- مصنف, لیبو ڈایسکو
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 2 گھنٹے قبل
’جون‘ کی پرورش جنوبی کوریا کے ایک مسیحی گھرانے میں ہوئی لیکن ملک کے باقی لوگوں کی طرح اب ان کے مذہبی عقائد بھی اپنے بچپن کے مذہبی عقائد سے مختلف ہو چکے ہیں۔وہ اب مذاہب کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔انھوں نے بی بی سی کو جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول سے فون پر بتایا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب کس نے تخلیق کیا ہے۔ ہو سکتا ہے خدا ہو یا خدا جیسی کوئی اور نظر نہ آنے والی طاقت۔‘جون کے والدین ابھی بھی کٹر مسیحی ہیں اور جون کا کہنا ہے کہ انھیں یہ جان کر ’گہرا صدمہ‘ پہنچے گا میرا اب کسی مذہب سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ اپنے والدین کو افسردہ نہیں کرنا چاہتے اس لیے انھوں نے اس رپورٹ کے لیے نام تبدیل کرنے کی درخواست کی ہے۔
امریکہ کے معروف تِھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کی شائع ہوئی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ مذہب چھوڑنے اور مذہب بدلنے والے لوگوں کی تعداد مشرقی ایشیا سے ہے۔اس تحقیق میں 10 ہزار سے زائد لوگوں سے ان کے عقائد کے بارے میں پوچھا گیا اور کئی لوگوں نے بتایا کہ ان کا حالیہ مذہب اس سے مختلف ہے جس میں ان کا بچپن گزرا۔تحقیق میں شامل ممالک میں ہانگ کانگ اور جنوبی کوریا سرِ فہرست ہیں، جس میں دونوں ممالک کے 53 فیصد لوگوں نے کہا کہ انھوں نے اپنی مذہبی پہچان بدل لی ہے۔اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے مذہب سے لا تعلقی اختیار کر لی ہے۔ تائیوان کے 42 فیصد جبکہ جاپان کہ 32 فیصد لوگوں نے کہا کہ انھوں نے اپنے مذہبی عقائد بدل لیے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاس تحقیق کا سنہ 2017 کے ایک یورپ میں کیے گئے سروے سے موازنہ کریں تو دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں ملا تھا جہاں مذہب تبدیل کرنے والوں کی تعداد 40 فیصد سے زیادہ ہو گی، یا امریکہ میں دیکھیں جہاں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پتہ چلا کہ 28 فیصد بالغ افراد اب اس مذہب سے جڑے نہیں ہیں جس میں ان کی پرورش کی گئی تھی۔جون کی زندگی میں مذہب کو لے کر تبدیلی تب آئی جب انھوں نے اپنا گھر چھوڑا اور ان کا نئے نظریوں سے سامنا ہوا۔ جب وہ بڑے ہو رہے تھے تو زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی، سب گھروالے ’روز صبح لگ بھگ چھ بجے اٹھتے اور بائبل پڑھتے اور اس کی آیات شیئر کرتے۔‘انھوں نے بتایا کہ ہر صبح ’عبادت کے لیے ایک چھوٹا سا مجمع ہوتا تھا‘۔انھوں نے 19 سال کی عمر میں گھر چھوڑا اور سیئول کے بڑے چرچز میں سے ایک میگا چرچ جانا شروع کیا جس میں ایک ہزار سے زائد ممبران ہیں۔ ادھر بائبل کے لفظی ترجمے پر عمل کیا جاتا ہے، مثلاً یہاں نظریہ ارتقا یعنی زندگی کے آغاز کے بارے میں معروف ماہرِ حیاتیات چارلس ڈاروِن کے خیال کو درست نہیں سمجھا جاتا۔ یہ عقیدہ سائنس کے برعکس تھا جو جون نے پڑھا ہے۔ ان کا دنیا کو سمجھنے کا نظریہ اور بھی کئی طریقوں سے بدلا۔انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں مسیحی مذہب میں چیزوں کو بہت بلیک اور وائٹ، درست اور غلط کے نظریے سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن جب میں نے معاشرے پر غور کیا اور دیگر کلچراور پسِ منظر رکھنے والے لوگوں سے ملا تو مجھے سمجھ میں آیا کہ دنیا درمیانی نظریات پر مشتمل ہے۔‘ جون کا کہنا ہے کہ تقریباً ان کے آدھے دوست اب اس مذہب کے پیروکار نہیں ہیں جس میں ان کی پرورش کی گئی تھی، انھوں نے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر کی پرورش مسیحی مذہب کے مطابق کی گئی تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesلیکن ان کے ارد گرد صرف مسیحی ہی نہیں بلکہ 20 فیصد ایسے لوگ ہیں جنھوں نے بُدھ مت کے مذہب کو چھوڑ دیا ہے۔ ہانگ کانگ اور جاپان میں ایسے لوگوں کی تعداد 17 فیصد ہے۔خطے میں ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے نیا مذہب اپنا لیا ہے۔ جیسا کہ جنوبی کوریا میں مسیحی مذہب کو ماننے والوں میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے اور بدھ مت کے پیروکار میں پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ ہانگ کانگ میں مسیحی مذہب کے ماننے والوں میں نو فیصد اور بدھ مت میں چار فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تاہم اپنی مذہی پہچان بدلنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جنھوں نے مذہب سے مکمل لا تعلقی اختیار کر لی ہے اور یہ لوگ سب سے زیادہ مشرقی ایشیا میں پائے جاتے ہیں۔ ہانگ کانگ میں 37 فیصد اور جنوبی کوریا میں 35 فیصد جبکہ ناروے میں 30 فیصد اور امریکہ میں 20 فیصد ایسے افراد موجود ہیں۔ویسے بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ سیکولر لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ لوگ ابھی بھی روحانی رسومات اور اعمال میں حصہ لیتے ہیں۔ سروے میں جتنے بھی ممالک کے ایسے افراد شامل ہوئے تھے جو اب کسی مذہب سے منسلک نہیں، ان میں سے آدھے سے زیادہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے پچھلے 12 ماہ میں اپنے آباؤ اجداد کے اعزاز میں رسومات میں حصہ لیا تھا۔ اور ان میں سے زیادہ تر کا کہنا تھا کہ انھیں خدا یا نظر نہ آنے والی طاقت پر یقین ہے۔اس میں سے کوئی بھی بات ماہرِ مذاہب ڈاکٹر سی وونگ کُو کے لیے حیران کن نہیں تھی۔ سیئول سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ مذہب کے مختلف حصّوں کو اپنانا دراصل مذاہب کی تاریخ سے مربوط ہے۔ تاریخ کو دیکھا جائے تو مشرقی ایشیا میں مذہب کو لے کر ایک مخصوص پہچان پر زور بہت کم تھا۔ اگر آپ تاؤسٹ تھے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ بدھ مت یا کنفیوشیت کی پیروکاری نہیں کر سکتے۔ مغرب کے مقابلے یہاں مذاہب کے متعلق اتنی سختی نہیں برتی جاتی تھی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایشیائی ممالک میں کیتھولک ازم کے پیروکار میں کمی
ڈاکٹر سی وونگ کے مطابق یہ انیسویں صدی کی بات ہے کہ جب مغرب سے رابطے بڑھے اور مذہب کا حالیہ تصور مشرقی ایشیا میں آیا۔ مذاہب کو لے کر مختلف پہچان ہونا اور رسومات نبھانا ہمیشہ خطے کی روایت رہی ہے۔ انھوں نے یہ بات اپنے گھر میں بھی دیکھی ہے۔ ڈاکٹر سی وونگ کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ نے کئی مرتبہ اپنا مذہب بدلا ہے۔گذشتہ اختتام ہفتہ پر انھوں نے خود کو ہمارے علاقے کے کیتھولک چرچ میں رجسٹر کروایا تھا۔ اور مجھے یقین تھا کہ وہ اتوار کو وہاں ضرور جائیں گی۔ لیکن پھر ان کی والدہ نے انھیں بتایا کہ وہ دراصل ایک مقامی ایونجیلیکل چرچ میں ’روحانی علاج کے لیے دعا کی تقریب‘ میں جا رہی ہیں۔ انھوں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ ’کیتھولک چرچ کا کیا بنا ماں؟‘ ان کی والدہ نے کہا کہ اس وقت انھیں ’سب سے زیادہ روحانی سکون کی ضرورت ہے۔‘ان کی والدہ ’کیتھولک چرچ اس لیے جانا چاہتی تھیں کیونکہ وہ ماضی میں کیتھولک ہوا کرتی تھیں۔ لیکن بات جب کسی بھی طرح کی جسمانی مداخلت کی آتی ہے تو وہ کسی اور روایت کی طرف چلی جاتی ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.