مصر میں چھ پاکستانیوں کی سزائے موت عمر قید میں ’تبدیل‘: ’میرا شوہر اب تک اپنے بیٹے کو سینے سے نہیں لگا سکا‘
مصر میں چھ پاکستانیوں کی سزائے موت عمر قید میں ’تبدیل‘: ’میں اپنے شوہر کے بغیر بچے کی پرورش کر رہی ہوں‘
- محمد زبیر خان
- صحافی
راحیل حنیف اور اُن کی اہلیہ انعم افضال
’میرا بیٹا اب لگ بھگ پانچ سال کا ہو چکا ہے۔ اس کی پیدائش میرے شوہر کے مصر میں 2017 میں گرفتار ہونے کے دو ہفتے بعد ہوئی تھی۔ اب یہ کافی بڑا اور سمجھدار ہوگیا ہے۔ پوچھتا ہے کہ سب کے پاپا ہیں تو میرے پاپا کہاں ہیں۔ میں بھی راحیل سے ملنا چاہتی ہوں مگر اس ملاقات میں بیٹے کے سفری دستاویزات مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔‘
یہ کہنا ہے کراچی کی رہائشی انعم افضل کا، جن کے شوہر راحیل حنیف اپنے دیگر چھ ساتھیوں کے ہمراہ مصر کی جیل میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔
راحیل حنیف اور ان کے چھ ساتھیوں کو مصر کے حکام نے سنہ 2017 میں گرفتار کیا تھا۔ ان میں ایک پاکستانی نژاد ایرانی اور دیگر پاکستانی شہری ہیں۔
گرفتاری کے وقت مصر کے حکام نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ اُن کے بحری جہاز سے دو ٹن ہیروئن اور 99 کلو آئس برآمد ہوئی تھی۔ حکام کے مطابق اب تک یہ مصر میں پکڑی جانے والی منشیات کی سب سے بڑی کھیپ تھی۔
اس مقدمے میں راحیل حنیف اور اُن کے ساتھیوں کو پہلے سزائے موت سُنائی گئی تھی جس کی توثیق مصر کے مفتی اعظم نے بھی کر دی تھی۔ تاہم رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں راحیل کے اہلخانہ کو ان کے پاکستان اور مصر میں موجود وکلا نے مطلع کیا کہ مصر کی سب سے بڑی عدالت اپیلیٹ کورٹ نے اُن کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے۔
اس مقدمے کی پیروی کرنے والے نثار اے مجاہد ایڈووکیٹ کے مطابق ’مجھے مصر میں موجود پاکستانی سفارت خانے اور وزارت خارجہ نے باضابطہ طور پر آگاہ کیا ہے کہ ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی حکام کی جانب سے فیصلے کی کاپی کے لیے درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ جس کے ملنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔‘
انعم کہتی ہیں کہ ’اب اور انتظار نہیں ہوتا۔ جہاز پر جانے سے پہلے راحیل کہہ کر گئے تھے کہ ایک سال میں آؤں گا تو اپنے بچے کا عقیقہ کر کے شاندار پارٹی کریں گے۔ ان کے جانے کے دو ہفتے بعد بیٹا ہوا تھا جس نے ابھی تک اپنے باپ کا چہرہ نہیں دیکھا ہے۔‘
راحیل حنیف کے خاندان کے مطابق وہ پہلی مرتبہ جہاز پر گئے تھے اور گرفتار ہو گئے
انعم پوچھتی ہیں کہ راحیل منشیات کی سمگلنگ میں کیسے ملوث ہو سکتے ہیں؟ ’میں یہ کیسے یقین کر لوں، کیونکہ وہ پہلی مرتبہ جہاز پر گئے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے ایجنٹ کو ڈھائی لاکھ روپے ادا کیے تھے۔ ان کی تنخواہ کوئی چالیس ہزار پاکستانی روپے بنتی تھی اور ان کا کام جہاز پر صفائی ستھرائی کرنا تھا۔‘
ان پاکستانیوں کے کیس میں جس مصری وکیل کی خدمات پاکستانی سفارت خانے نے حاصل کی ہیں، اُن کی معاونت بین الاقوامی بحری قوانین کے ماہر نثار اے مجاہد ایڈووکیٹ کر رہے ہیں۔
انعم افضل کہتی ہیں کہ ’سوچیں زندگی کے اتنے سال گزر گئے ہیں۔ میں اب تک اپنے شوہر کے بغیر اپنے بچے کی پرورش کر رہی ہوں۔ اتنے لمبے عرصے میں ملاقات بھی نہیں ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب تک انھیں سزا نہیں سُنائی گئی تھی تو کھبی کبھار فون پر بات ہو جاتی تھی۔‘
‘اب تو ایک سال ہو گیا ہے فون پر بھی بات نہیں ہوئی، کچھ پتا نہیں وہ اور ان کے دیگر ساتھی کس حال میں ہیں۔‘
انعم افضل کہتی ہیں ’ہم نے تو دیکھا اور سُنا ہے کہ قیدیوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ اُن کو ماں باپ، بہن بھائیوں، بیوی بچوں کے ساتھ ملاقات کرنے اور فون پر بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ مگر دیکھیں ہم وہ بدنصیب خاندان ہے جس میں ابھی تک باپ نے بیٹے کو سینے سے نہیں لگایا اور اس کو دیکھا بھی نہیں ہے۔ اسی طرح کم عمر بیٹے نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا اور نہ ہی بات کی ہے۔‘
نثار اے مجاہد ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ چھ پاکستانیوں میں سے چار ایسے تھے جن کی بحری جہاز کا یہ پہلا سفر تھا۔ یہ چاروں پاکستانی بحری جہاز پر ویٹر، صفائی ستھرائی اور پینٹ کے کام سے منسلک تھے۔ یہ سب غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ایک کپتان اور ایک انجینیئر ہیں، جن میں کپتان کی عمر قریباً 70 سال ہے۔
مصر میں سزائے موت پانے والے ایک اور پاکستانی محمد عاطف کے بھائی محمد رمیز کا کہنا تھا کہ ’جب سے بھائی کو سزا سنائی گئی ہے اس وقت سے ہمارے گھر میں کوئی ڈھنگ کا کھانا نہیں بنا ہے۔ امی اور ابو صرف بھائی کو یاد کرتے ہیں۔ اب تو بھائی سے بات بھی نہیں ہوتی ہے۔‘
محمد عاطف اس بحری جہاز پر ویٹر تھے جس کے عملے کو منشیات سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا
انعم افضل کہتی ہیں کہ ’ہم لوگوں کی طرف سے نثار اے مجاہد ایڈووکیٹ کیس کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری ساتھ حکومت پاکستان، پاکستان میں موجود مصری سفارتخانے اور وزارت خارجہ نے بھی تعاون کیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر راحیل اور ان کے ساتھی پاکستان میں سزا کاٹ سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو تاخیر کیوں کر رہے ہیں؟‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ بیٹے کی راحیل کے ساتھ ملاقات ہو۔ میں ان کا پاسپورٹ بنوانا چاہتی ہوں مگر مجھے فارم ب بنا کر نہیں دیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فارم ب کے لیے والد کی موجودگی ضروری ہے۔ اب بیٹے کا والد تو مصر کی جیل میں ہے۔ میں ان کو کہاں سے لا کر پیش کروں کہ اس کا فارم ب بنے اور اس کا پاسپورٹ بنوا کر بیٹے کو والد سے ملوانے کے لیے لے کر جا سکوں؟‘
اب تک مقدمے میں کیا ہوا؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر نثار اے مجاہد ایڈووکیٹ جو ان سات پاکستانیوں کے کیس پر کام کر رہے ہیں نے بتایا کہ ماتحت عدالت کی جانب سے ان سات پاکستانیوں کو موت کی سزا سنائے جانے کے بعد مصر کے مفتی اعظم نے اس سزا کی توثیق کی تھی۔ مگر اس کے بعد سزائے موت کے خلاف اپیلٹ کورٹ میں اپیل کی گئی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’اس اپیل پر مصر میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے مقرر کردہ مصری وکیل کو اپیل کی تیاری میں، میں نے بھی معاونت کی تھی۔ اس اپیل پر مصر کی سب سے بڑی عدالت اپیلیٹ کورٹ میں سماعت جون کے پہلے ہفتے میں ہوئی تھی۔ جس میں اس پاکستانیوں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔‘
نثار اے مجاہد ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’اب ان پاکستانیوں کے پاس کوئی قانونی راستہ نہیں بچا ہے ماسوائے اس کہ دونوں ممالک کے درمیاں سفارتی سطح پر کوئی بات چیت آگے چل سکے۔ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہو جائے اور یہ پاکستانی پاکستان آ کر اپنی سزا مکمل کریں۔‘
نثار اے مجاہد ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’اس وقت پاکستان اور مصر کے درمیاں قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ مصر میں کافی تعداد میں پاکستانی قید کی سزائیں برداشت کر رہی ہیں۔‘
نثار اے مجاہد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’جب ان پاکستانیوں کو ماتحت عدالت اور مفتی اعظم کی جانب سے سزا ہوئی تو اس وقت پاکستان کی وزارت خارجہ سے رابطہ قائم کیا تو پتا چلا کہ پاکستان اور مصر میں کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ جس پر میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پیٹیشن دائر کی جو یہ کہہ کر مسترد کر دی گئی تھی کہ عدالت حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تو وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کو نوٹسز جاری ہوئے۔ جس کے بعد حکومت پاکستان نے مصر کے ساتھ قیدیوں کے معاہدے کا ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے۔ یہ معاہدہ مصر کے پاس موجود ہے، وہ اس پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ اگر اس معاہدے پر مصر کی جانب سے دستخط ہو جاتے ہیں تو پھر یہ ساتوں اور اس کے علاوہ موجود دیگر پاکستانی بھی پاکستان کی جیلوں میں اپنی سزا کی مدت کاٹ سکتے ہیں جبکہ مصر کے قیدی مصر کی جیلوں میں جا سکتے ہیں۔‘
محمد عاطف
انعم افضل کہتی ہیں کہ راحیل اُن کے ماموں زاد بھی ہیں۔ ’شادی کے بعد ہی سے وہ اچھے مستقبل کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ اس وقت تو وہ بہت جذباتی ہو گئے تھے جب انھییں پتا چلا کہ میں ماں بننی والی ہوں۔ اس کے بعد وہ اچھے کام کے کی تلاش میں پھرتے تھے۔‘
انعم افضل بتاتی ہیں کہ راحیل اکثر کہتے تھے کہ ’میں اپنے ہونے والے بچے کو غربت میں نہیں پلنے دوں گا۔ بچے کی خاطر بہت کام کروں گا۔ اسی دوران ابھی ڈیلیوری میں کوئی ایک ماہ رہتا تھا تو انھیں جہاز پر ایجنٹ کے ذریعے سے نوکری مل گئی تھی۔‘
’میں نے ان سے کہا بھی کہ ڈیلیوری کے بعد چلے جائیں مگر وہ نہیں مانے، کہتے تھے کہ ایک سال بعد آؤں گا تو میرے پاس اتنے پیسے ہوں گے کہ ہم عقیقے کی اچھی سی دعوت کر سکیں۔ اب خالی جیب کے ساتھ اور کام کے بغیر رُک بھی گیا تو کیا فائدہ ہو گا؟‘
انعم افضل کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہ چلے گئے۔ ’کبھی کبھار بات ہوتی رہتی تھی۔ ان کا جہاز پر دل نہیں لگ رہا تھا۔ مگر وہ کہتے تھے کہ اپنا کام پورا کرتا ہوں تاکہ کسی کو میرے کام سے شکایت نہ ہو۔ مگر پھر ایک روز ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ رابطہ کوئی 15 دن بعد بحال ہوا تو پتا چلا کہ ان کو مصر میں منشیات سمگلنگ کے کیس میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کا وہاں پر مقدمہ تین سال تک چلتا رہا۔
یہ بھی پڑھیے
جب وہ عدالت آتے تھے تو ان سے بات ہو جاتی تھی مگر جب سے سزا ہوئی ہے ان سے بات بھی نہیں ہوئی ہے۔ ’دل بہت بے چین ہے، ہر وقت بس (زور سے) دھڑک رہا ہے۔‘
’امی ابو ہر وقت گم سم رہتے ہیں‘
محمد رمیز کہتے ہیں کہ محمد عاطف چھوٹی عمر ہی میں جہاز پر ویٹر بھرتی ہوئے تھے۔
’امی اور ابو بس ہر وقت گم صم رہتے ہیں۔ ابو تو پھر بھی کچھ نہ کچھ معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں مگر امی بس ایک ہی بات کرتی ہیں کہ کیا عاطف کا فون آیا؟ وہ کب واپس آ رہا ہے؟ اُن کو بتانے کے لیے ہمارے پاس صرف بہانے ہی ہوتے ہیں۔‘
محمد رمیز کہتے ہیں کہ تقریباً چار سال سے اوپر ہو چکے ہیں کہ عاطف مصر کی جیل میں بند ہیں۔ ’باوجود کوشش اور چاہنے کے ہم لوگ مالی مسائل کے سبب سے مصر نہیں جا سکے ہیں۔ کم از کم ان سے مل تو لیتے۔ ہمارے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ ہم کوئی وکیل کر سکیں۔‘
’پاکستانی سفارت خانے نے ان کو وکیل کر کے دیا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے وکیل نثار اے مجاہد ہماری معاونت اور مدد کر رہے ہیں جن کی مدد سے سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی گئی ہے۔‘
سزائے موت کے خلاف اپیل میں کیا کہا گیا تھا؟
نثار اے مجاہد ایڈووکیٹ نے پاکستانیوں کے کیس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور عدالتی کارروائی میں مصری وکیل کی معاونت کرنے کے لیے مصر کا دورہ کیا تھا جہاں پر انھوں نے پاکستانی سفارت خانے کے حکام، مصری حکام، مصر میں پاکستانیوں کے وکیل اور قید پاکستانیوں سے طویل ملاقاتیں کی ہیں۔
نثار احمد مجاہد نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ پاکستانیوں سے طویل ملاقاتوں میں وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس کیس میں مکمل طور پر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔
اُن کے مطابق اُنھوں نے ’اپیل تیار کرنے میں مصر میں موجود وکیل کی معاونت کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ذیلی عدالت میں شفاف ٹرائل نہیں ملا اور مؤقف سنے بغیر فیصلہ کر دیا گیا ہے۔‘
’سزا سنانے کے لیے ثبوت نامکمل تھے۔ ذیلی عدالت نے حکام کے بیانات کو جرح کیے بغیر ہی تسلیم کر لیا تھا۔ تحقیقاتی ادارے نے یکطرفہ طور پر فائل تیار کی اور من مانے بیانات لکھے ہیں۔ شک کا فائدہ بھی نہیں دیا گیا حالانکہ جہاں سے منشیات برآمد ہوئی وہاں پر ذیلی عملے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔‘
نثار اے مجاہد کا کہنا تھا کہ عدالتی ریکارڈ کے مطابق جہاز کے جس مقام سے منشیات برآمد ہوئی ہے۔ وہاں پر جہاز کے ذیلی عملے کا تو آنا جانا ہی نہیں ہوتا کیونکہ اس مقام تک اُنھیں کسی بھی صورت میں جانے کی اجازت ہی نہیں ہوتی، تو پھر کس طرح ذیلی عملہ منشیات چھپانے میں ملوث ہو سکتا ہے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح بہت سی چیزوں کی تحقیقات نہیں ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر ان لوگوں کو جہاز میں بھرتی کے وقت کہا گیا تھا کہ یہ ایک آئل ٹینکر ہے مگر جب ان کو جہاز پر سوار کروایا گیا تو وہ کارگو تھا، جس پر ان لوگوں نے احتجاج کیا مگر ان سے کہا گیا کہ دوسری منزل پر ان کو آئل ٹینکر میں سوار کروا دیا جائے گا۔
نثار احمد مجاہد ایڈووکیٹ کے مطابق ان لوگوں کو ایران سے جہاز میں سوار کروایا گیا تھا۔ ایران میں ان لوگوں کو غلط مقام بتایا گیا تھا جس کے بعد ان کو ایران میں غیر ضروری طور ایک ماہ قیام کروایا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ پر ہے کہ اس جہاز کی منزل تو کبھی مصر تھی ہی نہیں۔ اب اگر مصر کے حکام نے گرفتار کر کے منشیات برآمد کی ہے تو پتا چلنا چاہیے کہ یہ کس طرح ممکن ہوا؟
’کیس میں کافی سارے خلا موجود ہیں جن کے بارے میں ابھی بھی مناسب تفتیش کرنے کی ضرورت موجود ہے۔‘
Comments are closed.