مشکل فیصلوں کا وقت اور اسرائیلی وزیراعظم کی پریشانی: ’نتن یاہو جانتے ہیں کہ حماس کی بقا اُن کی شکست کے مترادف ہے‘
- مصنف, جیریمی بوؤن
- عہدہ, مدیر بین الاقوامی اُمور
- 13 منٹ قبل
اسرائیل، حماس اور غزہ میں جنگ بندی کے لیے کوشاں ثالثوں کے درمیان ہونے والی مہینوں طویل بات چیت کے بعد اب سخت فیصلوں کا وقت آ گیا ہے۔حماس نے جنگ بندی کے لیے شرائط کا احاطہ کرتے اُس اہم مسودے پر اتفاق کر لیا ہے جو اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نتن یاہو کے مطابق ’اسرائیل کے (اس ضمن میں) مطالبات کا عکاس نہیں ہے۔‘ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے ضروری سمجھا کہ حماس کے اعلان کے باوجود وہ جنگ بندی کی شرائط پر مزید گفتگو کے لیے اپنا ایک وفد مصر بھیجیں۔اب مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں موجود مذاکرات کاروں کے لیے ایک بڑا چیلنج اُس فرق کو ختم کرنا ہو گا جو حماس کی جانب سے قبول کیے جانے والے جنگ بندی کے معاہدے اور اسرائیل کے اس ضمن میں مزید مطالبوں کے درمیان حائل ہے۔قطر میں موجود سفارتی ذرائع، جو مصر اور امریکہ کے ساتھ ثالثی کی کوششوں کا حصہ ہیں، نے مجھے بتایا کہ ’(حماس کی جانب سے قبول کیا جانے والا جنگ بندی کا معاہدہ) کم و بیش ویسا ہی ہے جیسا اسرائیل نے تجویز کیا ہے۔ بس الفاظ کا معمولی رد و بدل اور چند چھوٹی موٹی تفصیلات۔‘
تاہم قطری سفارتی ذرائع کے دعوؤں کے برعکس موجودہ صورتحال میں اسرائیل یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ (جنگ بندی معاہدے میں پائے جانے والے) اختلافات معمولی نوعیت کے نہیں ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ حماس چاہتا ہے کہ جنگ بندی مستقل بنیادوں پر ہو نہ کہ عارضی، اور اُس کے بعد غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا ہو۔اگر امریکی مذاکراتی وفد، جس کی قیادت سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنز کر رہے ہیں، اس رائے سے متفق ہو جاتا ہے کہ خلا کو پُر کیا جا سکتا ہے، تو نتن یاہو کو توقع کرنی چاہیے کہ انھیں امریکہ کی جانب سے اس سلسلے میں دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔پیر کی شام تک اسرائیل میں عمومی رائے یہی تھی کہ حماس جنگ بندی کی شرائط کو قبول نہیں کرے گا۔ نتن یاہو، اُن کے وزرا اور بیشتر غیر ملکی مبصرین اس وقت حیران رہ گئے جب حماس نے شرائط قبول کرنے کے اپنے غیرمتوقع فیصلے کا اعلان کیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesحماس کی اِس چال کو پرکھنے کے دو طریقے ہیں۔ اسے ایک ایسی تنظیم (حماس) کے مایوس کُن اقدام کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو اسرائیل کے مہینوں پر محیط مسلسل حملوں کے باعث بُری طرح مجروح ہے اور تقریباً ٹوٹ چکی ہے۔ یا یہ ایک غیر معمولی سیاسی اقدام کے طور پر جس نے نتن یاہو کو دباؤ کا شکار کر دیا ہے۔ دوسری وضاحت زیادہ قابل اعتبار ہے کیونکہ حماس کی جانب سے شرائط قبول کرنے کی پیشکش نے اسرائیل کے غزہ جنگ سے متعلق منصوبوں اور مفروضوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ اسرائیل غزہ جنگ کے اگلے مرحلے میں اپنی چالوں اور حکمت عملی کی بنیاد اس مفروضے پر قائم کر رہا تھا کہ حماس کے روپوش سربراہ یحییٰ سنوار کبھی بھی جنگ بندی کو قبول نہیں کریں گے۔اور اسرائیل نے حماس کی جانب سے جنگ بندی کی پیشکش نہ ہونے کو غزہ میں زمینی فوجی آپریشن شروع کرنے کے اپنے فیصلے کی وضاحت کے طور پر استعمال کیا تھا۔ امریکہ کا مؤقف بہت واضح ہے کہ وہ رفح میں کسی بھی زمینی اسرائیلی کارروائی کے خلاف ہے جس میں مزید فلسطینی شہریوں کی جانوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔اسرائیل نے رواں ہفتے تقریباً ایک لاکھ فلسطینیوں کو مشرقی رفح سے نقل مکانی کرنے کی تنبیہ کی تھی اور اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے اپنے امریکی ہم منصب کو بتایا تھا کہ رفح پر حملے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔اسرائیلی وزیر دفاع نے اپنی سوچ کی یہ توجیح پیش کی تھی کہ حماس عارضی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی ہر تجویز کو مسترد کر رہا ہے (چنانچہ رفح پر حملہ ناگزیر ہے)۔ تاہم چند گھنٹے بعد ہی حماس نے شرائط قبول کرنے سے متعلق اعلان کر دیا۔نتن یاہو سیاسی مجبوریوں کا بھی شکار ہیں۔ گذشتہ 16 سال کے دوران بطور بڑے اسرائیلی رہنما اُن کا طرز حکمرانی اس بات کا عکاس رہا ہے کہ وہ مشکل فیصلوں کو ٹالنے کی عادت میں مبتلا ہیں (یعنی وہ فی الفور اہم فیصلے لینے کے بجائے لیت و لعل سے کام لیتے ہیں)۔لیکن اب ملک کے اندر اور باہر انھیں ہر طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ ان کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ انھیں یہ بات مرعوب کرے گی کہ معاملے کو (فیصلہ لینے کے بجائے) گھسیٹا جائے مگر یہ وقت اہم اور بڑے فیصلے کرنے کا ہے۔
ملک کے اندر سے انھیں شدید دباؤ کا سامنا اپنی کابینہ کے دو انتہائی قوم پرست یہودی رہنماؤں کی جانب سے ہے، یعنی اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ اور ملک کی قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر۔نتن یاہو مخلوط حکومت کے سربراہ اور وزیراعظم ہیں اور ملک میں برسراقتدار اپنے سیاسی اتحاد کو اقتدار میں رکھنے کے لیے انھیں اِن دونوں قوم پرست رہنماؤں کی حمایت اور ووٹوں کی ضرورت ہے۔اور یہ دونوں وزرا چاہتے ہیں کہ اسرائیل رفح پر قبضہ کر لے اور انھوں نے نتن یاہو کو دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو وہ مخلوط حکومت کو گِرا دیں گے کیونکہ اُن کے لیے جنگ بندی حماس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلخانہ اور حامیوں نے حالیہ دنوں میں ملک بھر میں مظاہرے کیے ہیں، انھوں نے سڑکیں بلاک کیں اور مطالبہ کیا کہ اسرائیلی حکومت جلد از جلد جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرے تاکہ ان کے پیارے حماس کی قید سے رہائی پا کر جلد گھروں کو لوٹ سکیں۔یرغمالی افراد کے اہلخانہ کو اسرائیل کی موجودہ کابینہ میں موجود وزرا بینی گینٹز اور گابی آئزن کوٹ کی حمایت حاصل ہے۔ یہ دونوں اپوزیشن رہنما ہیں جنھوں نے حماس کے 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیل کی جنگی کابینہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اور جنگ بندی نہ ہونے اور یرغمالیوں کی بحفاظت واپسی نہ ہونے کی صورت میں وہ حکومت سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔امریکہ بھی چاہتا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ ہو جائے۔صدر جو بائیڈن کو اسرائیل کے لیے اپنی حمایت، اس کے باوجود کے اسرائیل نے غزہ میں بڑی تعداد میں فلسطینی شہریوں کو ہلاک کیا ہے، مہنگی پڑ رہی ہے اور امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے اس سال میں انھیں اس حمایت کی سیاسی قیمت بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے۔اگر صدر بائیڈن یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ جنگ بندی کا ایک قابل قبول ورژن موجود ہے تو وہ اسرائیلی وزیراعظم پر اسے قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ اور اگر صدر بائیڈن نتن یاہو کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو انھیں (نتن یاہو) اپنی مخلوط حکومت کی بقا اور 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد امریکی صدر کی جانب سے دی جانے والی اہم حمایت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔اسرائیل میں عمومی تاثر یہی ہے کہ نتن یاہو جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں تاکہ ان غلطیوں پر پردہ ڈالا جا سکے جن کی وجہ سے حماس 7 اکتوبر کو اسرائیل میں گھس کر تقریباً 1200 اسرائیلیوں کو ہلاک اور 240 کو یرغمال بنانے میں کامیاب ہوئی۔جنگ بندی کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ اسرائیل نے حماس پر ’مکمل فتح‘ حاصل نہیں کی، وہ مکمل فتح جس کا وعدہ وزیر اعظم نتن یاہو نے اپنی عوام سے کیا تھا۔ اور دوسرا یرغمالیوں کو رہا کروانے کا وعدہ جو جنگ بندی کے بغیر ممکن نہیں لگ رہا۔یہ جنگ اس راز سے پردہ فاش کر رہی ہے کہ کیسے اسرائیل جیسے طاقتور ممالک کے لیے حماس جیسی کمزور تنظیموں کو شکست دینا کتنا مشکل ہے۔ حماس کے لیے اپنی بقا کا مطلب فتح ہے اور بنجمن نتن یاہو جانتے ہیں کہ حماس کی بقا اُن کی شکست ہو گی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.