹریول ایڈوائزری ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں تاریخی اضافہ نظر آ رہا ہے۔

ٹروڈو اپنی فیملی کے ساتھ

،تصویر کا ذریعہEMPICS

،تصویر کا کیپشن

ٹروڈو اپنی فیملی کے ساتھ

مودی اور جسٹن ٹروڈو کا تعلق

جسٹن ٹروڈو اور انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان یہ ایسا پہلا معاملہ نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں سربراہان مملکت کے درمیان تعلقات کبھی بہتر نہیں رہے۔

مودی مئی سنہ 2014 میں پہلی بار انڈیا کے وزیر اعظم بنے اور جسٹن ٹروڈو اکتوبر 2015 میں پہلی بار کینیڈا کے وزیر اعظم بنے۔

سنہ 2019 میں نریندر مودی دوسری مدت کے لیے منتخب ہوئے جبکہ جسٹن ٹروڈو بھی اکتوبر 2019 میں دوسری مدت کے لیے منتخب ہوئے۔

ٹروڈو کی ’لبرل پارٹی آف کینیڈا‘ خود کو لبرل ڈیموکریٹک بتاتی ہے اور پی ایم مودی کی بی جے پی کی ہندوتوا حامی اور دائیں بازو کی قوم پرست جماعت کے طور پر شناخت ہے۔

وزیر اعظم بننے کے بعد مودی نے اپریل سنہ 2015 میں کینیڈا کا دو روزہ دورہ کیا تھا۔ اس وقت کینیڈا کے وزیر اعظم کنزرویٹو پارٹی کے سٹیفن ہارپر تھے۔

سنہ 2010 میں انڈیا کے اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ جی 20 کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے کینیڈا گئے تھے۔ لیکن سربراہی اجلاس کے علاوہ کسی انڈین وزیر اعظم کا کینیڈا کا دورہ 42 سال بعد ہی ہوا، جب پی ایم مودی نے 2015 میں کینیڈا کا دورہ کیا۔

جسٹن ٹروڈو کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے نریندر مودی نے کینیڈا کا دورہ نہیں کیا۔

جبکہ سنہ 2018 میں جسٹن ٹروڈو نے پہلی بار انڈیا کا دورہ کیا تو ان کا دورہ اگرچہ طویل ترین دورہ تھا لیکن وہ تنازعات کا شکار رہا۔ ان کے سات روزہ دورے پر غیر ملکی میڈیا نے اپنی رپورٹس میں کہا تھا کہ انڈیا نے ٹروڈو کے استقبال میں لاتعلقی کا مظاہرہ کیا۔

میڈیا رپورٹ میں کہا گیا کہ انڈیا نے یہ کام کینیڈا کی سکھ علیحدگی پسندوں کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے کیا ہے۔

اس وقت بھی ٹروڈو کے دورے سے متعلق تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔

ان تصاویر کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ وزیر اعظم مودی دلی کے ہوائی اڈے پر اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما، اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو اور متحدہ عرب امارات کے ولی عہد کے استقبال کے لیے کھڑے نظر آئے تھے جبکہ جسٹن ٹروڈو کے استقبال کے لیے انھوں نے ایک جونیئر وزیر بھیجا۔

کینیڈین وزیراعظم تاج محل دیکھنے گئے تو وہ واقعہ بھی گمنام سا ہی رہا۔

BBCUrdu.com بشکریہ