بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

مستقبل کا لڑاکا طیارہ جو پائلٹ کا ذہن تک پڑھ سکے گا

ٹیمپیسٹ: مستقبل کا لڑاکا طیارہ جو پائلٹ کا ذہن پڑھ سکے گا

  • مائیکل ڈیمپسی
  • بزنس ٹیکنالوجی رپورٹر

ٹیمپیسٹ کا ڈیجیٹل ماڈل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ٹیمپیسٹ کا ڈیجیٹل ماڈل

دوسری جنگ عظیم کے دوران ’سپٹ فائر‘ نامی لڑاکا طیارہ اڑانے والے پائلٹس نے اکثر اس جہاز کے بارے میں کہا کہ ’یہ ایسے ردعمل دیتا تھا جیسا کہ اُن (پائلٹوں) کے جسمانی اعضا کا ہی ایک حصہ ہو۔‘

سنہ 2030 میں لڑاکا پائلٹوں اور اُن کے جنگی طیاروں کے درمیان اس سے بھی گہرا تعلق قائم ہو جائے گا کیونکہ یہ طیارے جان سکیں گے کہ انھیں اڑانے والا پائلٹ کیا سوچ رہا ہے۔

’ٹیمپیسٹ‘ نامی یہ طیارہ پائلٹوں کا ذہن پڑھ سکے گا۔

ٹیمپیسٹ نامی جیٹ طیارہ برطانیہ کا ’بی اے ای سسٹمز‘ نامی ادارہ رولز رائس، یورپی میزائل گروپ، ایم ڈی بی اے اور اٹلی کی ’لیانورڈو‘ کمپنی کے اشتراک سے تیار کر رہا ہے۔

اس طیارے کی ایک خصوصیت اس کی مصنوعی ذہانت ہو گی جو ایسے وقت میں پائلٹ کی معاونت کرے گی جب وہ شدید دباؤ کا شکار ہو گا۔

پائلٹ کے ہیلمٹ میں موجود حساس سینسر اُس کے دماغ کے سگنلز اور طبی ڈیٹا کا جائزہ لیتے رہیں گے۔ اس طرح کئی پروازوں کے بعد طیارے کی مصنوعی ذہانت وسیع پیمانے پر بائیو میٹرک اور سائیکو میٹرک ڈیٹا جمع کر لے گی۔

پائلٹ کی مخصوص خصوصیات پر مشتمل یہ لائبریری جہاز کی مصنوعی ذہانت کو اس قابل بنا دے گی کہ وہ کسی بھی وقت میں یہ محسوس کر سکے گا کہ پائلٹ کو اس کی معاونت کی ضرورت ہے یا نہیں۔

مثال کے طور پر اگر پائلٹ جہاز اڑاتے وقت کشش ثقل کی قوت کی وجہ سے ہوش کھو بیٹھے تو مصنوعی ذہانت طیارے کا کنٹرول سنبھال لے گی۔

حال ہی میں منعقد ہونے والے ’فیرن برو‘ فضائی شو میں بی اے ای سسٹمز نے کہا کہ سنہ 2027 تک یہ لنکا شائر میں وارٹن پلانٹ سے ایک ایسے ہی طیارے کی ٹیسٹ پرواز بھرنے کی پوزیشن میں ہو گا جس کے دوران اس کی چند نئی ٹیکنالوجیز کا جائزہ لیا جائے گا۔

اس پہلے جہاز کو 60 کے قریب پراجیکٹس کے دوران اس کی مختلف صلاحیتوں کو پرکھا جا سکے گا جن میں سے چند صرف سافٹ ویئر تک محدود ہوں گے۔

ٹیمپیسٹ لڑاکا طیارے

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

2018 میں جاری ٹیمپیسٹ لڑاکا طیارے کی پہلی تصویر

واضح رہے کہ ٹیمپیسٹ لڑاکا طیارے کی پہلی بار تصاویر سنہ 2018 میں جاری کی گئی تھیں۔ اس کے بعد سے اس میں کافی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ اس کا وزن کم ہو چکا ہے اور اس کا حجم بھی کم کیا گیا ہے۔

آخر کار جب کبھی ٹیمپیسٹ طیارہ فضا میں محو پرواز ہو گا تو اس کے ساتھ خودکار لڑاکا ڈرون بھی اڑیں گے جو اس کے ساتھی ہوں گے۔

لیکن اس قسم کی سائنسی ترقی کو ممکن بنانے کے لیے کنٹرول اور مانیٹرنگ کے بلکل نئے سسٹمز تیار کرنے ہوں گے۔

ٹیمپیسٹ کے بزنس ڈویلیپمنٹ ڈائریکٹر جان سٹاکر کہتے ہیں کہ ’ٹیکنالوجی میں تبدیلی کی رفتار سے ہم قدم ہونا پڑے گا۔‘

’ماضی میں دفاعی خرچہ ڈرونز پر ہی مرکوز رہا جس کے بعد اس کی کمرشل ٹیکنالوجی بھی سامنے آئی۔ اب کمرشل ٹیکنالوجی زیادہ تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔‘

جان سٹاکر کا ماننا ہے کہ وہ اس طرح کا لڑاکا طیارہ تیار کر سکیں گے جس میں سسٹمز کو اتنی ہی آسانی سے اپ گریڈ کیا جا سکے گا جیسے سمارٹ فون پر کسی ایپ کو ڈاون لوڈ کیا جاتا ہے۔

ٹائیفون طیارہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ٹائیفون طیارہ

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

یہ بھی پڑھیے

اس طیارے کی تیاری بھی بڑی حد تک خودکار نظاموں کے ذریعے ہی ہو گی۔ پروڈکشن لائنز پر موجود روبوٹ سپلائر کو اعداد و شمار فراہم کرتے رہیں گے تا کہ درکار حصے وقت پر فراہم کیے جا سکیں۔

اس پراجیکٹ کے دوران بی اے ای سسٹمز اور لیانورڈو جاپان کی مٹسوبیشی سے بھی تعاون کریں گے جس کا ایف ایکس طیارے کا پراجیکٹ کافی حد تک ٹیمپیسٹ سے مماثلت رکھتا ہے۔

یورپی فضائی بزنس کے لیے یہ ایک مکمل طور پر نیا تجربہ ہے لیکن جاپان سے شراکت داری اس لیے ممکن ہو سکی کیوں کہ پراجیکٹس ڈیجیٹل حالت میں موجود ہیں۔

جان سٹاکر ازراہ مذاق کہتے ہیں کہ ’ڈیجیٹل دنیا میں آپ کچھ بھی بہت تیزی سے بدل سکتے ہیں، شراکت داری آسان ہے۔ ہم ٹوکیو اور وارٹن کے درمیان بریف کیس اٹھا کر نہیں گھوم رہے۔‘

اس مقصد کے لیے ایسے افراد اور ترجمانوں کو بھی رکھا گیا ہے جو تکنیکی معاملات پر انگریزی اور جاپانی دونوں زبانوں میں باآسانی بات چیت کر سکتے ہیں۔

لیانورڈو کمپنی سکاٹ لینڈ میں ایڈنبرگ میں موجود ریڈار سسٹم کے منصوبے پر بھی مٹسوبیشی سے مل کر کام کر رہی ہے۔

اس منصوبے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ روایتی ریڈار کی بجائے، جو ایک گھومتی ڈش سے سگنلز بھیج کر آنے والوں کا جائزہ لیتا ہے، سینسر ڈیٹا کا ڈیجیٹل جائزہ لیا جائے۔

تاہم سینسر اتنی زیادہ معلومات اکھٹی کر لیتے ہیں کہ انسانی دماغ ان کا جائزہ لینے کے قابل نہیں رہتا۔ اسی لیے مصنوعی ذہانت کا کردار اہم ہو جاتا ہے۔

ٹیمپیسٹ جہاز بنانے والوں کو امید ہے کہ مصنوعی ذہانت پائلٹ کو اس قابل بنا دے گی کہ وہ موصول ہونے والی معلومات کے بہاؤ کی وجہ سے دباؤ کا شکار نہیں ہو گا۔

یہ پورا منصوبہ ایم بی ڈی اے اسلحہ ساز کمپنی کے ساتھ ساتھ تیار ہو رہا ہے جس کے تحت ٹیمپیسٹ سے میزائل فائر ہوں گے تو ان کو اس کے ساتھی ڈرون کے حوالے کر دیا جائے گا جو ہدف تک پہنچنے میں اس کی معاونت کرے گا۔

لیکن یہ منصوبہ مکمل طور پر نئے انجن کی تیاری پر انحصار کر رہا ہے۔ رولز رائس کمپنی ٹیمپیسٹ طیارے کو توانائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر ڈیجیٹل سسٹم بھی تیار کرے گی۔

ٹیمپیسٹ جنگی طیارے کا انجن رولز رائس کمپنی تیار کرے گی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ٹیمپیسٹ جنگی طیارے کا انجن رولز رائس کمپنی تیار کرے گی

اس جہاز پر جس تعداد اور رفتار میں ڈیٹا اکھٹا ہو گا، وہ اس کو ایسے ہی گرما دے گا جیسا کہ ایک لیپ ٹاپ ہوتا ہے جس پر کام کا دباؤ زیادہ ہو۔

اس وقت رولز رائس کے انجینیئر اس سوچ میں پڑے ہیں کہ ٹیمپیسٹ کو ڈرونز کے ساتھ پرواز میں رکھتے ہوئے اس حدت کو کس طرح کم کیا جائے۔

جان وارڈل رولز رائس کے مستقبل کے پروگرامز کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم سسٹم کے ہر حصے کو توانائی دیں۔‘

برطانیہ کی حکومت نے اب تک اس منصوبے کے لیے دو ارب ڈالر مختص کیے ہیں لیکن یہ رقم کہیں اوپر تک جائے گی۔

لیکن ایک اہم سوال باقی ہے؟ برطانیہ پہلے سے موجود اور ٹائیفون طیارے ہی کیوں نہیں تیار کر لیتی؟

بی اے ای سسٹمز کا کہنا ہے کہ 2040 تک برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو نئے خطرات اور جدید ہتھیاروں کا سامنا ہو گا جن کے جواب میں بہتر اور موزوں ٹیکنالوجی درکار ہے اور وہ ٹیمپیسٹ کی شکل میں سامنے آئے گی۔

ٹائیفون طیارے کی برآمدگی میں کامیابی بھی برطانیہ کی حکومت کی ٹیمپیسٹ طیارے میں دلچسپی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کمپنی کا دعوی ہے کہ 12 ارب ڈالر کی سرکاری سرمایہ کاری سے تیار ہونے والے ٹائیفون طیارے نے اب تک برطانوی معیشت کو 21 ارب ڈالر فراہم کیے ہیں جبکہ 20000 نئی نوکریاں بھی پیدا ہوئیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لڑاکا طیارہ تیار کرنے والے اور برطانیہ کی حکومت اپنے نئے مستقبل کے لڑاکا طیارے سے بھی ایسی ہی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.