- مصنف, جیرمی بوون
- عہدہ, بی بی سی مشرق وسطی ایڈیٹر
- 22 منٹ قبل
یہ اسرائیل کے انتہائی شمال میں واقع قصبے ’میٹولا‘ جانے والا ایک سنسان راستہ ہے جو تین اطراف سے لبنان کی سرزمین سے گھرا ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس راستے کو لبنان کے سب سے طاقتور مسلح گروپ حزب اللہ نے تین جانب سے گھیر رکھا ہے۔میٹولا کی سرحد پر قائم چوکی پر موجود تمام سپاہی مقامی ہیں جن میں سے زیادہ تر درمیانی عمر کے ریزروسٹ یعنی آزاد فوجی ہیں اور انھیں سرحد کے دوسری طرف کی فورسز کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ایک دھند بھری رات میں اُن میں سے ایک شخص کمپاس (قطب نما) پر اپنی انگلی گھما کر سرحد اور حزب اللہ کی پوزیشنوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’مغرب میں ایک چوتھائی میل کے فاصلے پر، شمال میں نصف میل اور مشرق میں بھی تقریبا نصف میل، یعنی ہم 300 ڈگری تک حزب اللہ سے گھرے ہوئے ہیں۔‘ اور باقی 60 ڈگری کا رقبہ، اُن کے مطابق، اسرائیل کے باقی حصوں تک نیچے پہنچتا ہے جس میں کھڑی سڑک بھی شامل ہے۔
سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی غزہ جنگ میں تقریباً 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور ان میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس کے بعد ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 27,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں، اور لگاتار ہونے والی بمباری کے باعث غزہ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔اس کے بعد اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان سرحدی تنازعوں میں مسلسل شدت آتی گئی تاہم تمام فریقین جانتے ہیں کہ اگر یہ تنازع شدید جنگ میں تبدیل ہو جاتا ہے تو حالات کس قدر خراب ہو جائیں گے۔ اور یہ بات میٹولا کی سرحد پر پہرہ دینے والوں پر پوری طرح واضح ہے۔اسرائیلی ریزروسٹ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’ہاں، یہ یقینی طور پر بڑی جنگ میں بدل سکتا ہے اور حزب اللہ کے ساتھ بڑی جنگ کا مطلب حماس کے ساتھ جنگ کرنے جیسا نہیں ہے، وہ ایک حقیقی فوج ہے، بہت تربیت یافتہ، بہت زیادہ سازوسامان سے لیس اور ان کے پاس کافی تجربہ ہے، شام میں جنگ کا حقیقی تجربہ۔‘ حزب اللہ نے شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے لیے لڑتے ہوئے جنگ میں شرکت کی تھی۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا اپنے موجودہ مشرق وسطیٰ کے دورے پر میٹولا کا دورہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن واشنگٹن سے مشرق وسطی کی طویل پرواز اور مشرق وسطیٰ کے مختلف دارالحکومتوں کے درمیان سفر سے اب وہ بخوبی واقف ہوں گے۔ وہ سات اکتوبر کے بعد پانچویں بار خطے کا دورہ کر رہے ہیں۔
واشنگٹن نے اسرائیل سے جو تحمل کا مطالبہ کیا ہے اس میں اسے ناکامی ملی ہے۔ پھر بھی امریکہ نے اسرائیل کو اپنی مہم کے لیے درکار ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھی ہے اگر چہ اسے ان کے استعمال کے طریقے پر تحفظات بھی ہیں۔البتہ امریکہ کو اس بات میں زیادہ کامیابی ملی ہے کہ اس نے اسرائیل کو تباہی میں پھنسے 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہریوں کو زیادہ سے زیادہ انسانی امداد دینے پر راضی کیا ہے۔ گذشتہ اکتوبر میں اسرائیلی رہنماؤں نے کہا تھا کہ کسی بھی چیز کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ اور غزہ میں سرگرم امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ضرورت کے لحاظ سے کسی بھی چیز کو وہاں جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔طویل عرصے سے جنگی علاقوں میں شہریوں کی مدد کرنے کی کوشش کرنے والے منجھے ہوئے امدادی اہلکاروں نے مجھے بتایا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی اس سے برا کچھ نہیں دیکھا۔ پچھلے چند مہینوں کے دوران متعدد بار غزہ کے اندر جانے والے (اسرائیل اور مصر کی طرف سے صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے، جو سرحدوں کو کنٹرول کرتے ہیں) ایک شخص نے کہا کہ انھوں نے ’اس وسیع پیمانے اور شدت والا کبھی کچھ نہیں دیکھا۔‘وزیر خارجہ بلنکن کی اولین ترجیحات میں غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنانا ہے۔ صدر بائیڈن کو مشرق وسطیٰ کو پرسکون کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی وجہ صرف مسلسل اور بڑھتی ہوئی جنگ کے خوفناک خطرات نہیں بلکہ انھیں رواں سال انتخابات کا بھی سامنا ہے۔ پولز بتاتے ہیں کہ وہ ووٹ کھو رہے ہیں کیونکہ کچھ امریکی غزہ کے اندر ہونے والی انسانی تباہی کے لیے اسرائیل کی امریکی حمایت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔امریکہ، قطر، مصر اور اسرائیل پر مشتمل سفارت کاری کے نئے سلسلے نے معاہدے کے لیے وسیع پیرامیٹرز تیار کیے ہیں لیکن انھوں نے کوئی تفصیلات نہیں دی ہے۔حماس نے اپنی شرائط پوری کر دی ہیں۔ وہ 135 دن تک جاری رہنے والا تین مرحلوں پر مشتمل عمل چاہتا ہے جس کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کا مرحلہ وار تبادلہ ممکن ہو گا۔ اس کے علاوہ اس نے مطالبات کی ایک طویل فہرست سامنے رکھی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت کے آخر تک اسرائیل غزہ سے اپنی افواج کو پوری طرح سے نکال لے اور جنگ ختم ہو جائے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.