مسلح بغاوت کے بعد اب صدر پوتن کیا کریں گے اور یہ صورتحال یوکرین جنگ کو کیسے متاثر کر سکتی ہے؟

پریگوزن

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

صدر پوتن کے ساتھ پریگوزن

ویگنر کے کرائے کے فوجیوں کی بغاوت کے بعد ماسکو میں ہنگامی حفاظتی اقدامات بدستور برقرار ہیں اور بظاہر اس بغاوت نے روسی صدر کی پوزیشن کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

تاہم اس ضمن میں بہت سے سوالات کے جوابات ملنے ابھی باقی ہیں۔

پوتن اب کیا کریں گے؟

صدر پوتن لگ بھگ دو دہائی قبل اقتدار میں آئے تھے۔ مگر گذشتہ 36 گھنٹوں کے دوران جو کچھ ہوا اس نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے برسراقتدار روسی صدرکی اتھارٹی کو سب سے بڑا چیلنج پیش کیا ہے۔

اگرچہ پوتن کے اقتدار کو درپیش فوری خطرہ ٹلتا نظر آ رہا ہے لیکن روسی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے نتیجے میں پوتن بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور وہ مضبوط نظر نہیں آ رہے۔

صدر پوتن کی اس دھوکہ دہی کے خلاف نفرت سینچر کی صبح ٹی وی خطاب کے دوران ان کے سخت رویے سے ظاہر ہوئی جہاں انھوں نے ویگنر کے رہنما یوگینی پریگوزن پر ’پیٹھ پر خنجر گھونپنے‘ اور غداری کا الزام عائد کیا۔

اس خطاب کے بعد سے روس کے صدر کو عوامی سطح پر نہیں دیکھا گیا اور مستقبل قریب میں ان کا کسی نئے صدارتی خطاب کا منصوبہ بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ اتوار کو سرکاری ٹی وی پر پہلے سے ریکارڈ شدہ انٹرویو میں، جو بظاہر بغاوت سے پہلے ریکارڈ کیا گیا تھا، مسٹر پوتن نے کہا کہ وہ یوکرین میں جنگ کی پیشرفت کے معاملے میں پُراعتماد ہیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ آیا صدر پوتن اس وقت روسی دارالحکومت میں ہیں بھی یا نہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسٹر پوتن اس کا کوئی نہ کوئی جواب دیں گے، یا تو یوکرین میں کسی نئے فوجی اقدام کے ذریعے یا پھر وہ روس کے اندر ان لوگوں پر برسیں گے جو ان کے حمایتی نہیں رہے ہیں۔

پولینڈ کے ایم ای پی یعنی رکن یورپین پارلیمنٹ ریڈک سکورسکی نے بی بی سی کو بتایا کہ اب اُن کی حکومت ’زیادہ آمرانہ اور زیادہ سفاک‘ ہو جائے گی۔

روسی صدر پوتن

،تصویر کا ذریعہEPA

پریگوزن بیلاروس میں کیا کرنے جا رہے ہیں؟

بغاوت کے پس پشت یوگینی پریگوزن آزاد ہیں۔ روس کی فوجی قیادت کو گرانے کی کوشش کے باوجود ان کے خلاف مسلح بغاوت کا الزام واپس لے لیا گیا ہے۔ لیکن ہم اس معاہدے کی تمام تفصیلات نہیں جانتے جو کریملن اور ویگنر کے درمیان طے پایا ہے۔

روس کے تجزیہ کاروں کا خیال نہیں کہ پریگوزن رات کی خاموشی میں غائب ہو جائیں گے۔

کرائے کی جنگجوؤں کے رہنما یوکرین کی جنگ میں دسیوں ہزار جنگجوؤں کے لیے ایک بہت ہی باآواز شخصیت رہے ہیں۔ وہ صدر پوتن کے لیے بھی اہم شخصیت رہے ہیں، جو طویل عرصے تک ان کے سائے میں کام کرتے رہے ہیں۔

انھوں نے کریملن کے لیے شام میں لڑائی سے لے کر 2014 میں یوکرین کی لڑائی تک، جب کریمیا کو روس میں شامل کر لیا گیا تھا، کئی سال تک قابل نفرت کام کیے ہیں۔

لیکن صدر پوتن کے اختیار کو چیلنج کرنے کے بعد یہ سوالات سامنے آ رہے ہیں کہ انھیں ان کی سکیورٹی کے لیے کیا ضمانتیں دی گئی ہوں گی اور ان کے آگے بڑھنے کے کردار کے بارے میں ابھی جوابات آنا باقی ہیں۔

مبصرین سوال کر رہے ہیں کہ اگر پریگوزن واقعی منسک جاتے ہیں تو بیلاروس کے رہنما الیگزینڈر لوکاشینکو ان پر کتنا کنٹرول رکھ سکیں گے اور اگر ویگنر کی افواج ان کی پیروی کرتی ہیں تو روس، بیلاروس اور یوکرین کو کیا خطرات لاحق ہوں گے۔

ویگنر

،تصویر کا ذریعہReuters

اب ویگنر گروپ کا کیا ہو گا؟

اس حیران کن مسلح بغاوت سے پہلے دسیوں ہزار کرائے کے ویگنر فوجی صدر پوتن کی یوکرین کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔

پریگوزن اور اس کی افواج انھیں روسی وزارت دفاع میں شامل کرنے کے دباؤ کی مزاحمت کر رہی ہیں اور اس کے خلاف بیزاری کو ایک طویل عرصے سے جاری جھگڑے کو بغاوت میں بدلنے کے ایک اہم عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

لیکن یہ مختصر وقت کی بغاوت کے خاتمے کے ساتھ پریگوزن اب بظاہر جلاوطنی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ایسے میں بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ان کے جنگجو اب کیا کریں گے۔

بظاہر بغاوت میں ملوث افراد کے خلاف الزامات ہٹا لیے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں ویگنر کے فوجیوں کو روستوو آن ڈان شہر سے نکلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جہاں انھوں نے کچھ وقت کے لیے فوجی اڈوں کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ روستوو اور ماسکو کے درمیان آدھے راستے پر واقع وورونز کے گورنر نے کہا ہے کہ ویگنر کی افواج ان کے علاقے سے بھی نکل رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ اب تعاون کرتے ہوئے باقاعدہ روسی فوج میں ضم ہو جائیں گے یا یہ کہ روس کے باقاعدہ فوجی اب رضامندی سے ان کے ساتھ خدمات انجام دیں گے۔

اور کیا وہ یوکرین کے موجودہ تنازعات والے علاقوں میں لڑائی کے لیے لوٹیں گے جیسا کہ روسی سرکاری میڈیا کا کہنا ہے؟ کچھ تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر پریگوزن بیلاروس جاتے ہیں تو ان کے فوجی مغرب تک ان کے پیچھے جائیں گے جو کہ یوکرین کے دارالحکومت کیئو پر حملے کا قریب ترین مقام ہے۔

جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ یوکرین میں جاری جنگ کو کیسے متاثر کرے گا؟

ویگنر گروپ یوکرین میں لڑنے والے سب سے کامیاب حملہ آور فوجیوں میں سے ہیں۔

اس کے بہت سے جنگجوؤں کو جیلوں سے نکالا گیا ہے اور انھیں فرنٹ لائن پر سروس کرنے کے عوض آزادی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ گروپ روس کے باخموت شہر پر قبضہ کرنے میں آگے آگے تھا۔

روس کا دعویٰ ہے کہ اس کی یوکرین مہم پر بغاوت کا اب تک کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔

لیکن روسی افواج نے بلاشبہ سُنا ہو گا کہ ان کے ملک میں کیا ہو رہا ہے اور یہ خبر ان کے لیے مایوس کن ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں حریف اکائیوں کے درمیان لڑائی ہو سکتی ہے اور یہ اس بات پر منحصر ہے کہ سنیچر کے روز رونما ہونے والے واقعات کے بعد روس میں کس قسم کے آفٹر شاکس آتے ہیں۔

جہاں تک یوکرین کا سوال ہے تو انھیں ان خطرات کے علاوہ یہ تشویش ہے کہ روس حملے میں اضافہ کر سکتا ہے اور اپنے فوجی بڑھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین کے فوجی رہنما سرحد پار عدم استحکام سے پیدا ہونے والے مواقع کی تلاش میں بھی ہیں۔

کیئو کی افواج نے روس کے زیر قبضہ علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جوابی کارروائی شروع کر دی ہے اور ان کا خیال ہے کہ روس میں بدامنی ان کے لیے ’ایک موقع‘ فراہم کرتی ہے۔

یوکرین میں سابق امریکی سفیر بل ٹیلر نے بی بی سی کو بتایا کہ یوکرین کی افواج ویگنر جنگجوؤں کی اچانک نقل و حرکت سے سامنے آنے والی حکمت عملی کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ’اچھی پوزیشن‘ میں ہیں۔

امریکہ اور دوسروں کو پہلے سے کیا معلوم تھا؟

جو بائیڈن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جاسوس ایجنسیوں کو پہلے ہی ایسے اشارے ملنے لگے تھے کہ ایسی کوئی کارروائی ہونے والی ہے اور رواں ہفتے کے اوائل میں کانگریس کے اہم رہنماؤں کے ساتھ صدر جو بائیڈن کو ان ایجنسیوں نے بریف بھی کیا تھا۔

سی این این کی رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلیجنس نے دیکھا کہ کرائے کے گروہ کا سرغنہ روس کی سرحد کے قریب ہتھیار، گولہ بارود اور دیگر سامان جمع کر رہا تھا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر بائیڈن نے فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے رہنماؤں سے ان خدشات کے پیش نظر بات کی کہ افراتفری کے دوران روس کے جوہری ہتھیاروں کے وسیع ذخیرے پر مسٹر پوتن کا کنٹرول ختم ہو سکتا ہے۔

اخبار کا کہنا ہے کہ امریکی جاسوس ایجنسیوں کے سربراہان مہینوں سے پریگوزن اور روسی دفاعی حکام کے درمیان بگڑتے تعلقات پر نظر رکھے ہوئے تھے اور انٹیلیجنس نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ یوکرین میں جنگ ویگنر اور باقاعدہ فوج دونوں کے لیے بُری طرح جا رہی تھی۔

دریں اثنا واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ امریکہ کو شاید معلوم ہو گیا ہو کہ پریگوزن جون کے وسط میں کچھ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

ایک اہم محرک 10 جون کو آنے والا روس کی وزارت دفاع کا ایک حکم نامہ تھا جس میں ویگنر گروپ جیسے تمام رضاکار دستوں کو حکومت کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرنے کا حکم دیا گیا تھا جس کا مطلب پریگوزن کے کرائے کے فوجیوں کو اپنے قبضے میں لینا تھا۔

حکام نے اخبار کو بتایا کہ ‘قیادت کو بتانے کے لیے کافی اشارے موجود تھے کہ کچھ ہونے والا ہے۔’ لیکن بغاوت شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے تک پریگوزن کے منصوبوں کی اصل نوعیت واضح نہیں تھی۔

اخبار کا کہنا ہے کہ صدر پوتن کو ان کی اپنی انٹیلیجنس نے بھی بتایا تھا کہ پریگوزن کوئی سازش کر رہے ہیں۔ اخبار نے ہفتے کے روز ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ انھیں یہ کب بتایا گیا لیکن اتنا ہے کہ یہ ‘یقینی طور پر 24 گھنٹے سے زیادہ پہلے’ بتا دیا گیا تھا۔

عوام

،تصویر کا ذریعہARKADY BUDNITSKY/EPA-EFE/REX/SHUTTERSTOCK

روسی عوام کیا سوچتے ہیں؟

بحران کے دوران مسٹر پوتن کا قوم سے خطاب اس بات کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ وہ اس خطرے کو کتنی سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور انھیں روسی عوام کے سامنے خود کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔

روس کی ایک معروف تجزیہ کار تاتیانا سٹینووایا نے ٹیلی گرام پر لکھا: ’اشرافیہ کے اندر بہت سے لوگ ذاتی طور پر پوتن کو اس کے لیے مورد الزام ٹھہرائیں گے کہ سب کچھ اتنا آگے بڑھ گیا اور بر وقت صدر کی طرف سے کوئی مناسب ردعمل نہیں آیا۔ لہذا، یہ پوری کہانی پوتن کی پوزیشن کے لیے بھی ایک دھچکا ہے۔‘

اگرچہ روس کی مجموعی رائے عامہ کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے لیکن روسٹوو شہر میں تماشائیوں کی ویگنر یونٹوں کی تعریف کرتے دیکھ کر ملک کے رہنماؤں کو تشویش ہوئی ہو گی۔

جب ویگنر کے دستے شہر سے نکلے تو ان کا بظاہر حمایتی ہجوم نے استقبال کیا، انھوں نے خوشی کا اظہار کیا، تالیاں بجائیں اور تصاویر کھنچوائیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل انھوں نے اپنی بغاوت کے دوران مؤثر طریقے سے شہر کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔

تاہم یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ویگنر کے آنے کے بعد سنیچر کے روز کچھ رہائشی بظاہر شہر چھوڑنے کے لیے سٹیشن پہنچ گئے تھے۔

BBCUrdu.com بشکریہ