مس یونیورس مقابلے میں حصہ لینے والی 81 سالہ دادی: ’لوگ میری طرح جینا چاہتے ہیں‘،تصویر کا ذریعہFranchely Figueroa

  • مصنف, وونگ بی لی اور فلورا ڈروری
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

کبھی آپ نے سوچا کہ 80 سال کی عمر میں آپ کے مشاغل کیا ہوں گے۔کچھ لوگ اس عمر میں باغبانی میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں تو کچھ بزرگی میں بھی نئی زبان سیکھنے کا شوق پورا کرتے ہیں۔ کچھ اپنے بچوں کی اولادوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تو کچھ کو دنیا کی سیر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ان میں ایک آدھ کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اپنے ماڈلنگ کریئر کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کے لیے بین الاقوامی مقابلہ حسن میں حصہ لے۔جنوبی کوریا کی ایک خاتون چوئے سون ہُوا کو بھی یہی کرنا تھا اور وہ اس خواب کو پورا کرنے میں 81 سال کی عمر میں کامیاب بھی ہوئیں۔

رواں ہفتے 81 سالہ چوئے سون نے جنوبی کوریا سے مس یونیورس کے مقابلے کے لیے اپنے سے تین گنا کم عمر خواتین کے ساتھ جب سٹیج پر اتریں تو انھیں یقین تھا کہ وہ اس سال کے آخر میں میکسیکو میں ہونے والے فائنل میں جگہ بنا لیں گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انھیں اس قدر یقین کیوں تھا؟اسی سوال کے جواب میں چوئے سون نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اپنے بچوں کو پالنے اور بڑا کرنے کے بعد جب ایک مشکل وقت آپ گزار دیتے ہیں اور پیچھے صرف آپ یا آپ کا ساتھی باقی رہتا ہے تو پھر اس وقت ضروری ہوتا ہے کہ آپ وہ کچھ کریں جس کی خواہش رکھتے ہوں۔‘جنوبی کوریا کی مس یونیورس کا تاج تو چوئے سون نہ حاصل کر سکیں اور وہ تاج 22 سالہ ہین ایریئل کے سر پر سجا۔ تاہم ان مقابلوں سے وہ خالی ہاتھ واپس نہیں گئیں بلکہ ان کو بہترین لباس زیب تن کرنے کا ٹائٹل دیا گیا۔

’وہ میری طری جینا چاہتے ہیں‘

،تصویر کا ذریعہFranchely Figueroaبی بی سی سے یہ گفتگو انھوں نے مس یونیورس کے سٹیج سے نیچے آنے کے کچھ ہی لمحوں بعد کی۔’جب آپ اپنے جینے کے اس مقصد کو ڈھونڈ لیتے ہیں تو وہ آپ کی زندگی کو مثبت طور سے آگے بڑھانے میں معاون رہتا ہے۔‘’اسی جذبے کے دوران آپ کے لوگوں کے ساتھ اچھے رابطے استوار ہوتے ہیں اور یہ سب آپ کی خوشی اور اطمینان کا سبب بنتا ہے۔‘چوئے سون ماضی میں ایک ہیلتھ ورکر کے طور پر ہسپتال میں کام کرتی تھیں۔چوئے سون کا خواب ماڈلنگ میں آنا اور مقابلہ حسن میں حصہ لینا تھا۔ ان کے ایک مریض نے انھیں جب اس کا مشورہ دیا تھا جب وہ 72 سال کی تھیں اور اس عمر میں بھی انتہائی دلکش اور صحت مند دکھائی دیتی تھیں۔کئی سال معاشی مشکلات میں گھرے رہنے اور اپنے خاندان کو پروان چڑھانے کے دوران اپنا آپ بھلا دینے والی چوئے اس مشورے دوبارہ پراعتماد ہو گئیں اور اپنے لیے کچھ کرنے ٹھان لی۔اس کے بعد سے انھوں نے محنت، لگن اور شوق سے جنوبی کوریا میں شہرت پائی اور وہ فیشن ویک میں ریمپ پر واک کرنے میں بھی کامیاب ہوئیں تاہم بین الاقوامی سطح پر ان کو اپنا آپ ثابت کرنے میں دشواریاں پیش آئیں۔تاہم جب مس یونیورس کے مقابلوں میں حصہ لینے والی خواتین کی عمر کی حد میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا تو انھوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں دیر نہ لگائی اور یوں اب تک مقابلوں میں حصہ لینے والی معمر خاتون کے طور پر حصہ لے کر انھوں نے خود کو منوایا۔یاد رہے کہ اس سے قبل مس یونیورس کے مقابلوں میں 28 سال سے زائد عمر کی خواتین حصہ نہیں لے سکتی تھیں اور یہ قانون اس وقت سے نافذ تھا جب چوئے سون کی عمر محض نو سال تھی۔ دہائیوں بعد اس مقابلے کے قوانین میں تبدیلی چوئے سون کے لیے خوش آئند ثابت ہوئی۔’یہ وہ موقع تھا جس کا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ سالہا سال سے ایک بین الاقوامی مقابلہ حسن میں بطور ماڈل کام کرنے کا میرا دیرینہ خواب تھا۔‘مقابلہ حسن میں حصہ لینے کی خواہشمند خواتین کی عمر کی حد میں نرمی اس وقت ہوئی جب مس یونیورس مقابلوں میں حالیہ برسوں میں متعدد تبدیلیاں سامنے آئیں جن کے مطابق اب شادی شدہ خواتین، ٹرانس جینڈر خواتین اور سنگل مدرز بھی مقابلوں میں حصہ لینے کی اہل ہیں۔تاہم اس کے باوجود چوئے سون کا مس یونیورس میں حصہ لینا کافی ہلچل کا باعث رہا۔’شرکا مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے، اور جب انھیں معلوم ہوا کہ میں 80 سال کی ہوں، تو انھوں نے تعریف کے ساتھ نہ صرف حیرانی کا اظہار کیا بلکہ اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ (اس عمر میں پہنچ کر) میری طری جینا چاہتی ہیں۔‘چوئے سون کی مقابلہ حسن میں حصہ لینے کی خبروں نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی اور دنیا بھر میں وہ شہ سرخیوں میں رہیں۔ اور یہی ان کے خواب کی تعبیر تھی۔،تصویر کا ذریعہSunmook Yang

’ہماری دادی سب سے اچھی، خوبصورت،بہترین اور حسین ہیں‘

چوئے سون ہُوا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے لیے اس مقابلے میں حصہ لینا اور یہاں تک پہنچنا ایک بہترین اور اعزازی تجربہ ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ وہ مقابلہ حسن کے تاج کے لیے بہت سی عمر رسیدہ خواتین کے لیے نہ صرف مثال قائم کر رہی ہیں بلکہ خوبصورتی کے لیے مروج اصولوں کو چیلنج کرنے والی وہ پہلی خاتون ہیں۔’چونکہ یہ ابھی بھی نیا تصور ہے اس لیے اس پر کافی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں، لیکن جیسے جیسے زیادہ تعداد میں عمر رسیدہ خواتین شرکت کریں گی تو لوگوں کا نقطۂ نظر بدل جائے گا۔‘’ایک وقت آئے گا جب بزرگ عالمی مقابلوں میں آگے بڑھ کر حصہ لے سکیں گے۔ تاہم ابھی یہ نوجوانوں کے لیے سامنے آنے کا بہترین موقع ہے۔‘اور اس کے آگے جو بھی ہونا ہے چوئے سون اس سے بخوبی واقف ہیں۔وہ جانتی ہیں کہ ان کے سب سے بڑے فینز ان کے 23 اور 24 سال کی عمر کے اپنے پوتے پوتیاں ہیں جو ان کا پرتپاک استقبال کرنے کے لیے گھر پر منتظر ہیں۔ ’میرے پوتے مجھے یہ کہہ کر خوش کرتے ہیں کہ ’ہماری دادی سب سے اچھی، خوبصورت، حسین اور بہترین دادی ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}