مشرق وسطیٰ میں آئل ڈرلنگ کے دوران زہریلی گیس کا اخراج جو لاکھوں زندگیاں خطرے میں ڈال رہا ہے
- مصنف, اوون پنیل اور سارہ ابراہیم
- عہدہ, بی بی سی عربی
بی بی سی کی تحقیقات میں یہ سامنے آیا ہے کہ گیس فلیئرنگ کی وجہ سے فضا میں ہونے والی زہریلی آلودگی لاکھوں لوگوں کی جانوں کو اس سے کہیں زیادہ خطرے میں ڈال رہی ہے جس کا پہلے خدشہ تھا۔
فلیئرنگ سے مراد زیرِ زمین تیل نکالنے کے دوران نکلنے والی گیس کو جلانا ہے۔ فلیئرنگ خلیج کے مختلف ممالک میں ہو رہی ہے اور اس فہرست میں کوپ 28 کا میزبان ملک متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے۔
نئی تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ اس عمل کی وجہ سے کئی سو کلومیٹر دور تک آلودگی پھیل رہی ہے اور پورے خطے کی فضا مزید خراب ہو رہی ہے۔
جمعرات سے متحدہ عرب امارات میں اقوام متحدہ کی کوپ 28 ماحولیاتی تبدیلی کے عالمی اجلاس کا ابتدا ہوا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے 20 سال قبل معمول کی گیس فلیئرنگ پر پابندی لگا دی تھی لیکن سیٹلائٹ سے حاصل کی گئی تصویروں سے یہ پتا چلا ہے کہ یہ عمل اب بھی ملک میں جاری ہے اور اس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات کے اپنے باشندے اور اس کے پڑوسی ممالک کے شہریوں کی صحت کو ممکنہ خطرات ہیں۔
بی بی سی عربی کی طرف سے کیے گئے تجزیے سے پتاچلا ہے کہ پورے خطے میں کئی سینکڑوں کلومیٹر تک یہ خطرناک گیسیں پھیل رہی ہیں۔
تحقیقات میں عراق، ایران اور کویت میں موجود تیل کے کنوؤں کو بھی حصہ بنایا گیا۔ تمام ممالک نے یا تو اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا یا جواب ہی نہیں دیا۔
شیل اور بی پی (سابق بریٹیش پیٹرولیم) آئل کمپنیاں ان مقامات کی مکمل یا جزوی طور پر ذمہ دار ہیں جہاں فلیئرنگ ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ فلیئرنگ کے عمل کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پیر کو بی بی سی ایسے دستاویز منظرعام پر لایا تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ متحدہ عرب امارات اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی کی کانفرنس کی میزبانی کا فائدہ اٹھا کر نئے تیل اور گیس کے معاہدے کرنا چاہ رہا ہے۔
سیٹلائٹ سے لی گئی تصویروں میں ستمبر اور اکتوبر 2022 کے درمیان متحدہ عرب امارت کے سمند کے موجود تیل کے کنویں میں فلیئرنگ ہوتے ہوئے نظر آئی
انسانی حقوق اور ماحولیات کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ڈیوڈ آر بوائیڈ نے کہا کہ بی بی سی کی تحقیقات کے نتائج ’بہت پریشان کن ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں تیل کی بڑی کمپنیاں اور ریاستیں فاسل فیول سے ہونے والی فضائی آلودگی سے نمٹنے میں ناکام ہو کر لاکھوں لوگوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر انسانی صحت کے لیے خطرات کے باوجود تیل پیدا کرنے والی ریاستیں بغیر کسی احتساب کے اپنا کام جاری رکھے ہوئی ہیں۔
تیل کی پیداوار کے دوران نکلنے والی گیس کو بجلی کی پیداوار یا گھروں کو گرم کرنے کے لیے استعمال کر کے فلیئرنگ سے بچا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا میں یہ عمل جاری ہے۔
فلیئرنگ کی وجہ سے فضا میں پی ایم 2.5، اوزون، نائٹروجن گیس، بینزو اے پائرین پھیلتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) سمیت بین الاقوامی ماہرین کے مطابق لگاتار ایسی ہوا میں سانس لینے سے فالج، کینسر، دمہ اور امراض قلب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
عالمی سطح پر فلیئرنگ فضا میں پھیلنے والی میتھین اور کاربن ڈائی آکسائڈ کی ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ گرین ہاؤس گیسز میں سے ہیں جو ماحول کے لیے خطرناک ہوتی ہیں۔
دو دہائیاں قبل متحدہ عرب امارات کی قومی تیل کمپنی ایڈنوک نے ’معمول کی فلیئرنگ‘ کو ختم کرنے کا عہد کیا تھا۔ اس وقت ایڈنوک کے سربراہ سلطان الجابر ہیں جو اس سال کوپ 28 ماحولیاتی تبدیلی کے عالمی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔
بی بی سی نے سیٹلائٹ تصویروں کا جائزہ لیا ہے جس سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ ساحل سے دور سمندر میں ہر روز کی بنیاد پر فلیئرنگ ہو رہی ہے۔ برطانیہ میں بڑے پیمانے پر تیل متحدہ عرب امارات سے آتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے بغیر شعلوں کی مدد سے فضائی آلودگی کو قابل اعتماد طریقے سے ناپنا ایک مشکل عمل ہے۔
جب بھی گیس کو آگ لگائی جاتی ہے ایک خاص مقدار میں آلودگی جاری ہوتی ہے۔ بی بی سی عربی کے ساتھ کام کرتے ہوئے ماحولیاتی سائنسدانوں نے عالمی بینک کی طرف سے بتائی گئی ان معلومات کا استعمال کر کے مجموعی آلودگی کو ناپا۔
اس کے بعد موجودہ موسمی حالات کا استعمال کرتے ہوئے یہ اندازہ لگایا کہ گیسز خطے میں کیسے پھیلتی ہیں۔
اس تجزیے سے معلوم ہوا کہ متحدہ عرب امارات کے سمندر میں موجود تیل کے کنوؤں کی وجہ سے ان مقامات سے کئی سو کلومیٹر دور دبئی اور ابوظہبی میں فضائی آلودگی ہو رہی ہے۔
سائنسی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ فضا میں پی ایم 2.5 کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے بچوں میں دمہ اور سانس لیتے ہوئے گھرگھراہٹ کی آواز آنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
سانس کی بیماری خطے میں موت کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہے، متحدہ عرب امارات میں دمہ کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
عراق سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی
بی بی سی کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ کویت میں آنے والی آلودگی کا کچھ حصہ 140 کلومیٹر دور عراق سے آتا ہے۔
عالمی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں روس کے بعد عراق میں سب سے زیادہ فلیئرنگ ہوتی ہے۔ عراق میں تقریباً 18 بلین کیوبک میٹر کی گیس ہر سال جلائی جاتی ہے۔
اس سے یورپ میں سالانہ 2 کروڑ گھروں کو بجلی دی جا سکتی ہے۔ عراق کی رميلہ آئل فیلڈ وہ واحد تیل کا کنوا ہے جہاں عالمی سطح پر سب سے زیادہ فلیرنگ ہوتی ہے۔
اس کے انتظامات بی پی اور پیٹروچائنہ سمبھالتے ہیں۔ یہ جنوبی عراق میں کویت کی سرحد سے 30 کلومیٹر دور واقع ہے۔
بی بی سی کی تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ شمالی کویت کی فضا میں کینسر پیدا کرنے والا کیمیائی جز بینزو اے پائرین کی بڑی مقدار موجود ہے۔ یہ مقدار یورپی سیفٹی سٹینڈرڈ میں بتائی گئی مقدار سے دس گنا زیادہ ہے۔
فلیئرنگ والے تیل کے کنوؤں کے قریب واقع عراقی گاؤں کی فضا میں بھی پی ایم 2.5 کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ ہر گھنٹے میں اس کی بلند ترین مقدار 100 مائکرو گرامز پر کیوبک میٹر ہو جاتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی جانب سے بتائی گئی محفوظ حد 5 سے 10 مائروگرامز پر کیوبک میٹر ہے۔ 100 کلومیٹر دور کویت شہر میں بھی یہ حد عبور ہو رہی ہے۔
خلیجی ممالک میں آلودہ فضا کی وجہ زیادہ تر معمول کے ریت کے طوفان کو ٹہرایا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر براق احمد اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ٹی ایچ چن سکول آف پبلک ہیلتھ کے ریسرچ فیلو ہیں۔
انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ دو سال تک کویت کی فضا کا تجزیہ کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس میں آلودگی کہاں سے آتی ہے۔
وہ کہتے ہیں ’ہمیں پتا چلا کہ صرف 40 فیصد گرد و غبار صحرا سے آتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ 43 فیصد آلودگی تیل کے کنوؤں اور پاور پلانٹس سے آتی ہے، وہ کویت کے اندر بھی موجود ہیں اور باہر بھی۔
ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ باقی کی آلودگی ٹریفک سے آتی ہے۔ ڈاکٹر براق نے بی بی سی کو بتایا ’یہ انسان کی پیدا کی ہوئی آلودگی ہے جس پر ہم قابو پا سکتے ہیں اسے کم کر سکتے ہیں، درحقیقت ہم اسے ختم کر سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر براق نے کہا کہ پی ایم 2.5 والی فضا میں سانس لینے والے کے خون میں شامل ہو جاتا ہے اور جلد ہی اعضا تک پہنچ جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ ’آپ کے گردوں، دماغ، دل ہر جگہ پہنچ سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے آپ کو دمے کا دورہ ہو سکتا ہے۔ اور کسی وقت یہ جان لیوا بھی بن سکتا ہے۔‘
39 سال کے عبدلرحمان الامیری اپنے گھر والوں کے ساتھ کویت شہر میں رہتے ہیں۔ ان کے دو بیٹوں کو دمہ ہے۔ ان کا چھ سال کا بیٹا جاسم متعدد بار اس مسئلے کی وجہ سے ہسپتال میں ایڈمٹ ہو چکا ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’پہلی دفعہ (جب جاسم) جو دمے کا دورہ پڑا تو سانس نہیں لے سک رہا تھا اس کا رنگ نیلا ہو گیا تھا۔‘
جاسم متعدد بار دمے کے دورے کے وجہ سے ہسپتال میں داخل ہو چکے ہیں
نارتھ ڈکوٹا سٹیٹ یونیورسٹی میں شعبہ امراض کے اسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اکشے بھگواتھولا اس تحقیق میں شامل نہیں تھے انھوں نے ہماری تحقیق کے نتائج کا جائزہ لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کے تنائج، فلیئرنگ سے خلیجی ممالک میں فضا کے میعار پر ممکنہ طور پر کافی اثرات کو نمایاں کرتے ہیں۔ تاہم یہ جاننے کے لیے کہ اس سے لوگوں کی صحت پر کتنا اثر پڑ رہا ہے اضافی پیمائش اور تجزیے کی ضرورت ہے۔
عراقی اور کویتی تیل کے کنوؤں کی ملکیت کافی پیچیدہ ہیں، اس کی وجہ سے اینی، لوک آئل اور بی پی جیسی کمپنیاں اخراج ہونے والی گیسوں کے اعداد و شمار ظاہر نہیں کرتیں۔
بی پی خطے کی آئل انڈسٹری کا بڑا حصہ ہے۔ وہ رمیلہ آیل فیلڈ اور کویت آئل کمپنی کا مرکزی کنٹریکٹر ہے۔ کویت آئل کمپنی ملک میں 82 فیصد فلیئرنگ کا ذمہ دار ہے۔ بریٹش پیٹرولیم کے مطابق کویت میں انھوں نے گذشتہ سال 53 ملین پاونڈ کمائے۔
بی بی سی کو جواب دیتے ہوئے بی پی نے کہا ’جیسے کہ ہم نے پہلے کہا، بی پی نے کبھی رمیلہ آئل فیلڈ کو نہیں چلایا نہ ابھی چلا رہا ہے۔‘ اس کے باوجود وہ اخراج کو کم کرنے میں وہاں کے مرکزی کنٹریکٹر کی مدد کر رہے ہیں۔
رمیلہ آیل فیلڈ کو رمیلہ آپریٹنگ آرگنائزیشن چلاتی ہے جو مختلف تنظیموں کا کنسورشیم ہے۔ اس میں بصرہ اینرجی کمپنی بھی شامل ہے جو بی پی اور پیٹروچائنہ کی ایک شراکتی کمپنی ہے۔
عالمی بینک کے مطابق گیس کو جلانے کے بجائے اس کو توانائی کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس ٹیکنالوکی کو لگانے کی ابتدائی لاگت بہت زیادہ ہے۔ عالمی بینک نے اندازہ لگایا ہے کہ عالمی سطح پر اس کے لیے 100 ارب ڈالر چاہیے ہوں گے۔ لیکن اس گیس کو بیچنے سے ہر سال 16 بلین ڈالر کی کمائی ہو سکتی ہے۔
رمیلہ، قرنہ اور زبیر عراق کے تین سب سے بڑے کنویں ہیں۔
ان تینوں مقامات سے نکلنے والی گیس کو استعمال کرنے کے لیے 2013 میں عراقی حکومت نے شیل کمپنی کے ساتھ مل کر بصرہ گیس کمپنی کی شروعات کی۔ تاہم اس کے بعد بھی عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق دو تیل کے کنوؤں میں فلیئرنگ پہلے سے بڑھ گئی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شیل کمپنی کا کہنا تھا کہ بصرہ گیس کمپنی کا واحد مقصد اخراج ہونے والی گیس کو جلانے کے بجائے کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ 64 فیصد گیس کو نہیں جلایا جاتا لیکن اس میں اخراج ہونے والی ساری گیس کو جلانے سے بچانے کی صلاحیت نہیں ہے۔
لوک آئل نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ عراقی قانون کے مطابق تیل کے کنویں چلاتے ہیں اور اینی نے کہا کہ وہ گیس فلیئرنگ کو کم کرنے کے لیے تعاون کر رہے ہیں۔
پیٹروچائنہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بی پی کے ساتھ مل کر رمیلہ میں اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں اور بی بی سی کی طرف سے اٹھائے گئے مسائل پر انتہائی تشویش میں ہیں۔
Comments are closed.