مسلمان ووٹ بینک اور ’غزہ جنگ‘ جس کی گونج برطانیہ کے سیاسی منظرنامے میں سنائی دے رہی ہے،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, عالیہ نازکی
  • عہدہ, بی بی سی اردو، لندن
  • ایک گھنٹہ قبل

برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی پچھلے 14 سال سے اقتدار میں ہے اور اس عرصے کے دوران پہلے عوامی اخراجات کم کرنے کی پالیسی، پھر بریگزِٹ، پھر کووڈ اور اس کے بعد یوکرین کی جنگ۔۔۔ اس کے علاوہ اِمیگریشن، مہنگائی، معیشت کے بڑھتے ہوئے مسائل بھی موجود ہیں۔ یعنی اس مرتبہ عام انتخابات میں مسائل کی کمی نہیں ہے۔اب اس لمبی فہرست میں ایک اور اہم معاملہ شامل ہو گیا ہے اور وہ ہے غزہ میں جاری جنگ کا جہاں سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے جواب میں اب تک اسرائیلی حملے جاری ہیں۔برطانیہ میں ایسے علاقے بھی ہیں (خاص طور پر کچھ لیبر سیٹوں پر) جہاں کئی آزاد امیدواروں نے غزہ کے تنازعے کو ہی اپنی مہم کا بنیادی نکتہ بنایا ہوا ہے۔غزہ اسرائیل جنگ کے شروع ہونے کے کچھ ہی ہفتے بعد نومبر میں برطانیہ کی پارلیمنٹ میں جنگ بندی کی ایک قرارداد متعارف ہوئی۔ اس وقت لیبر پارٹی نے اپنے ارکان سے اس پر ووٹ نہ ڈالنے کو کہا۔ کئی لیبر ایم پیز نے اس کے باوجود قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا، لیکن زیادہ تر نے پارٹی لائن کی پیروی کی۔

اگر آپ لیبر پارٹی یا کنزرویٹو پارٹی کے منشور دیکھیں تو دونوں میں مختلف الفاظ میں، اسرائیل اور غزہ کا ذکر شامل ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنبرطانیہ کے دوسرے بڑے شہر برمنگھم میں لیڈی ووڈ ایک ایسی ہی محفوظ سیٹ ہے۔ اس علاقے میں آبادی کا بڑا حصہ مسلمان ہے اور پاکستانی نژاد ہے (فائل فوٹو)
لیبر پارٹی کا منشور ایک فوری جنگ بندی، امداد، اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک فلسطینی ریاست اور اسرائیل کی حفاظت کی بات کرتا ہے، جبکہ کنزرویٹو کے منشور میں اسرائیل کے ’سیلف ڈیفینس‘ کے حق اور آخرکار ایک دو ریاستی حل کی بات شامل ہے۔برطانیہ میں کئی افراد کا کہنا ہے کہ دونوں پارٹیوں کی طرف سے غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد سامنے آنے والا ابتدائی ردعمل ناکافی تھا۔زیادہ تر سروے اور تجزیہ کاروں کے مطابق اس الیکشن میں لیبر پارٹی کی فتح کے امکانات زیادہ ہیں تاہم دوسری طرف لیبر کی ایسی کئی سیٹیں بھی ہیں جہاں ایک دلچسپ سیاسی صورتحال جنم لے رہی ہے۔برطانیہ کے دوسرے بڑے شہر برمنگھم میں لیڈی ووڈ ایک ایسی ہی سیٹ ہے جہاں آبادی کا بڑا حصہ مسلمان اور پاکستانی نژاد ہے۔پچھلے 14 سال سے لیبر پارٹی کی شبانہ محمود، جن کا تعلق اسی کمیونٹی سے ہے، یہاں کی ایم پی رہی ہیں۔اس بار یہاں لیبر، کنزروٹیو اور دیگر مرکزی پارٹوں کے علاوہ ایک اور چہرہ نظر آرہا ہے اور وہ احمد یعقوب ہیں جو ایک وکیل ہیں اور ایک آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
،تصویر کا کیپشناحمد یعقوب ایک وکیل ہیں اور آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں
یہ وہی احمد یعقوب ہیں جنھوں نے ایک آدھ ماہ پہلے ویسٹ مِڈلینڈز کے میورل الیکشن میں تیسرا نمبر حاصل کر کے سب کو چونکا دیا تھا۔ ان کی مہم میں غزہ مرکزی معاملہ تھا اور اب بھی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’جب نومبر میں جنگ بندی کے ووٹ پر ہمارے ایم پی نے ووٹ نہیں ڈالا تو دوسرے ہی دن میں نے ان کے خلاف کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔‘احمد یعقوب کہتے ہیں کہ ’میرے حلقے میں 99 فیصد لوگ غزہ پر میرے موقف سے متفق ہیں اور اس بات سے ناراض ہیں کہ لیبر ایم پی نے جنگ بندی کے لیے ووٹ نہ ڈال کر خود اپنے ہی حلقے کے لوگوں کی نمائندگی نہیں کی۔‘

،تصویر کا کیپشناحمد یعقوب کہتے ہیں کہ ’میرے حلقے میں 99 فیصد لوگ غزہ پر میرے موقف سے متفق ہیں‘
تاہم پچھلے دنوں ایک پوڈکاسٹ کی غیر ایڈٹ شدہ ریکارڈِنگ لیک ہوئی جس میں بظاہر احمد یعقوب خواتین کے بارے میں متنازع خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور خواتین کے خلاف تشدد کا بظاہر مذاق اڑاتے ہیں۔اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’میں پہلے ہی اس بارے میں غیر مشروط معافی مانگ چکا ہوں۔ میں خواتین اور ان کے حقوق کا حامی ہوں۔‘احمد یعقوب واحد امیدوار نہیں جن کی الیکشن مہم غزہ کے گرد گھوم رہی ہے۔ برمنگھم سے اگر لندن آئیں تو یہاں بھی لیبر کی ایسی کئی سیٹیں ہیں جہاں غزہ کے حوالے سے لیبر پارٹی کے ابتدائی موقف کی وجہ سے آزاد امیدوار لیبر کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔بیتھنل گرین اینڈ سٹیپنی لندن کے مشرق میں ایک ایسا ہی علاقہ ہے۔یہاں لیبر کی روشن آرا علی کو جن مخالفین کا سامنا ہے ان میں کنزرویٹو پارٹی کے علاوہ کچھ آزاد امیدوار بھی شامل ہیں جیسا کہ مقامی امام اور براڈکاسٹر اجمل مسرور، جن کا کہنا ہے کہ اگر روشن آرا علی نے نومبر میں جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیا ہوتا تو وہ اس الیکشن میں کھڑے ہی نہیں ہوتے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سات اکتوبر کے بعد غزہ پر ہونے والے حملوں کی وجہ سے میں بڑی سیاسی جماعتوں کے ردعمل سے بہت مایوس ہو گیا تھا۔‘ ’میں نے خود سے کہا کہ کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔ اس علاقے کی مقامی برادری نے مل کر مجھ سے پوچھا کہ کیا میں ان انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہوں تو میں نے ان کے کہنے پر یہ فیصلہ کیا۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’اگر سیاست دان غزہ میں جاری ہولناک جنگ کے باوجود امن اور جنگ بندی کی بات نہیں کر سکتے ان پر کوئی کیسے بھروسہ کر سکتا ہے، میں تو اپنی بلی تک ان کے بھروسے نہ چھوڑوں۔‘
،تصویر کا کیپشنمقامی امام اور براڈکاسٹر اجمل مسرور کا کہنا ہے کہ ’سات اکتوبر کے بعد غزہ پر ہونے والے حملوں کی وجہ سے میں بڑی سیاسی جماعتوں کے ردعمل سے بہت مایوس ہو گیا تھا‘
اسی طرح لندن کے علاقے الفورڈ نارتھ میں لیبر کے ویس سٹریٹِنگ کو 23 سالہ فلسطینی برطانوی شہری لی این محمد کا سامنا ہے جنھوں نے غزہ میں جاری جنگ کو اپنی مہم میں مرکزی جگہ دی ہے۔ ایسے اور بھی کئی آزاد امیدوار ہیں جن میں برمنگھم سیلی اوک سے فلسطینی نژاد پروفیسر کامل خواش، ہیلی فیکس سے پروین حسین اور ٹوٹنہیم سے نندتا لال شامل ہیں۔ان امیدواروں کا کہنا ہے کہ ہیلتھ کئیر، این ایچ ایس، معیشت، سکول، امیگریشن کے مسائل ہیں لیکن ان کے حلقوں کے ووٹروں کے لیے ’غزہ سب سے بڑا اور ایک اخلاقی مسئلہ ہے‘ اور اسی لیے وہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے ہونے والے مقامی الیکشن کے بارے میں اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بظاہر لیبر کو غزہ کی وجہ سے کئی کونسلز میں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔لیکن اگر آپ تازہ ترین پولز کا جائزہ لیں تو جہاں لیبر اور کنزرویٹو دونوں پارٹیاں چار چار پوائنٹ نیچے آئی ہیں وہیں لیبر کو اب بھی کنزرویٹو پارٹی پر 20 پوائنٹ کی برتری حاصل ہے۔اس کے علاوہ ایک اور تازہ سروے کے مطابق پانچ میں سے ایک مسلمان ووٹر کے لیے غزہ مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا اثر شاید چند سیٹوں میں نظر آئے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس سے مکمل نتیجے پر کوئی فرق پڑے گا۔
،تصویر کا کیپشنڈاکٹر پلوی رائے کا کہنا ہے کہ ’کئی لیبر ایم پیز کو انتخابی مہم چلانے میں بھی مشکل ہو رہی ہے کیونکہ شاید ان کا ذاتی موقف پارٹی کے موقف سے مختلف ہے‘
ڈاکٹر پلوی رائے (ایس و ایس میں ایسوسی ایٹ پروفیسر) کا کہنا ہے کہ ’کئی لیبر ایم پیز کو انتخابی مہم چلانے میں بھی مشکل ہو رہی ہے کیونکہ شاید ان کا ذاتی موقف پارٹی کے موقف سے ذرا مختلف ہے۔ اس وجہ سے بھی لیبر کو شاید ووٹ شئیر میں نقصان اٹھانا پڑے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’اس بات کے پیش نظر کہ لیبر کے لیے کتنا اہم ووٹ ہے، میرے خیال میں اثر ضرور ہو گا۔ یہ نہیں کہ ایک یا دو سیٹیں ہارنا بہت بھاری پڑ جائے گا لیکن یہ جس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اثر ضرور پڑے گا۔‘غزہ میں جاری جنگ، تباہی کے مناظر، بظاہر نہ رکنے والی ہلاکتیں، وہاں سے آنے والی دردناک تصاویر اور ویڈیوز۔ اس سب کا اثر ہزاروں میل دور برطانیہ کے ان انتخابات پر کیا ہوتا ہے، ہوتا بھی ہے یا نہیں، یہ تو نتائج کے بعد ہی معلوم ہو گا لیکن اس سب کی گونج برطانیہ کے سیاسی منظرنامے میں سنائی ضرور دے رہی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}