مسجد نبوی میں نعرے بازی: پاکستانی شہری کو سعودی عرب میں تین سال قید کی سزا
- محمد زبیر خان
- صحافی
سعودی عرب کی ایک عدالت نے مقدس شہر مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں پیش آنے والے نعرے بازی کے واقعے پر ایک پاکستانی شہری کو تین سال قید اور دس ہزار ریال جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
رواں سال اپریل کے اواخر میں مسجد نبوی میں یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور ان کا وفد حکومت میں آنے کے بعد سعودی عرب کا دورہ کر رہا تھا کہ کچھ افراد نے مسجد نبوی کے احاطے میں ان کے خلاف ’چور چور‘ کے نعرے لگائے اور دو وزرا سے بدسلوکی کی۔
تفصیلات کے مطابق سزا پانے والے محمد طاہر پر الزام تھا کہ انھوں نے مسجد میں پاکستانی وفد سے بدتمیزی اور افراتفری کی ویڈیو سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کی جو بعد میں وائرل ہوئی۔ ان کی شناخت کے حوالے سے دیگر معلومات جاری نہیں کی گئیں۔
ادھر پاکستانی اینکر سلیم صافی نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا ہے کہ محمد طاہر کا تعلق سابقہ حکمراں جماعت تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تھا۔ تاہم اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کی جاسکی۔
’ویڈیو بنا کر وائرل کرنے پر سزا‘
مدینہ منورہ کی عدالت نے محمد طاہر کو تین سال قید اور دس ہزار ریال جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
عدالتی فیصلے میں تین ججوں نے مشترکہ طور پر جرم کے حوالے سے کہا ہے کہ ملزم نے مسجد نبوی میں ہلا گلا کرنے کی ویڈیو ٹک ٹاک پر وائرل کی اور جرم گواہوں اور ثبوتوں کی روشنی میں ثابت ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق محمد طاہر 30 روز کے اندر اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
چینل جیو نیوز سے گفتگو کے دوران اس پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے اپنے قوانین کے مطابق فیصلہ کیا جو ان کی ذمہ داری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حرمین شریفین کے تقدس کا خیال کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اس وفد میں شامل تھیں جس کے خلاف مسجد نبوی میں نعرے بازی کی گئی
جدہ میں موجودہ صحافیوں کے مطابق اس واقعے کے بعد سے سعودی پولیس نے بڑی تعداد میں گرفتاریاں کی تھیں جس میں سے اکثریت کو ابتدائی تفتیش کے بعد چھوڑ دیا گیا جبکہ پانچ پاکستانیوں کے خلاف مناسب ثبوت اور گواہ موجود ہونے کی بنا پر ان کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
ان پانچ گرفتار پاکستانیوں میں سے ایک پر جرم ثابت ہونے کے بعد مدینہ منورہ کی عدالت نے فیصلہ سنا دیا ہے جبکہ باقی چاروں کے خلاف مقدمہ ابھی ٹرائل میں ہے۔ مقامی صحافیوں کے مطابق جس پاکستانی کو سزا سنائی گئی ہے اس کو مسجد نبوی کے اندر ہنگامہ آرائی کرنے پر نہیں بلکہ اس شور شرابے کی ویڈیو بنا کر وائرل کرنے پر سزا سنائی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اب تک اس واقعے میں گرفتار پاکستانیوں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ جدہ میں موجود صحافیوں کے مطابق اس واقعے کو سعودی پولیس نے انتہائی سنجیدہ لیا ہے۔ اس میں پانچ گرفتاریاں تو موجود ہیں مگر ابھی بھی اس کی تفتیش جاری ہے اور اس میں تحقیقات کے بعد مزید گرفتاریوں کی بھی توقع ہے۔
واضح رہے اپریل کے ماہ کے آخر میں وزیر اعظم شہباز شریف نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے دوران ان کے وفد کے دو ارکان وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور وزیر برائے نارکوٹیکس شاہ زین بگٹی کی مسجد نبوی میں حاضری کے دوران مبینہ طور پر تحریک انصاف کے حامیوں نے نعرے بازی کی تھی جس کی ویڈیو وائرل ہوئی اور اس کی ملکی و غیر ملکی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔ تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں نے اس احتجاج سے لاتعلقی ظاہر کی تھی۔
اس واقعے پر پاکستان میں بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کی پولیس نے توہین مذہب کے الزام میں سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت جماعت کے مرکزی رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
اس مقدمے میں کہا گیا کہ ‘عمران خان، فواد چوہدری، شیخ رشید، شہباز گل، شیخ راشد شفیق، صاحبزادہ جہانگیر چیکو، انیل مسرت، نبیل نسرت، عمیر الیاس، رانا عبدالستار، بیرسٹر عامر الیاس، گوہر جیلانی، قاسم سوری اور تقریباً 100 کے قریب لوگوں نے سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی حرمت و تقدس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قرآن کے احکامات کی واضح خلاف ورزی کی ہے۔’
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ اس مقدمے میں ’عمران خان کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔’ دوسری طرف تحریک انصاف نے اسے سیاسی انتقام قرار دیا۔
رانا ثنا اللہ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’پاکستان سعودی وزارت خارجہ سے درخواست کرے گا کہ وہ مدینہ منورہ میں ہونے والے واقعے پر کارروائی کرے۔ شناخت کر کے ان کو ملک بدر کیا جائے۔
’سعودی حکام سے درخواست کریں گے کہ ملوث افراد کی سی سی ٹی وی فوٹیج ہمیں بھجوائی جائیں تاکہ ان کی شناخت کی جائے اور (یہاں بھی) ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔‘
Comments are closed.