مسلم ممالک میں جاری بائیکاٹ مہم نے میکڈونلڈز کو کیسے متاثر کیا،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنمیکڈونلڈز کا کہنا ہے کہ کمپنی کا الونیال سے اسرائیل میں موجود تمام 225 ریستوران خریدنے کا معاہدہ ہو چکا ہے

  • مصنف, کرس نیو لینڈز
  • عہدہ, بزنس رپورٹر
  • 57 منٹ قبل

مشہور فاسٹ فوڈ چین میکڈونلڈز کی جانب سے اسرائیل میں اپنے تمام ریستوران مقامی کمپنی الونیال سے واپس لینے کے فیصلے کے بعد سے الونیال اور اس کے چیف ایگزیکتیو عمری پڈان توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔رواں ہفتے، میکڈونلڈز کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ الونیال سے اسرائیل میں موجود تمام 225 میکڈونلڈز برانچز خریدنے کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ ان ریسٹورنٹس میں تقریباً پانچ ہزار افراد کام کرتے ہیں۔خیال رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے ردعمل میں ہونے والے بائیکاٹ کے بعد دنیا بھر میکڈونلڈز کے کاروبار پر ’معنی خیز‘ اثر پڑا ہے۔بین الاقوامی فاسٹ فوڈ چین ایک فرنچائز سسٹم استعمال کرتی ہے۔ اس سسٹم کے تحت، کوئی بھی کمپنی یا شخص فرنچائز کا لائسنس حاصل کرنے کے بعد ریستوران چلا سکتا ہے۔

میکڈونلڈز کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب اسرائیلی فرنچائزز کے مالک عمری پڈان نے گذشتہ سال اکتوبر میں غزہ جنگ کے آغاز کے بعد اسرائیلی فوجیوں میں مفت کھانا تقسیم کیا۔ اس پر میکڈونلڈز کو عالمی سطح پر بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔اس دوران مسلم اکثریتی ممالک بشمول کویت، ملائیشیا اور پاکستان میں مقامی مالکان کی جانب سے میکڈونلڈز اور اس کی اسرائیلی حمایت سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا تھا۔عمری پڈان پچھلے 30 سالوں سے اسرائیل میں میکڈونلڈز کی فرنچائزز چلا رہے ہیں۔اس دوران، اسرائیل-فلسطین مسئلے کو لے کر وہ کئی مرتبہ تنازعات کا شکار رہے ہیں۔سنہ 2013 میں اسرائیلی بزنس مین اس وقت شہ سرخیوں کی زینت بنے جب انھوں نے اسرائیلی آبادکاروں کے مطالبے کے باوجود مقبوضہ مغربی کنارے میں ایریل کی بستی میں فاسٹ فوڈ چین کی شاخ کھولنے سے انکار کر دیا تھا۔ان کی کمپنی الونیال کو ایک شاپنگ سینٹر میں ریستوران قائم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ تاہم کمپنی نے یہ کہتے ہوئے اس سے انکار کر دیا تھا کہ مقبوضہ علاقوں میں فرنچائز کھولنا ان کی پالیسی کے خلاف ہے۔اس وقت پڈان کی کمپنی کا کہنا تھا کہ ان کا یہ فیصلہ امریکہ میں میکڈونلڈز کے ہیڈکوارٹر سے مربوط نہیں ہے۔سنہ 1967 کی مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد سے اسرائیل نے وہاں 160 بستیاں آباد کردی ہیں جہاں تقریباً سات لاکھ یہودی آباد ہیں۔ فلسطینی اس زمین کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ مانتے ہیں۔بین الاقوامی برادری کی اکثریت ان آبادیوں کو بین الاقوامی قانون کے تناظر میں غیر قانونی سمجھتی ہے، جبکہ اسرائیل اس سے متفق نہیں ہے۔

عمری پڈن ’پیس ناؤ‘ نامی گروپ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ اس گروپ کی بنیاد 1978 میں رکھی گئی تھی۔ یہ گروپ ایسی تمام آبادیوں کی مخالفت کرتا ہے اور انھیں امن کی راہ میں رکاوٹوں کے طور پر دیکھتا ہے۔تاہم پیس ناؤ کا کہنا ہے کہ پڈان اب اس گروپ کے رکن نہیں رہے۔آبادکاروں کی تنظیم یشہ کونسل کے ایک رہنما نے اس وقت الزام لگایا تھا کہ میکڈونلڈز ایک منافع بخش کمپنی سے ’اسرائیل مخالف سیاسی ایجنڈے‘ والی ایک کمپنی میں تبدیل ہو گئی ہے۔سنہ 2019 میں الونیال کے اس فیصلے کی بازگشت اس وقت دوبارہ سننے میں آئی جب میکڈونلڈز کو اسرائیل کے بین گوریون ہوائی اڈے پر ریسٹورنٹ اور ہاٹ ڈاگ سٹینڈ چلانے کا ٹینڈر ملا تھا۔اس کے بعد مغربی کنارے کے یہودی آبادکار رہنماؤں کی جانب سے کئی احتجاجی خط تحریر کیے گئے۔ ان خطوط میں انھوں نے اسرائیلی حکام سے اس فیصلے کو روکنے کی مانگ کی تھی۔ جبکہ تل ابیب میں میکڈونلڈز کی شاخوں کے باہر مظاہرے بھی منعقد کیے گئے تھے۔جمعرات کو اچانک اعلان کیا گیا کہ الونیال اور میکڈونلڈز کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے ذریعے اب اسرائیل میں ریستوران پیرنٹ کمپنی ہی چلائے گی۔ تاحال میکڈونلڈز کی جانب سے اس معاہدے کی تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنمیکڈونلڈز کو اسرائیلی فرنچائزز کی جانب سے اسرائیلی فوجیوں کو مفت کھانا دینے کے اعلان کے بعد عالمی سطح پر بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک برینڈ مینیجمنٹ ایکسپرٹ کا کہنا تھا کہ جو افراد میکڈونلڈز کے اسرائیلی فوجیوں کو مفت کھانے کی پیشکش کے فیصلے سے ناراض تھے وہ اس بات سے مزید ناراض ہو سکتے ہیں کہ اس معاہدے کے نتیجے میں مسٹر پڈان اور بھی امیر ہو جائیں گے۔تاہم بائیکاٹ کی افادیت اور اس کے اثرات سے وہ ضرور خوش ہوسکتے ہیں۔عمری پڈان کی اس کاروبار سے علیحدگی میکڈونلڈز کی جانب سے جنوری میں دیے گئے اس بیان کے بعد سامنے آئی ہے جس میں فاسٹ فوڈ چین نے اعتراف کیا تھا کہ غزہ جنگ کے دوران مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک میں صارفین کی جانب سے بائیکاٹ مہم سے ان کے کاروبار پر ’معنی خیز‘ اثر پڑا ہے۔سنہ 2023 میں میکڈونلڈز کے مشرق وسطیٰ، چین اور انڈیا پر مشتمل یونٹ کی چوتھی سہ ماہی میں فروخت میں اضافہ محض 0.7 فیصد رہا جو مارکیٹ کی توقعات سے کہیں کم ہے۔چیف ایگزیکٹیو کرس کیمپزنسکی کا ایک لنکڈ ان پوسٹ میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس سارے ردعمل کی بنیاد ’غلط معلومات‘ ہے۔کمپنی نے بائیکاٹ کی مہم کو ’افسوس ناک‘ قرار دیا تھا۔ یاد رہے کہ میکڈونلڈز دنیا بھر میں اپنے 40,000 سے زیادہ ملکیتی سٹورز چلانے کے لیے ہزاروں مقامی آزاد سرمایہ کاروں پر انحصار کرتا ہے۔ ان میں سے تقریباً پانچ فیصد مشرق وسطیٰ میں ہیں۔برینڈ مینجمنٹ ایکسپرٹ کا کہنا ہے کہ میکڈونلڈز کا فرنچائزز کو واپس خریدنے کا مقصد صورتحال پر قابو پانا ہے۔ تاہم، وہ زیادہ پُرامید نہیں۔انھوں نے سوال اٹھایا کہ بالآخر کمپنی اپنی حد کہاں مقرر کرے گی۔ ’کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ (میکڈونلڈز) اب ان علاقوں میں ڈیلز آفر کرے گی جہاں اس کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے؟‘جمعرات کے روز جاری بیان میں میکڈونلڈز کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیلی مارکیٹ میں ملازمین اور گاہکوں کے لیے مثبت تجربے کو یقینی بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔کمپنی نے اسرائیل میں میکڈونلڈز کے فروغ پر سابقہ کمپنی کو سراہا۔ دوسری جانب عمری پڈان کا کہنا تھا کہ وہ مستقبل کے حوالے سے کافی پُرامید ہیں۔بی بی سی نیوز کو میکڈونلڈز کے ذریعے مسٹر پڈن یا الونیال کی طرف سے مزید کوئی تبصرہ موصول نہیں ہوا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}