’مسٹر سکیورٹی‘ بنیامن نتن یاہو: اسرائیلی وزیر اعظم کی سیاست کی جادوگری کیا حماس حملے کا داغ دھو پائے گی؟
’مسٹر سکیورٹی‘ بنیامن نتن یاہو: اسرائیلی وزیر اعظم کی سیاست کی جادوگری کیا حماس حملے کا داغ دھو پائے گی؟
،تصویر کا ذریعہReuters
اسرائیل میں بہت سے لوگ انھیں ’مسٹر سیکیورٹی‘ کہتے ہیں۔ بنیامن نتن یاہو اسرائیل کے 1948 میں قیام کے بعد سے سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والے وزیر اعظم ہیں۔
وہ تقریباً تین دہائیاں قبل اقتدار میں آئے تھے اور اس وقت سے ان کا پہلا ہدف اور مقصد اسرائیل کو محفوظ رکھنا ہے۔ لیکن سات اکتوبر کو اس وقت انھیں ایک بڑا دھچکا لگا جب غزہ کی پٹی پر غلبہ رکھنے والے فلسطینی مسلح گروپ حماس نے قریبی اسرائیلی شہروں پر حملہ کیا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے اس حملے میں 1200 سے زائد افراد ہلاک اور 240 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ ہولوکاسٹ اور پہلے عرب اسرائیل تنازعے کے بعد یہودیوں پر یہ سب سے خونریز حملہ تھا۔ حملے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی نتن یاہو نے جوابی کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل کے لوگوں، جنگ شروع ہو چکی ہے اور ہم اسے جیتیں گے۔‘
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی کارروائی سے اب تک وہاں 11 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مرنے والوں میں چار ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔ ان کی موت اسرائیل کے حالیہ فضائی حملوں اور زمینی حملوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔
اتنے طویل کیریئر میں نتن یاہو کو شاید اب تک کے سب سے پیچیدہ حالات میں سے ایک کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے خلاف احتجاج کی آوازیں زور پکڑ رہی ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے نسل کشی کا سہارا لیا ہے اور فلسطینی شہریوں کے خلاف جو کارروائیاں کی جا رہی ہیں وہ اسرائیل کو ہونے والے نقصان کے مقابلے زیادہ ہیں۔
اس مضمون میں بی بی سی نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ نتن یاہو گزشتہ تین دہائیوں میں ملک کے سب سے بااثر سیاستدان کیسے بنے۔
اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعلقات
،تصویر کا ذریعہGetty Images
’مسٹر سکیورٹی‘ کے علاوہ اسرائیلی سیاست میں نتن یاہو کے لیے دیگر نام بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ وہ اب بھی اپنے بچپن کا عرفی نام ’بی بی‘ استعمال کرتے ہیں اور یہ ان کے حامیوں میں بہت مقبول ہے۔
وہ واحد اسرائیلی سیاستدان ہیں جنھوں نے چھ بار ملک کی کمان سمبھالی۔ وہ کئی بار الیکشن جیت چکے ہیں۔ اسی لیے حامی انھیں ’بادشاہ بی بی‘ بھی کہتے ہیں۔
وہ سنہ 1949 میں تل ابیب میں پیدا ہوئے۔ اسرائیل اس سے صرف ایک سال پہلے قائم ہوا تھا۔ نتن یاہو ملک کے پہلے وزیر اعظم ہیں جو اسرائیل کے قیام کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک معروف مورخ تھے۔
برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ کے یروشلم کے نامہ نگار بیتھن میک کیرنن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کی پرورش ایک سیکولر لیکن سماجی طور پر قدامت پسند ماحول میں ہوئی تھی۔ صہیونیت اور اسرائیل کی نو تشکیل شدہ ریاست کے بارے میں ان کے خیالات واضح اور مضبوط تھے۔‘
نتن یاہو تین بھائیوں میں سے ایک تھے اور اپنے والد کی ملازمت کی وجہ سے کبھی اسرائیل اور کبھی امریکہ میں پرورش پاتے تھے۔ وہ فلاڈیلفیا اور نیویارک کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے تھے۔
نتن یاہو نے ان دنوں امریکی لہجے کے ساتھ انگریزی بولنا سیکھا۔
فلاڈیلفیا کے چیلٹنہم ہائی سکول میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد نیتن یاہو 18 سال کی عمر میں پانچ سال کی لازمی فوجی خدمات مکمل کرنے کے لیے اسرائیل آئے تھے۔ وہاں انھوں نے ملک کی ایلیٹ سیرت متکل سپیشل فورسز میں شمولیت اختیار کی۔ یہ اسرائیل کا انسداد انتہا پسندی یونٹ ہے جس میں نتن یاہو نے کئی مشنز میں حصہ لیا۔
برسوں بعد، اس ایلیٹ یونٹ کے ساتھ اپنے تجربات پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے امریکی تھنک ٹینک ہوور انسٹی ٹیوٹ کو بتایا ’میں کئی بار موت کے روبرو آیا۔ نہر سویز میں فائرنگ کے دوران میں تقریباً ڈوب گیا تھا۔ شام میں، میں مر تے مرتے بچا۔ مجھے ایک بچھو نے کاٹ لیا تھا اور میں یہ کہانی سنانے کے لیے زندہ رہ گیا۔‘
کیپٹن کے عہدے کے ساتھ ملٹری سروس مکمل کرنے کے بعد، وہ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے آرکیٹیکچر اور بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے 1972 میں امریکہ واپس آئے۔ ان کا شمار ایم آئی ٹی کے بہترین طلباء میں ہوتا تھا۔
ان کی تین شادیوں میں سے پہلی شادی اُسی سال ہوئی اور اس میں سے تین بچے پیدا ہوئے۔ لیکن ایک سال کے بعد انھیں اپنی پڑھائی چھوڑ کر مصر کے خلاف یوم کپور جنگ میں حصہ لینے کے لیے اسرائیل جانا پڑا۔
جوناتھن، بنیامین کے بڑا بھائی
،تصویر کا ذریعہGetty Images
نتن یاہو کے بڑے بھائی جوناتھن بھی ایلیٹ سپیشل فورس سیرت متکل میں شامل تھے۔ ساتھی انھیں پیار سے یونی کہہ کر پکارتے تھے۔ ان کے بڑے بھائی کا بنیامین نتن یاہو کی زندگی پر بڑا اثر رہا ہے۔
جنگ ختم ہونے کے بعد بنیامین اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے ایم آئی ٹی واپس آئے۔ بعد ازاں انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی میں بھی داخلہ لیا۔ اس کے برعکس، جوناتھن نے اپنے فوجی کیریئر کو جاری رکھا اور ایلیٹ سپیشل فورس سیرت متکل کے کمانڈر بن گئے۔
1976 میں اس انسداد انتہا پسندی دستے نے ایک خطرناک ریسکیو آپریشن کیا جب فلسطینی انتہا پسندوں نے ایئر فرانس کے ایک مسافر طیارے کو ہائی جیک کر کے یوگنڈا کے اینٹبی ایئرپورٹ پر لے گئے۔
اس طیارے میں ایک سو کے قریب اسرائیلی شہری سوار تھے جنھیں شدت پسندوں نے یرغمال بنا لیا تھا۔ ’آپریشن اینٹبی‘، جسے کچھ لوگ ’آپریشن تھنڈر‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں، مکمل طور پر کامیاب رہا۔ تمام عسکریت پسند مارے گئے اور زیادہ تر یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا۔
تاہم اس کارروائی میں چار یرغمالی اور ایک اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجی کا نام جوناتھن تھا جو کمانڈر تھے۔
نتن یاہو نے ایک بار نیویارک میں اپنے بھائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا ’مجھے نہیں لگتا تھا کہ میں کبھی اس سے آگے بڑھ پاؤں گا لیکن کسی طرح میں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ میں نے اپنے والدین کو غیر معمولی وقار کے ساتھ اس غم سے نبردآزما ہوتے دیکھا۔ مجھے انٹیبی میں جوناتھن کی موت کے بارے میں انھیں بتانا تھا۔ اس غم کے لمحے کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔‘
سیاست میں قدم
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بھائی کی موت نے نتن یاہو کی پیشہ ورانہ زندگی کو بھی ایک نئی سمت دی۔ میساچوسٹس میں بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کے ساتھ معاشی مشیر کے طور پر چند سال کام کرنے کے بعد وہ امریکہ چھوڑ کر اسرائیل واپس آگئے۔
وطن واپسی کے بعد نتن یاہو نے جوناتھن نیتن یاہو اینٹی ٹیررزم انسٹی ٹیوٹ کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کی۔ یہ تنظیم انتہا پسندی کا مطالعہ کرتی تھی اور اس سے لڑنے کے طریقوں پر بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد کرتی تھی۔
نتن یاہو کی انتہا پسندی پر تین کتابیں 1981، 1987 اور 1995 میں شائع ہوئیں۔ ان کی چوتھی کتاب کا موضوع امن اور دنیا میں اسرائیل کا مقام تھا۔ 80 کی دہائی کے اوائل میں، انھوں نے یروشلم میں ایک فرنیچر کمپنی میں مینیجر کے طور پر بھی کام کیا، جہاں ان کے اسرائیلی سیاست دانوں کے ساتھ رابطے بڑھے۔
اس وقت کے وزیر اعظم موشے آرینس بھی ان میں شامل تھے۔ موشے نے انھیں امریکہ میں اسرائیلی سفارت خانے کا نائب سربراہ مقرر کیا۔ بعد ازاں انھیں اقوام متحدہ میں اسرائیل کا سفیر بنا دیا گیا۔ چار سال کے بعد وہ اسرائیل میں مستقل طور پر آباد ہو گئے۔
ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز دائیں بازو کی لیکود پارٹی میں شمولیت سے ہوا۔ وہ کنیسٹ یعنی اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن بن گئے۔ صرف پانچ سال میں جب وہ 42 سال کے تھے وہ لیکود پارٹی کے سربراہ بن گئے۔
ڈورے گولڈ نے نتن یاہو کے خارجہ پالیسی کے مشیر کے طور پر کام کیا تھا۔ انھوں نے 2009 میں بی بی سی کے ریڈیو فور پروگرام میں کہا ’کئی ایسے عوامل تھے جو ان کے بے مثال عروج کا باعث بنے۔ ان کا پس منظر فوج میں تھا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ انگریزی پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی فصاحت و بلاغت مشہور تھی۔ وہ سیاست میں نئے تھے، پرکشش شخصیت کے مالک تھے، وہ انگریزی ایسے بولتے تھے جیسے وہ امریکہ میں پیدا ہوئے ہوں۔ فکری طور پر وہ مضبوط اور اصول پسند تھے۔‘
ڈورے گولڈ نے نتن یاہو کے خارجہ پالیسی کے مشیر کے طور پر کام کیا تھا۔ انھوں نے 2009 میں بی بی سی کے ریڈیو فور پروگرام میں کہا ’کئی ایسے عوامل تھے جو ان کے بے مثال عروج کا باعث بنے۔ ان کا پس منظر فوج میں تھا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ انگریزی پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی فصاحت و بلاغت مشہور تھی۔ وہ سیاست میں نئے تھے، پرکشش شخصیت کے مالک تھے، وہ انگریزی ایسے بولتے تھے جیسے وہ امریکہ میں پیدا ہوئے ہوں۔ فکری طور پر وہ مضبوط اور اصول پسند تھے۔‘
1996 میں جب بنیامین نتن یاہو نے اسحاق رابین کے قتل کے بعد وزیر اعظم کے عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے جارج برنبام کو اپنا چیف آف اسٹاف مقرر کیا۔
بین الاقوامی پالیسی کے مشیر جارج برنبام کی رائے میں، بنیامین نتن یاہو کی کامیابی کا سہرا ان کی مقناطیسی شخصیت کو جاتا ہے۔ جارج برنبام نے ریڈیو فور پر اسی پروگرام میں کہا، ’ان کی ایک کرشماتی شخصیت ہے جو کہ ناقابل یقین حد تک مضبوط اور فطری معلوم ہوتی ہے۔ امریکی طرز کی انتخابی مہم اسرائیلیوں کے لیے ایک نئی چیز تھی اور نتن یاہو اس میں کامیاب رہے۔ اسرائیل میں پہلے جس طریقے سے انتخابات ہوتے تھے ہم نے اسے پوری طرح سے بدل دیا۔‘
پہلی حکومت
،تصویر کا ذریعہGetty Images
انتخابات میں کامیابی کے ساتھ ہی 47 سال کی عمر میں نتن یاہو اسرائیل کی تاریخ کے سب سے کم عمر وزیراعظم بن گئے۔ لیکن ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت چلانا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔
نتن یاہو کے پہلے دور حکومت میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات نازک موڑ پر پہنچ گئے تھے۔ اس وقت امریکی صدر بل کلنٹن تھے۔
1994 میں کلنٹن انتظامیہ کی کوششوں سے اسرائیل اور اردن کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ مصر کے بعد اردن مشرق وسطی کا دوسرا عرب ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ لیکن غزہ کی پٹی اور غرب اردن میں اسرائیلی بستیاں قائم کرنے کے نتن یاہو کے فیصلے پر کلنٹن انتظامیہ کی طرف سے سخت تنقید کی گئی۔
غزہ کی پٹی اور غرب اردن وہ علاقے تھے جن پر اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ بل کلنٹن نے نتن یاہو کو امن عمل ناکام بنانے کا براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا۔
یروشلم پوسٹ کے سابق سیاسی نامہ نگار گل ہوفمین نے بی بی سی کو بتایا: ’پہلے بل کلنٹن اور پھر اوباما انتظامیہ، امریکی حکومتوں کے ساتھ کھیلنا اسرائیل کے اس آرتھوڈوکس لیڈر کے لیے ایک بڑا قدم تھا جو بہت مایوس کن تھا۔‘
کئی برس بعد ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا تو ٹرمپ نے اس وقت کہا کہ یہودیوں، مسلمانوں اور مسیحیوں کا یہ تاریخی شہر اسرائیل کا حقیقی دارالحکومت ہے۔
لیکن نتن یاہو کو اپنے پہلے دور میں دو محاذوں پر مشکلات کا سامنا ہوا۔ ایک طرف وہ امریکی حکومت کے ساتھ معاملات کر رہے تھے اور دوسری طرف اسرائیل کی بائیں بازو کی جماعتیں ان پر اوسلو امن معاہدے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا الزام لگا رہی تھیں۔
اوسلو امن معاہدے پر اسحاق رابین اور فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے 1993 اور 1995 میں دستخط کیے تھے۔
دوسری جانب نتن یاہو نے غرب اردن کے شہر ہیبرون کا ایک بڑا حصہ فلسطینیوں کو دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
ہیبرون کو یہودیوں کا دوسرا مقدس ترین شہر سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اسرائیل میں سیاسی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ ایسے ہی کچھ سکینڈلز نے ان کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا اور وہ اقتدار سے بے دخل ہو گئے۔
’مسٹر اکانومی‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
1999 کے انتخابات میں نتن یاہو لیبر پارٹی کے رہنما ایہود براک سے ہار گئے۔ اس کے بعد انھوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور نجی سیکٹر کا رخ کیا۔ لیکن سیاست سے ان کی علیحدگی تھوڑے ہی عرصے کے لیے رہی۔
ایہود براک کی حکومت دو سال سے بھی کم عرصے تک چلی اور لیکود پارٹی کے نئے رہنما ایریل شیرون نے اسرائیل کی باگ ڈور سنبھالی۔ انھوں نے اپنی حکومت میں نتن یاہو کو پہلے وزیر خارجہ اور پھر وزارت خزانہ کی ذمہ داری دی۔
وزیر خزانہ کی حیثیت سے نیتن یاہو نے اپنی حکومت کے دوران شروع ہونے والی معاشی اصلاحات کے عمل کو جاری رکھا۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں اقتصادی اور ٹیکنالوجی کی طاقت کے طور پر قائم کرنے کا سہرا نتن یاہو کو جاتا ہے۔
اس دور کو یاد کرتے ہوئے نتن یاہو نے بعد میں کہا تھا کہ ’ہمیں ایک بڑے معاشی بحران کا سامنا تھا۔ میرے بڑے بیٹے نے مجھے کہا کہ تل ابیب کو دیکھو اور نیویارک کو دیکھو۔ میرے بیٹے نے کہا کہ ہم کبھی ان جیسا نہیں بن پائیں گے۔ میں نے اس سے کہا تمہارے والد اب ملک کے وزیر خزانہ ہیں اور میرا یقین کرو، ہم ان جیسا بن سکیں گے۔‘
ایک طرف اسرائیل میں بہت سے لوگ نتن یاہو کو ’مسٹر اکانومی‘ کہہ کر سراہتے ہیں تو دوسری طرف ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسرائیل کے سماجی تحفظ کے ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔
وزیر کے طور پر ان کا دور صرف دو سال تک رہا۔ 2005 میں، انھوں نے ایریل شیرون کے یکطرفہ طور پر غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے انخلا کے فیصلے کے خلاف احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
اس معاملے پر اختلافات کی وجہ سے ایریل شیرون نے لیکود پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی جس کے بعد انھوں نے کدیما پارٹی بنائی۔ دائیں بازو کی لیکود پارٹی کی کمان نتن یاہو کے ہاتھ میں آگئی۔
انھوں نے 2009 میں دوبارہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ڈیوڈ بین گوریون کی حکومت کے بعد نتن یاہو کی یہ حکومت اسرائیل میں سب سے طویل عرصے تک قائم رہی۔
نتن یاہو نے لگاتار چار انتخابات جیتے تھے۔ 2021 تک وہ مسلسل 12 سال اقتدار میں رہے۔ اقتدار کھونے کے صرف ڈیڑھ سال بعد، 2022 میں چھٹی مدت کے لیے منتخب ہوئے اور ان کی حکومت ابھی تک چل رہی ہے۔
کامیابی کا راز
،تصویر کا ذریعہEPA
ارجنٹینا میں مقیم تجزیہ کار گیبریل کا کہنا ہے کہ ’اسرائیلی پریس کا ایک بڑا حصہ سیکولر، بائیں طرف جھکاؤ رکھنے والا ہے۔ اس کے برعکس اسرائیلی عوام کی اکثریت قدامت پسند اور مذہبی ہے۔ جب وہ ووٹ ڈالتے ہیں تو دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ 1977 کے بعد وہاں ہونے والے تمام انتخابات میں یہ طبقہ عملی طور پر انتخابات جیتتا رہا ہے۔‘
گیبریل کا کہنا ہے کہ ’اس نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر نتن یاہو جانتے ہیں کہ اسرائیلی عوام کے ذہنوں میں موجود خوف کا فائدہ کیسے اٹھانا ہے۔‘
دی گارڈین کے یروشلم کے نامہ نگار بیتھن میک کیرنن کی رائے میں ’نتن یاہو گذشتہ دو تین دہائیوں میں سیاست کی دنیا میں اپنی تصویر کو نئی شکل دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘
انھوں نے بی بی سی فور کے پروگرام میں بتایا کہ ’وہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنے کی سیاست میں ماہر کھلاڑی ہیں۔ تقسیم اور فتح کی اس حکمت عملی نے اسرائیل کو پہلے سے کہیں زیادہ قدامت پسند جگہ بنا دیا ہے۔‘
گل ہوفمین میک کیرنن سے متفق ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اب تک وہ ایک دائیں بازو کی پارٹی کو ایک طرف اور بائیں بازو کی پارٹی کو دوسری طرف رکھنے میں کامیاب رہے ہیں تاکہ وہ خود درمیان میں رہ کر دونوں کے درمیان توازن برقرار رکھ سکیں۔‘
گیبریل کا کہنا ہے کہ ’نتن یاہو سیاست کے جادوگر کی طرح ہیں۔ انھوں نے کبھی بھی اپنی حکومتوں کے لیے مستقل اتحاد کو مضبوط نہیں کیا اور نہ ہی انھوں نے اپنی جگہ لینے کے لیے کوئی نئی قیادت تیار کی۔‘
مشرق وسطیٰ کی سیاست کے ماہر گیبریل کی رائے میں ’نتن یاہو نے فلسطینیوں کے ساتھ بات چیت میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ فلسطینی قیادت غرب اردن پر حکمرانی کرنے والی فلسطینی اتھارٹی اور غزہ کی پٹی پر حکومت کرنے والی حماس کے درمیان تقسیم ہے۔‘
گیبریل کہتے ہیں کہ ’نتن یاہو کی پالیسی فلسطینیوں کو تقسیم کرنا اور انھیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا ہے۔ انھوں نے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ ساتھ حماس کو بھی کمزور کیا۔ لیکن حماس کے معاملے میں یہ تنظیم اتنی کمزور نہیں ہوئی جتنا نیتن یاہو کا خیال تھا۔‘
گیبریل کا کہنا ہے کہ ’نتن یاہو نے فلسطینیوں سے بات کرنے کے بجائے اپنے عرب پڑوسیوں بالخصوص سنی اکثریتی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی۔ یہ وہ ممالک تھے جو 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے سے قبل فلسطین کے معاملے پر کسی حد تک لاتعلق ہو چکے تھے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’نتن یاہو نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ وہ فلسطین کے ایجنڈے کو تباہ کرنے کی حد تک کمزور کرنے کی حکمت عملی آزما رہے تھے۔‘
سنہ 2020 میں اسرائیل نے متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان، مراکش کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ابراہام اکارڈز پر دستخط کیے تھے۔ اب یہ ممالک اسرائیل کے غزہ پر حملے پر تنقید کر رہے ہیں۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے اسرائیل مشرق وسطیٰ کے طاقتور ملک سعودی عرب کے ساتھ معاہدے کے منصوبے پر کام کر رہا تھا۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ حماس کے اسرائیل پر غیر معمولی حملے کی ایک وجہ ہو سکتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
نتن یاہو کی میراث
ہوفمین کا کہنا ہے کہ ’نتن یاہو نے فلسطینیوں کے ساتھ بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔‘ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ ابراہام معاہدے یقیناً ایک کارنامہ تھا۔
ہوفمین بتاتے ہیں کہ ’نتن یاہو اسرائیل کے محافظ بننا چاہتے ہیں لیکن حماس کے حملوں نے اس میں خلل ڈالا ہے۔‘
نتن یاہو نے 7 اکتوبر کے بعد سے بہت کم عوامی بیانات دیے ہیں۔ اسرائیلی معاشرے کے کئی طبقوں کی جانب سے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یرغمالیوں کا بحران اور غزہ پر بمباری تنقید کے اہم نکات رہے ہیں۔
تنازع شروع ہونے کے چند ہفتے بعد ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی تقریر میں انھوں نے کہا کہ ’سات اکتوبر ہماری تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے۔ ہم جنوب میں غزہ کی سرحد پر جو کچھ ہوا اس کی تہہ تک پہنچیں گے۔ اس کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔ اس غلطی کا جواب مجھے بھی دینا پڑے گا۔‘
اسرائیلی اخبار ہاریٹز کی صحافی انشیل فیفر نے نتن یاہو کی سوانح عمری تحریر کی ہے۔
فیفر نے بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ میں کہا کہ ’نتن یاہو جانتے ہیں کہ اسرائیل کو محفوظ رکھنے میں ان کی ناکامی نے ان کی قیادت کو داغدار کر دیا ہے۔‘
اس حملے سے قبل بھی اسرائیلی رہنما کو عدالتی اصلاحات کے حوالے سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
گیبریل کا کہنا ہے کہ ’جنگ کے بعد لوگوں نے ان کے حریف بینی گانٹز کے ساتھ مل کر قومی حکومت بنانے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔‘
گیبریل کا کہنا ہے کہ ’جنگ نے نتن یاہو کو کچھ وقت دیا ہو گا لیکن ان کا سیاسی مستقبل غیر یقینی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس جنگ کا ان کے سیاسی کیریئر پر بہت سنگین اثر پڑے گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس سے بچ سکیں گے۔‘ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’نتن یاہو ایک سیاسی جادوگر ہیں اور ممکن ہے کہ وہ اپنے تھیلے سے کوئی اور چال نکالیں۔‘
’ان کے پاس ایسی چیزیں کرنے کی مہارت ہے جس کی آپ کو توقع نہیں ہے۔ جنگ کے بعد، وہ یروشلم میں سعودی عرب کے رہنما کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔‘
منطقی بات یہ ہوگی کہ جنگ کے بعد استعفیٰ دیا جائے لیکن نتن یاہو کیا کریں گے اس کا اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔
گیبریل کہتے ہیں کہ ’اگرچہ حماس کے حملے نے نتن یاہو کے مسٹر سکیورٹی امیج کو نقصان پہنچایا ہے، لیکن ہمیں یہ جاننے کے لیے جنگ کے خاتمے کا انتظار کرنا پڑے گا کہ اس کا ان کی سیاست پر کیا اثر پڑتا ہے۔‘
Comments are closed.