قاہرہ: وھیل کے متعلق حیرت انگیز رکازات (فاسلز) سے منسوب مصر سے اب ایک اہم دریافت ہوئی ہے۔ یہاں سے چار کروڑ تیس لاکھ سال پرانی وھیل کی ہڈیاں ملی ہیں جس کے چار پاؤں تھے اور وہ بہ یک وقت خشکی اور پانی میں رہتی تھی۔
مصر کے ایک ریگستانی علاقے میں واقع فیوم ڈھلان سے اس وھیل کے رکازات ملے ہیں۔ اس کا دلچسپ نام ’فایئومیسیٹس اینیو بس‘ رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اینیوبس قدیم مصر میں موت کے دیوتا کا نام تھا اور اسی مناسبت سےوھیل کا یہ نام رکھا گیا ہے۔ فاسل درمیانی ایوسین عہد سے تعلق رکھتا ہے۔
یہ ایک نئی قسم کی وھیل ہے جو اولین وھیل (پروٹوسیٹی ڈائی) سے تعلق رکھتی ہے۔ اس عہد کی تمام وھیل قصہ پارینہ ہوچکی ہیں جو خشکی سے سمندر جانے کی تیاری کررہی تھیں۔ اس دریافت میں مصری ماہرین نے اہم کردار ادا کیا ہے جو وھیل کے ارتقا کی حیرت انگیز داستان سناتی ہے۔
اس کے بعد وھیل کو منصورہ یونیورسٹی میں واقع فقاری (ورٹیبریٹ) معدومیات کے مرکز میں لے جایا گیا اور وہاں اس پر مزید تحقیق کی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ وھیل اپنے وزن کے باوجود بہت پھرتیلی شکاری تھی۔ اگرچہ اس کا جزوی ڈھانچہ ہی ملا ہے لیکن اسے دیکھ کر اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ افریقہ سے پائی جانے والی وھیل کی قدیم ترین قسم ہے جو خشکی سے پانی میں اترنے کا سفر شروع کرچکی تھی۔
پوری کھوج کےسربراہ ڈاکٹر عبداللہ گوہر ہیں جو منصورہ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ اس کی تفصیلات پروسیڈنگز آف دی رائل سوسائٹی بی میں شائع کرائی ہیں۔
’یہ ایک چالاک شکاری تھی اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اپنے اطراف کے دیگر جانداروں کے لیے موت کی دیوی تھی،‘ ڈاکٹر عبداللہ نے کہا۔ انہوں نے کہا کہ نئی دریافت سے وھیل کے مختلف ارتقائی مراحل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
واضح رہے کہ نئی وھیل کے یہ آثار بھی مصر کی مشہور صحرائی وادی، وادی الحیتان سے دریافت ہوئے ہیں جہاں قدیم وھیل کے کئی حیرت انگیز آثار مل چکے ہیں۔ ان میں سب سے اہم آثار بیسیلوسارس کے ہیں جو سانپ جیسی لمبی وھیل کی ایک قسم ہے۔ اس کے رکازات بہت حد تک مکمل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یونیسکو نے وادی الحیتان کو ’عالمی ورثے‘ میں شامل کیا ہے۔
Comments are closed.