بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

مسجدِ نبوی میں نعرے بازی: عمران خان، تحریک انصاف رہنماؤں کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ

مسجدِ نبوی میں نعرے بازی اور گالیاں، سعودی سفارتخانے کی کئی پاکستانیوں کی گرفتاری کی تصدیق

  • حمیرا کنول
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام آسلام آباد

مریم اورنگزیب

،تصویر کا ذریعہTwitter

،تصویر کا کیپشن

وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب کے خلاف خاص طور پر نازیبا زبان استعمال کی گئی

پاکستان میں موجود سعودی سفارتحانے نے ان اطلاعات کی تصدیق کی ہے کہ مدینہ منورہ میں نعرے بازی کرنے والے پاکستانیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم سعودی عرب میں موجود پاکستانی سفارتخانے کے حکام کا کہنا ہے کہ انھیں ابھی ایسی کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔

جمعرات کی شام پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے وفد میں شامل کچھ اراکین کو مسجد نبوی کی حدود میں داخل ہونے پر وہاں موجود پاکستانیوں کی جانب سے نعرے بازی کا سامنا کرنا پڑا۔

گذشتہ شام سے ہی یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ہنگامہ آرائی کرنے والے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم جمعے کی سہ پہر پاکستانی ذرائع ابلاغ میں سعودی سفارتخانے کے ترجمان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ چند پاکستانیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

بی بی سی نے اس بارے میں سعودی عرب میں موجود پاکستانی سفارتخانے کے حکام سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی ایسی کسی خبر کی تصدیق نہیں کی گئی۔ جو بھی ہو گا وہ پہلے سعودی پریس ایجنسی پر آ جائے گا تب ہی اس کی تصدیق ہو سکے گی۔

پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اپنی ٹویٹ میں کہہ چکے ہیں کہ ’پاکستان سعودی وزارت خارجہ سے درخواست کرے گا کہ وہ مدینہ منورہ میں ہونے والے واقعے پر کارروائی کرے۔ شناخت کر کے ان کو ملک بدر کیا جائے، سعودی حکام سے درخواست کریں گے کہ ملوث افراد کی سی سی ٹی وی فوٹیج ہمیں بھجوائی جائیں تا کہ ان کی شناخت کی جائے اور ان کے خلاف مقدمہ۔’

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف 13 رکنی وفد کے ہمراہ دو روزہ سرکاری دورے پر گزشتہ روز مدینہ منور پہنچے تھے۔

وزیراعظم کے دورے سے قبل سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’مکہ مدینہ والے لوگ دیکھیں ان (پی ایم اور اتحادیوں ) کے ساتھ کل کیا کریں گے۔‘ پھر سب نے دیکھا کہ مدینہ میں مسجد نبوی میں کیا ہوا۔

اس وقت ٹوئٹر پر ٹرینڈ چل رہا ہے کہ مسجد نبوی کی توہین نامنظور۔ اس ہیش ٹیگ کے ساتھ چھ لاکھ سے زیادہ ٹویٹس کی گئی ہیں۔

شہباز شریف، بلاول بھٹو اور وفد کے دیگر اراکین

،تصویر کا ذریعہPrime Minister Office

سعودی عرب میں کسی بھی قسم کے مظاہرے کرنا ممنوع ہے۔ مسجد نبوی اور مسجد الحرام میں آنے والے زائرین کو بھی وہاں کے تقدس کا خیال رکھنے کو کہا جاتا ہے اور لڑائی جھگڑے اور بحث و مباحثے سے روکا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں حرم کے اندر یا باہر سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی ہے۔

وہاں کے مقامی صحافی بتاتے ہیں کہ بدانتظامی کرنے والوں کو عمرہ سکیورٹی پر مامور اہلکار گرفتار کرتے ہیں لیکن انھیں تشدد کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور قاضی انھیں کس نوعیت کی سزا دیتے ہیں یہ کبھی سامنے نہیں آیا۔

پاکستان تحریک انصاف کا ردعمل

اس واقعے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے ٹویٹر ہینڈل اور سابق وفاقی وزرا نے ان ویڈیوز کو شیئر کیا اور اپنے پیغامات میں بظاہر اس واقعے کو عوامی ردعمل کہا۔

سابق وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ’امپورٹڈ حکومت کے مجرموں کو، جنھیں امریکی سازش کے ذریعے لایا گیا، مدینہ شریف میں ’چور چور‘ کے نعروں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ جب بھی جائیں گے پاکستانی ان بدمعاشوں کا پیچھا کریں گے۔‘

اسی طرح فواد چوہدری نے اس واقعے کے بعد طنزاً لکھا ’عمرے کے سرکاری وفد میں جو 74 لوگ نہیں جا سکے انھوں نے آج با جماعت شکرانے کے نوافل ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اور ابھی یہ لوگ حکومت میں ہیں جب لوگ ان کو ایوانوں سے ٹھنڈے مار کر نکال باہر کریں گے پھر یہ گھروں سے کیسے باہر نکلیں گے۔‘

واقعہ کیسے پیش آیا؟

اس واقعے کے عینی شاہدین میں کچھ صحافی بھی شامل تھے۔ ان میں سے ایک مقامی صحافی ذکا اللہ محسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جمعرات کی شام تقریباً پانچ سوا پانچ بجے کے قریب وزیراعظم شہباز شریف کا طیارہ رائل ٹرمینل پر لینڈ ہوا، مدینہ کے گورنر نے ان کا استقبال کیا اور وہیں دونوں حکام کی بیٹھک ہوئی۔ دو طرفہ تعلقات پر رسمی بات چیت ہوئی۔ سکیورٹی اہلکاروں کے ہمراہ یہ قافلہ دارالامان نامی ہوٹل پہنچا تو دو درجن کے قریب لوگ وہاں استقبال کے لیے موجود تھے۔‘

حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کے علاوہ بلاول بھٹو، شاہ زین بگٹی اور دیگر رہنماؤں سمیت وفد میں 13 افراد شامل تھے۔

شاہ زین بگٹی

،تصویر کا ذریعہTwitter

،تصویر کا کیپشن

سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شاہ زین بگٹی کے بال نوچے گئے

مقامی صحافی نے بتایا کہ ’ہوٹل پہنچنے کے بعد وزیراعظم اور ان کا وفد لفٹ کے ذریعے کمروں میں چلے گئے اور پھر 20 منٹ کے وقفے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف، شاہ زین بگٹی اور مریم اورنگزیب واپس ہوٹل کی لابی میں آئے۔ وزیراعظم شہباز شریف ہوٹل کے عقبی جانب سے برقی گاڑیوں میں بیٹھے اور پروٹوکول کے لوگوں کے ہمراہ مسجد نبوی میں پیغمبر اسلام کے روضے پر حاضری کے لیے روانہ ہوئے۔’

اس وقت نماز مغرب یعنی افطاری میں پندرہ منٹ باقی تھے، چونکہ روضہ رسول پر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ جگہ ہے اس لیے مریم اورنگزیب ان برقی گاڑیوں کے بجائے پیدل چلتے ہوئے مسجد کی جانب آئیں اور ان کے ہمراہ شاہ زین بگٹی تھے۔

شہباز شریف

،تصویر کا ذریعہPM Office

ذکا اللہ بتاتے ہیں کہ ’مسجد نبوی کی عمرہ فورسز سے منسلک کچھ سکیورٹی اہلکار بھی موجود تھے جو ہجوم میں ان کے لیے راستہ بنانے میں مدد کر رہے تھے۔ وہاں ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین موجود تھے۔ جیسے ہی لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ سکیورٹی کے ساتھ موجود کچھ لوگ ہیں تو کچھ نے اردگرد لوگوں نے پوچھا کہ کون آیا ہے اور پھر وہاں چور چور، ڈاکو ڈاکو کے نعرے لگنے لگے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ `لیکن مریم اورنگزیب کو دیکھتے ہی لوگوں نے چور چور کے علاوہ انھیں ان ناموں سے پکارا جو سوشل میڈیا میں ان کی ہتک اور تمسخر میں ایک سیاسی جماعت کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت شاہ زین بگٹی مریم کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن لوگوں نے ان کے بالوں کو کھینچا اور ان پر بھی مختلف جملے کسے۔‘

یہ معاملہ بھرپور نعرے بازی پر جا کر رکا، ماحول کشیدگی اختیار کر چکا تھا جبکہ ارد گرد موجود ہزاروں لوگوں کے افطار کے لیے دستر خوان بچھے ہوئے تھے۔

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

مقامی صحافی نے بتایا کہ ’افطار سے چار پانچ منٹ پہلے ماحول میں کشیدگی اور نعرے بازی تھمی۔ ہم سمیت بہت سے لوگوں نے نعرے بازی کرنے والوں کو کہا کہ دیکھو تم کیا کہہ رہے ہو مسجد کا تقدس پامال مت کرو۔ یہ ادب کی جگہ ہے ادب سے آگے بڑھو، یہ دیکھو کہ تم کھڑے کہاں ہوں، پلیز ایسا نہ کرو۔‘

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اور ان کے اتحادی وزرا کے خلاف نعرے بازی کرنے والوں میں خواتین شامل نہیں تھیں۔

فوٹیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس سارے واقعے کے دوران سیاہ برقعے میں ملبوس مریم اورنگزیب نے جملے اور آوازیں کسنے والوں کو کوئی جواب نہیں دیا اور مسکراتے ہوئے چلتی رہیں۔ پھر افطاری ہوئی اور دس منٹ کے لیے نماز کا وقفہ ہوا۔

وزیراعظم نے اپنے وفد کے ہمراہ روضہ رسول پر حاضری دی اور نماز ادا کرنے کے بعد برقی گاڑی میں دوبارہ ہوٹل لوٹ آئے۔

مریم اورنگزیب ہوٹل دارالامان کی لابی میں گئیں تو وہاں موجود مرد و خواتین نے ان سے اظہار ہمدردی کیا اور کہا کہ جس جگہ موجود ہیں یہاں یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیے:

خالد رانا مسلم لیگ ن سے منسلک ہیں اور وہ بھی اس واقعے کے عینی شاہدین میں شامل ہیں۔

میں نے ان سے پوچھا کہ کیا پہلے کبھی حرم میں ایسا واقعہ ان کی جماعت کے رہنماؤں کے ساتھ پیش آیا ہے تو ان کا جواب تھا کہ وہ گزشتہ کئی سال سے یہاں آ رہے ہیں۔ پہلے بھی کبھی کہیں سے گزرتے ہوئے کبھی حمایت اور کبھی مخالفت میں پاکستانیوں کے نعرے سنائی دیتے تھے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ گزشتہ شام کے واقعے کے بعد ہوٹل کے اندر سکیورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے۔ ’ہم نے مسلح سکیورٹی اہلکاروں کو بہت کم مسجد نبوی میں دیکھا ہے۔ لیکن اس واقعے کے باعث مسلح سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ وہاں دارالامان ہوٹل کی لابی میں پاکستانی وزیراعظم سے ملنے کے لیے بہت لوگ تھے لیکن سکیورٹی اہلکاروں نے بہت اچھے انداز میں ان لوگوں کو باہر بھجوا دیا۔

خالد رانا نے مزید بتایا کہ آج وزیراعظم نے غزوہ احد کے مقام کا دورہ کیا اور مسجد نبوی میں جمعے کی نماز ادا کی اور آج کوئی بدمزگی نہیں ہوئی۔

اس واقعے کے عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جو انھوں نے مسجد نبوی کی حدود میں دیکھا ہے۔

’نعرے لگانے والوں کی تعداد کتنی تھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ سینکڑوں نہیں تو درجنوں تو ضرور تھے۔ نوجوان جارحانہ انداز میں تھے اور میں نے مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے ورکروں کے درمیان تلخ کلامی بھی دیکھی گئی۔‘

مقامی صحافی کہتے ہیں کہ ’یہاں سکیورٹی کا قانون موجود ہے۔ لڑائی جھگڑا کرنے والوں کو مسجد میں موجود سکیورٹی اہلکار گرفتار تو کر سکتے ہیں لیکن ان پر تشدد نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ ہنگامہ آرائی کی نوعیت کے لحاظ سے کم ازکم چھ ماہ قید اور ایک لاکھ ریال تک جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔‘

مریم اورنگزیب کا موقف ’میں نے ان کی ہدایت کے لیے دعا کی‘

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ مخصوص لوگوں نے مسجد نبوی کا تقدس پامال کیا۔ ’ان کے لیڈر نے بدتمیری کے سوا اور کچھ نہیں سکھایا۔‘

’میں نے درود شریف پڑھتے ہوئے ان تمام لوگوں کے لیے ہدایت کی دعا کی۔ جو لوگ انھیں اکساتے ہیں، مجبور کرتے ہیں، جو لوگ اس کا جشن مناتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، تو یہ افسوسناک ہے (اور میں نے) ان کے لیے بھی ہدایت کی دعا کی۔‘

ان کا کہنا تھا ‘میں اس زمین کو سیاست کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہتی۔ ہمارے کارکنان کو ہدایت دی گئی ہے کہ مکہ اور مدینہ کے احاطے میں ان کو دیکھ کر کوئی بدتمیزی نہ کریں۔ یہی فرق ہے ان لوگوں میں اور ہم میں۔‘

سوشل میڈیا پر اس واقعے پر شدید ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔

میرو انصاری نے لکھا ہم بحیثیت قوم شرمندہ ہیں۔ خیام حسین نے لکھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیسی سیاست ہے۔ یہ کیسی سیاست ہے جس نے نوجوانوں کے دماغ تباہ کر دیے ہیں۔

عمر خلیل گجر نے لکھا ’آج میرا دل مدینہ کی ویڈیو دیکھ کر رو رہا ہے۔ رسول نے اقدار، امن اور برداشت کا سبق اپنی پوری زندگی دیا تھا۔‘

بہت سے ٹویٹر صارف مریم اورنگزیب کی جانب سے اس سارے واقعے پر صبر کا مظاہرہ کرنے پر ان کو داد دے رہے ہیں۔ معروف مصنفہ نورالہدیٰ شاہ جو سعودی عرب میں ماضی میں پیش آنے والے واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پاکستانی سیاست دانوں کو ایک پیغام دیتی ہیں۔

’آپ کی سوچ اورحجاج بن یوسف کےعمل میں کیا فرق ہے؟ حجاج بھی اپنےعمل کو صحیح سمجھتے ہوئے کعبہ پرمنجنیقیں برسانے کو درست سمجھتا تھا کیونکہ وہاں مخالفین پناہ لیے ہوئے تھے۔ مسجدِ نبوی میں گھوڑے باندھ کر3 دن مدینے میں مخالفین کو اپنی دہشت سے لرزاتا رہا۔ حجاج کی طرح آپ بھی مدینےمیں دہشت پھیلانے کو صحیح سمجھتے ہیں!‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.