وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا مشکل اور گمبھیر وقت نہیں دیکھا، پاکستان اس وقت مشکل مقام پر کھڑا ہے، وزیرِ اعظم شہباز شریف نے مشکل فیصلے لیے ہیں، مشکل فیصلوں کے سوا کوئی آپشن نہیں۔
پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ 11 سو ارب روپے سے زیادہ بجلی کی مد میں سبسڈی دی گئی ہے، مسائل کو حل نہیں کیا گیا تو معیشت اتنا بوجھ نہیں اٹھا پائے گی، گیس کے شعبے میں 4 سو ارب روپے سبسڈی دی گئی ہے، کسی فیکٹری کو بند نہیں ہونے دیں گے، اس سے روزگار ملتا ہے، گیس میں نقصان ہو رہا ہے، پتہ نہیں چلتا وہ گیس چوری ہو جاتی ہے یا اڑ جاتی ہے، پاکستان ایٹمی طاقت ہے، ہمیں اپنی معیشت سدھارنی ہو گی۔
ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے کے برخلاف فیول پر سبسڈی دی، عام پاکستانی کو مزید دبائیں گے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی، تاریخ کے چار بڑے خسارے عمران خان نے کیے ہیں، جتنے وسائل ہیں ملک میں ہم نے اب تک اس کا 5 فیصد بھی استعمال نہیں کیا، اگر ہم پیٹرول مہنگا کرتے ہیں تو پیسہ گھر نہیں لے کر جا رہے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ کوشش کی ہے کہ امیروں سے زیادہ حصہ لیں اور عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے، خوردنی تیل بہت مہنگا ہو گیا ہے، آئل سیڈز پر مراعات دے رہے ہیں، اس سال میں ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ تیل کی قیمتیں کم ہوں گی، 25 لاکھ دکانداروں کو اس سال ٹیکس نیٹ میں لے کر آئیں گے، ملک کے انتظامی امور میں بہتری نہ کی گئی تو ملک کا چلنا مشکل ہے، ہم دوسرے ممالک کے پاس جا جا کر مالی امداد مانگ رہے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے فروری میں آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے خلاف سبسڈی دی، انہوں نے جعلی چیک کاٹ کر بھاگ جانے والی حرکت کی ہے، شہباز شریف نے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے مشکل فیصلے کیے ہیں۔
وزیرِ خزانہ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال 4598 ارب روپے کے مالی خسارے کا سامنا ہو گا، آئندہ مالی سال 3950 ارب روپے قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے ادا کرنے کا تخمینہ ہے، 2 ارب روپے ایس این جی پی ایل نے گزشتہ سال سردیوں میں نقصان کیا ہے، ایل این جی کی عدم خریداری کی وجہ سے گیس سرکلر ڈیٹ میں اضافہ ہوا، پی ایس او نے 500 ارب روپے کی وصولیاں کرنی ہیں، یہاں ڈھائی ارب روپے کی گیس ہوا میں اڑا دیتے ہیں، خیبر پختون خوا میں ضم فاٹا کے علاقوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہماری ترجیحات یہ نہیں کہ گزشتہ حکومت کے خلاف کیسز کرتے رہیں، عمران خان نا اہل تھے، ان کی ٹیم بھی نا اہل تھی اور یہ خورد برد میں بھی ملوث تھے، اپنا کام چھوڑ کر عمران خان کے پیچھے لگ جاؤں تو وزیرِ خزانہ کا کام کون کرے گا؟ عمران خان کی حکومت نے ماضی کی تمام حکومتوں سے زیادہ قرض لیا، ہمارا پہلا ٹارگٹ سری لنکا کی نہج پر ملک کو جانے سے بچانا ہے، ہمارا دوسرا ٹارگٹ عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔
وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ جون سے ہی مستحقین کو 2 ہزار روپے دیں گے، میں نے 600 روپے کا کہا تھا، وزیرِ اعظم نے، 2 ہزار روپے کرائے، پنجاب میں حمزہ شہباز نے سستا آٹا اسکیم شروع کی ہے، خیبر پختون خوا، پنجاب اور سندھ کی حکومت بھی سستا آٹا فراہم کریں، نیشنل اکنامک فورم میں محمود خان نہیں آئے اس پر افسوس ہوا، ایسی کیا بات تھی کہ محمود خان اجلاس میں نہیں آئے، وزیرِ اعظم شہباز شریف کے لیے ٹریفک روکی گئی تھی جس پر وہ ناراض ہوئے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ گردشی قرضے کی مد میں 500 ارب روپے حکومت کا نقصان ہے، بجلی کے نرخ کے نظام میں سقم ہیں، بل وصولی بہت کم ہے، وفاق کو 1100 ارب کا نقصان ملک کو لے ڈوبے گا، معاملہ ٹھیک نہ کیا تو معیشت کو نقصان ہو گا۔
اس موقع پر وزیرِ مملکت برائے خزانہ و ریونیو ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ اتنے برے حالات تھے کہ ہم تو خود پریشان ہو گئے تھے، کوشش کی ہے کہ عام آدمی پر بجٹ میں کم از کم اثر پڑے، ریلیف دے رہے ہیں کہ کھانے پینے کی اشیاء ملک میں ہی دستیاب ہوں، باہر سے نہ منگوانا پڑیں، ہم نہیں چاہتے کہ قرضے لیں اور عوام پر مزید بوجھ بڑھے۔
Comments are closed.