کشیدگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ مصر نے اعلان کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) میں جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف دائر نسل کشی کی شکایت میں باضابطہ طور پر شامل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مصر کے اس اعلان نے اسرائیلی حکومت کو حیران کر دیا ہے۔پچھلے سال دسمبر میں، جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیل ان الزامات کو رد کرتا آیا ہے۔مصر کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے جنوبی افریقہ کی حمایت کا فیصلہ غزہ میں فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی حملوں کی بڑھتی ہوئی شدت اور دائرہ کار کی روشنی میں کیا گیا ہے۔مصر میں فیصلہ ساز حلقوں کے قریبی ذرائع نے بی بی سی عربی سروس کو بتایا ہے کہ رفح میں فوجی کارروائیوں اور سرحدی کراسنگ پر اسرائیلی کنٹرول کے خلاف احتجاج کے طور پر مصر اسرائیل میں اپنی سفارتی نمائندگی کو کم کرنے پر بھی غور کر رہا ہے۔تاہم مصر کا کہنا ہے کہ فی الحال امن معاہدے کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔محقق گیل تالشیر یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مصر اور اسرائیل کے درمیان سرد امن معاہدے کی بنیاد محبت نہیں بلکہ مشترکہ قومی اور سلامتی کے مفادات ہیں۔تاہم دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور غزہ جنگ دونوں پڑوسیوں کے مستقبل کے تعلقات پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
مصر اور اسرائیل امن معاہدہ کیا ہے؟
سنہ 1948 سے 1973 کے درمیان، اسرائیل اور مصر کے درمیان چار جنگیں لڑی گئیں۔ ان جنگوں کے نتیجے میں سرحدوں میں کئی بار تبدیلی آئیں۔بالآخر سنہ 1973 میں یوم کپور جنگ کے بعد اسرائیل اور مصر کے مابین امن معاہدے پر بات چیت شروع ہوئی۔ اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کی ثالثی سے سنہ 1978 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے طے پائے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
مصر کو اب کیا خطرہ لاحق ہے؟
رفح بارڈر کراسنگ پر اسرائیلی فوجیوں کی تعیناتی نے ایک بار پھر تاریخ کا دھار موڑا ہے۔بین الاقوامی قانون کے پروفیسر اور مصری خارجہ امور کی کونسل کے رکن ایمن سلامہ نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ اسرائیل بغیر مصر کی اجازت کے زون ڈی میں اضافی فوجی تعینات کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ان کی رائے میں مصر کے ساتھ بین الاقوامی سرحد پر فوجی دستوں کی اسرائیلی تعیناتی امن معاہدے کی شرائط اور اس کے حفاظتی ضابطوں کی خلاف ورزی ہے کیونکہ یہ ایک دشمنی پر مبنی عمل ہے جس سے مصر کی قومی خودمختاری کو خطرہ ہے۔لیکن اس کے علاوہ مصر کو جنگ کے آغاز سے ہی یہ خدشہ ہے کہ اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں یہاں کے لوگوں کا رخ سینا کی طرف ہو گا۔اسرائیلی فوج کی ان کارروائیوں میں اب تک تقریباً 35,000 غزہ کے افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں تقریباً 20 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔غزہ میں جاری جنگ کے دوران اسرائیلی حکومت کے ارکان کے متعدد بیانات میں غزہ سے فلسطینیوں کے سینائی کی طرف منتقل ہونے کے امکان کا ذکر کیا گیا ہے۔ قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں عالمی سیاسیات کے ماہر مصطفیٰ کامل السید نے کہا ہے کہ اس طرح کے ذکر نے مصری حکومت کو نہ صرف مشکوک بنا دیا ہے بلکہ اس بات پر یقین کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں فلسطینیوں کو مصر کی طرف دھکیل کر ان کی موجودگی کو ختم کرنا چاہتی ہے اور یہ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اس سے فلسطین کی سالمیت کا خاتمہ تصور کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اب تک غزہ شہر سے خان یونس اور بعد میں رفح کی طرف آبادی کو آگے بڑھنے پر مجبور کرنے کے بعد اور سرحدی گزرگاہ کے فلسطینی حصے کو کنٹرول کرنے کے باوجود اسرائیل نے غزہ کے باشندوں کو باہر سینائی کی طرف جانے پر مجبور نہیں کیا۔غزہ میں بسنے والے فلسطینی جو انتہائی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور قحط اور بیماری کا شکار ہیں نے بھی مصری سرزمین پر حملہ نہیں کیا، جیسا کہ انھوں نے سنہ 2008 میں عارضی طور پر اسرائیل کی طرف سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد کیا تھا۔تاہم یہاں کے باشندوں کو جنوبی غزہ کی چھوٹی ساحلی پٹی کی طرف جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے جسے ’المواسی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے اسرائیل نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر زون‘ قرار دیا ہے اور یہاں تک کہ انھیں کچھ اور جنوب کے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت بھی دی ہے۔ خان یونس کے مغربی حصے میں دیر البلاح جیسے شہروں میں شاید ہی کوئی کھنڈرات باقی رہ گئے ہوں۔ اقوام متحدہ کے مطابق صرف گذشتہ ہفتے میں تقریباً 450,000 افراد کو رفح سے فرار ہونا پڑا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاسرائیلی یہ سمجھتے ہیں کہ حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر جو حملہ کیا تھا اس کے لیے اس گروپ کے پاس اسلحہ سینائی سے غیرقانونی سرنگوں کے ذریعے آیا تھا۔ حماس کے اس حملے میں 1200 افراد ہلاک جبکہ 200 سے زائد یرغمال بنا لیے گئے۔ گیل تاشیر کی رائے میں ’اسرائیل اب کم از کم عارضی طور پر غزہ اور مصر کے درمیان سرحد کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔‘ ان کے مطابق ’یہ واضح ہے کہ مصر کو زیادہ کیوں فکر لاحق ہے۔ مصر نہیں چاہتا کہ یہ مصر اور اسرائیل کے درمیان تصادم کے امکانات کے ساتھ ساتھ ایک جنگی سرحد بن جائے اور اسی لیے وہ اس قسم کے خطرات کا سبب بن رہا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اسرائیل کو روکا جائے۔ ان کے مطابق ایسے میں مصر بین الاقوامی عدالت انصاف کے سامنے اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے سے متعلق جنوبی افریقہ کی شکایت میں شامل ہونے کے حوالے سے عندیہ دے رہا ہے۔‘
مصر کیا کر سکتا ہے؟
مصر نہ صرف اپنی سرحدی صورتحال کی وجہ سے غزہ کی جنگ میں پیش پیش ہے بلکہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اور ملیشیا کے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قطر کے ساتھ اہم مذاکرات کاروں میں سے ایک فریق ہے۔ یہ وہ کردار ہے جو اس نے روایتی طور پر کئی دہائیوں سے پٹی میں مسلسل جنگوں اور تنازعات میں ادا کیا ہے۔قاہرہ میں غزہ سے پانچ سال تک حماس کے ہاتھوں اغوا کیے گئے اسرائیلی فوجی ’گیلاد شالیت‘ کی رہائی کے لیے سنہ 2011 میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں بات چیت ہوئی۔اس سے مصر کو اسرائیل کی نظر میں ایک سٹریٹجک قدر ملتی ہے، جو قاہرہ کو ان دشمنوں کے ساتھ ایک ثالث کے طور پر شمار کر سکتا ہے جن کے ساتھ بصورت دیگر بات چیت کرنا ناممکن ہو گا۔پروفیسر گیل تالشیر کی رائے میں مصر ’ایران کا سب سے بڑا دشمن‘ بھی ہے، جو اسے اسرائیل کا قریبی ساتھی بنا دیتا ہے۔ مصری حکومت مشرق وسطیٰ میں واشنگٹن کے اہم اتحادیوں میں سے ایک ہے۔
- غزہ اسرائیل تنازع: حماس نے جنگ بندی کی شرائط قبول کر لیں ’رفح آپریشن جاری رہے گا‘ نیتن یاہو6 مئ 2024
- ’جنوسائیڈ جو‘: کیا غزہ جنگ پر امریکی یونیورسٹیوں میں مظاہرے بائیڈن کو دوبارہ صدر بننے سے روک سکتے ہیں؟5 مئ 2024
- غرب اُردن میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے آٹھ سالہ آدم کی ہلاکت اور اسرائیل پر ممکنہ جنگی جرم کے ارتکاب کا الزام3 مئ 2024
،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.