مشرق وسطیٰ کو دیمک کی طرح چاٹنے والی منشیات جس کے تانے بانے بشار الاسد اور شام کی فوج سے ملتے ہیں
- مصنف, امیر نادر
- عہدہ, بی بی سی نیوز عربی انویسٹیگیشن
بی بی سی عربی اور انویسٹیگیٹو جرنلزم نیٹ ورک (او سی سی آر پی) کی شراکت سے کی گئی تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’کیپٹاگون‘ نامی نشے کی تجارت کی اربوں ڈالرز کی صنعت کے تانے بانے شام کی فوج اور صدر بشار الاسد کے خاندان سے ملتے ہیں۔
’کیپٹاگون‘ دراصل ایک انتہائی طاقتور نشہ ہے آورجس نے گذشتہ کئی سالوں میں مشرقِ وسطیٰ میں متعدد افراد کی زندگیوں کو تباہ کیا ہے۔
گذشتہ ایک سال کے دوران بی بی سی نے اُردن اور لبنان کی افواج کے ساتھ مل کر فلمنگ کی ہے اور کیپٹاگون کی شام سے سمگلنگ روکنے کے حوالے سے ان کے کام پر نظر رکھی ہے۔
اب یہ نشہ یورپ، افریقہ اور ایشیا تک بھی پھیل چکا ہے۔
مارچ میں برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے ایک فہرست جاری کی گئی جس کے تحت ایسے افراد پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں جو مبینہ طور پر کیپٹاگون کی تجارت میں ملوث تھے۔ اس فہرست میں شامل شام سے تعلق رکھنے والے دو افراد شام کے صدر بشار الاسد کے کزن تھے۔
تاہم بی بی سی کی تحقیقات کے باعث شام کے منشیات کے نیٹ ورک کے بارے میں ثبوت سامنے آئے ہیں اور یہ معلوم ہوا ہے کہ اس فہرست میں جن افراد کے نام درج ہیں ان سمیت دیگر سینیئر شامی اہلکار بھی سمگلنگ میں شامل ہیں۔
شام کی حکومت نے بی بی سی کے سوالات کا تاحال جواب نہیں دیا ہے تاہم ماضی میں حکومت کی جانب سے منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
فلحوط (بائیں)، ابو حمزہ (دائیں)
جولائی 2022 میں جنوبی شام میں سویدا نامی شہر جو حکومت نواز ملیشیا کے رہنما راجی فلحوط کا ہیڈکوارٹر ہے پر ایک مخالف گروہ نے چڑھائی کر دی تھی۔
اس دوران انھیں بظاہر کیپٹاگون سے مشابہت رکھنے والی گولیوں کی بوریاں ملی تھیں اور ایک ایسی مشین بھی جس کے ذریعے اس نشے کو گولیوں کی شکل دینے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ انھیں ملیشیا رہنما کا شامی فوج کا شناختی کارڈ بھی ملا اور ایک موبائل فون بھی۔
اس فون تک بی بی سی نے خصوصی رسائی حاصل کی اور فلحوط اور ان کے لبنانی ذرائع کے درمیان ہونے والی گفتگو دیکھی جسے وہ ’ابو حمزہ‘ کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔ اس گفتگو میں یہ دونوں افراد گولیاں بنانے والی مشین خریدنے کی بات کر رہے تھے۔
یہ گفتگو ان کے موبائل کے مطابق اگست 2021 میں ہوئی تھی جس میں فلحوط اور ابوحمزہ اس مشینری کو لبنان سے شام منتقل کرنے کے بارے میں بات کر رہے تھے۔
اس فون نمبر کو استعمال کرتے ہوئے بی بی سی نے ابو حمزہ سے رابطہ کیا جن کا اصل نام حسین ریاض الفیطرونی ہے۔
ہمیں مقامی صحافیوں نے بتایا ہے کہ ان کا تعلق حزب اللہ سے رہا ہے۔ یہ سیاسی جماعت اور عسکریت پسند گروہ شامی حکومت کا اتحادی سمجھا جاتا ہے۔
بی بی سی کی ٹیم فوجی بیرک میں
حزب اللہ کے جنگجوؤں نے شامی حکومت کی خانہ جنگی کے دوران مخالف باغیوں پر سبقت حاصل کرنے میں بہت مدد کی تھی اور کہا جاتا ہے کہ ان کی شام میں موجودگی پوشیدہ بات نہیں ہے۔
ان پر منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے کے حوالے سے الزامات لگائے جاتے ہیں لیکن وہ اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔
ایک شامی صحافی نے ہم سے بیرونِ ملک سے بات کرتے ہوئے سویدا کے علاقے کے بارے میں بتایا کہ ’حزب اللہ ملوث ہے، لیکن وہ بہت محتاط ہیں کہ ان کے رہنما یا کارکنوں کا منشیات کی آمدورفت اور سمگلنگ میں کلیدی کردار نہ ہو۔‘
حزب اللہ کی جانب سے بی بی سی کے حسین ریاض کے بارے میں سوالات کا جواب نہیں دیا گیا۔ ان کی جانب سے بھی ماضی میں کیپٹاگون کی سمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی جاتی رہی ہے۔ بی بی سی فلحوط اور فیطرونی تک رسائی حاصل کرنے اور ان سے جواب لینے میں ناکام رہا۔
یہ وہ واحد موقع نہیں تھا جب حزب اللہ کا نام ہماری تحقیقات میں سامنے آیا ہے۔ کئی ماہ کی سکیورٹی کی تیاری کے بعد بی بی سی کو حکومت کے زیرِ کنٹرول حلب میں شامی فوج تک رسائی حاصل ہوئی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب شام کی معیشت کیپٹاگون کی گولی سے حاصل ہونے والی کمائی پر چل رہی ہے
ایک فوجی جس نے ہم سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی نے بتایا کہ ان کے ساتھی فوجیوں کی ماہانہ تنخواہ ڈیڑھ لاکھ شامی پاؤنڈ یعنی 47 ڈالر ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان میں سے اکثر اس لیے مقامی طور پر منشیات کے کاروبار کا حصہ بن گئے ہیں تاکہ اپنی ماہانہ آمدن بہتر کر سکیں اور اب یہ ان کے لیے ایک روٹین بن گئی ہے۔
ہم نے ان سے اپنی یونٹ کے مقامی کپیٹاگون سمگلنگ میں ملوث ہونے کے بارے میں وضاحت مانگی تو انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں فیکٹری جانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ ہمیں ملنے کے لیے کوئی جگہ بتاتے تھے اور ہم حزب اللہ سے منشیات خریدتے تھے۔ ہم یہ مال لے کر فورتھ ڈویژن سے سکیورٹی کی درخواست کرتے اور یوں اس کی آمدورفت ہوتی۔‘
فورتھ ڈویژن ایک ایلیٹ شامی فوجی یونٹ ہے جس کا کام حکومت کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنا ہے۔ سنہ 2018 سے اس کی سربراہی ماہر الاسد کر رہے ہیں جو صدر بشار الاسد کے چھوٹے بھائی ہیں۔
ماہر الاسد پر مغربی ممالک کی جانب سے پابندیاں عائد کی گئی ہیں کیونکہ انھوں نے شامی خانہ جنگی کے دوران مظاہرین پر بدترین کریک ڈاؤن کراویا تھا اور ان پر کیمیکل ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔
انھوں نے فورتھ ڈویژن کو ایک اہم اقتصادی کھلاڑی بننانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم نے ایک سابق افسر سے بات کی ہے جو شامی فوج چھوڑ گئے تھے۔
انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’سخت مالی مشکلات جن سے اکثر فوجی افسر اور سپاہی اس جنگ کے دوران گزرے ہیں اس کے بعد انھوں نے سمگلنگ کا کام شروع کر دیا ہے۔‘
’فورتھ ڈویژن کے افسران کی گاڑیوں میں شدت پسندوں، ہتھیاروں اور منشیات کی آمدورفت شروع کر دی گئی کیونکہ یہ وہ واحد فورس تھی جو شام میں تمام چیک پوائنٹس سے گزر سکتی تھی۔‘
شام کی معیشت جنگ اور پابندیوں کے باعث شدید بحران کا شکار اور اب تقریباً مکمل طور پر ڈیفالٹ کے قریب ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب یہ معیشت کیپٹاگون کی گولی سے حاصل ہونے والی کمائی پر چل رہی ہے۔
شام کے لیے امریکہ کے سابق خصوصی مندوب جوئل رےبرن کا کہنا ہے کہ ’اس سے آنے والی رقم شامی حکومت کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اگر کیپٹاگون سے آنے والی رقم کو روک دیا جائے یا کم کر دیا جائے تو میرے نہیں خیال کہ بشار الاسد کی حکومت چل سکے گی۔‘
بی بی سی کو اسد خاندان کے منشیات کے کاروبار میں ملوث ہونے کے مزید ثبوت بھی ملے ہیں۔ سنہ 2021 میں لبنان میں ایک لبنانی نژاد شامی کاروباری شخص حسن داکو کے حوالے سے ایک مقدمہ چلا۔ انھیں ’کیپٹاگون کا بادشاہ‘ کہا جاتا ہے۔ انھیں ملائیشیا میں پکڑی جانے والی منشیات کی کھیپ کے بعد کیپٹاگون سمگلنگ میں ملوث پایا گیا۔
اس کھیپ میں 10 کروڑ گولیاں موجود تھیں اور یہ سعودی عرب جانا تھیں جہاں گلیوں میں اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن کا تخمینہ ایک سے دو ارب ڈالر بتایا گیا ہے۔ یہ منشیات پکڑنے کی تاریخ کے سب سے بڑی کارروائی تھی۔
اس مقدمے کو بند کمروں میں سنا گیا تاہم ہماری ٹیم کی اس مقدمے کے جج سے بات ہوئی جنھوں نے ہمیں بتایا کہ ان کے پاس زیادہ تر شواہد داکو کے فون سے ہونے والی بات چیت کے ذریعے آئے۔
مقدمے کے دوران داکو نے بتایا کہ وہ شام کی فورتھ ڈویژن کے ساتھ مل کر کیپٹاگون سمگل کرنے والوں کے خلاف کام کر رہا تھا اور اس کے ثبوت کے طور پر انھوں نے اپنا فورتھ ڈویژن کا شناختی کارڈ دکھایا۔
داکو نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اقرارِ جرم نہیں کیا اور ان کے خلاف عدالت میں کسی قسم کے شواہد پیش نہیں کیے گئے جن سے یہ ثابت ہو کہ کیپٹاگون کی کھیپ ان کی ملکیت ہے۔
بعد میں عدالت نے داکو کو سزا سنائی اس دوران جج نے بی بی سی کو بتایا شامی افسران کے کیپٹاگون سمگلنگ میں ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
تاہم ہماری تحقیقات کے دوران اس 600 صفحات پر مبنی عدالتی فیصلے میں کچھ ایسا ملا جو ایک مختلف کہانی بتاتا ہے۔ یہ داکو کی جانب سے ’دی باس‘ کو بھیجے گئے پیغامات کے سکرین شاٹس تھے۔ یہ نمبر ایسا تھا جسے آپ عام زبان میں ’گولڈن نمبر‘ کہہ سکتے ہیں۔
بی بی سی نے متعدد اعلیٰ سطح کے ذرائع سے شام میں بات کی جنھوں نے تصدیق کی یہ نمبر میجر جنرل غسان بلال کا ہے۔ ہم نے اس نمبر پر بار بار کال کی لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ جنرل بلال مہر الاسد کے نائب سمجھے جاتے ہیں اور فورتھ ڈویژن کے سکیورٹی بیورو کے کرتا دھرتا ہیں۔
مہر الاسد (بائیں)، جنرل بلال (دائیں)
ان واٹس ایپ پیغامات میں داکو ’دی باس‘ سے ’مال‘ کی آمدورفت کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں جو ہمارے خیال میں کیپٹاگون ہی ہے۔ یہ گفتگو صبورا قصبہ تک ’مال‘ پہنچانے کے حوالے سے ہے جہاں فورتھ ڈویژن کا ایک بڑا اڈہ موجود ہے۔ اس میں نئی سکیورٹی کلیئرنس کے اجرا کی بات بھی کی گئی ہے۔
اگر ’دی باس‘ جنرل بلال ہی ہیں تو یہ گفتگو بتاتی ہے کہ شام کے سب سے اعلیٰ ترین فوجی افسران بھی کیپٹاگون کی غیرقانونی خریدوفروخت میں ملوث ہیں جس کی مالیت اربوں ڈالر میں ہے۔ جنرل بلال نے ہمارے رابطہ کرنے پر کوئی جواب نہیں دیا۔
مئی میں شام کو عرب لیگ میں دوبارہ خوش آمدید کہا گیا تھا اور صدر اسد نے ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے میں اس گروپ کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ انھیں آئندہ نومبر میں متحدہ عرب امارات میں ہونے والے کوپ 28 میں بھی مدعو کیا گیا ہے۔
تاہم سوال اب بھی موجود ہے کہ بین الاقوامی برادری شام کو کیپٹاگون کی لت سے پاک کرنے کے لیے بشارالاسد کی حکومت پر کس حد تک دباؤ بڑھائے گی۔
Comments are closed.