- مصنف, روحان احمد
- عہدہ, بی بی سی اردو
- 2 گھنٹے قبل
حزب اللہ نے اپنے سربراہ حسن نصر اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے اور اس خبر پر پہلا ردِعمل دیتے ہوئے ایران کے رہبرِ اعلیٰ نے کہا ہے کہ ’خطے میں تمام مزاحمتی تنظیمیں حزب اللہ کے ساتھ ہیں اور اس کی حمایت کرتی ہیں۔‘ایرانی رہبرِ اعلیٰ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ’خواتین، بچوں اور عام شہریوں کے اجتماعی قتل سے مزاحمتی تںطیم کی طاقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی اسے تباہ کیا جا سکتا ہے۔‘اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی گذشتہ برس سات اکتوبر کے بعد سے ہی جاری ہے لیکن رواں ہفتے اس کشیدگی میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب حزب اللہ نے اسرائیل پر حملے کیے اور اسرائیل نے لبنان پر فضائی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا۔پیر سے لبنان میں شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 700 سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں۔
ایسے میں یہ سوال بھی اُٹھ رہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے اہم اتحادی کے خلاف کارروائیوں اور سینیئر رہنماؤں کی ہلاکتوں پر ایران کی جانب سے خاموشی اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیوں کیا جا رہا ہے؟لبنان میں حزب اللہ کے خلاف شروع ہونے والی اسرائیلی کارروائیوں کے بعد ایران کی جانب سے سفارتی سطح پر تو سرگرمیاں دیکھنے میں آئی ہیں لیکن اس معاملے تہران کی جانب سے اب تک کوئی عسکری کارروائی نہیں کی گئی ہے۔حالیہ دنوں میں ایران نے اسلامی تعاون تنظیم اور اقوام متحدہ میں اسرائیلی حملوں کا معاملہ ضرور اُٹھایا ہے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اس حوالے سے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ لبنان اور غزہ میں اسرائیلی حملوں پر خاموشی کے سبب مستقبل میں پوری دنیا کے عوام کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق انھوں نے حزب اللہ پر کیے جانے والے حملوں کو ’جنگی جرائم‘ قرار دیا اور کہا کہ ان حملوں پر اسرائیل اور امریکہ کا احتساب ہونا چاہیے۔اس سے قبل رواں برس اپریل میں اسرائیل نے دمشق میں بھی ایرانی سفارتی عمارت کو نشانہ بنا چکا ہے جس میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سات اہلکار اور چھ شامی باشندے ہلاک ہوئے تھے۔اس کے کچھ روز بعد ایران نے اسرائیل پر تقریباً 300 ڈرونز اور میزائلوں کے ذریعے حملہ کیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
مشرقِ وسطیٰ میں ’مزاحمت کا محور‘ نیٹ ورک کیا ہے؟
یہی سمجھا جاتا ہے کہ ایران میں تمام اہم فیصلے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی مرضِی سے لیے جاتے ہیں۔ وہ حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے بعد ایک بیان میں کہتے ہیں کہ: ’خطے میں تمام مزاحمتی تنظیمیں حزب اللہ کے ساتھ ہیں اور اس کی حمایت کرتی ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ حزب اللہ کے سربراہ کے ’خون کا بدلہ لیا جائے گا۔‘ان کے بیان سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان کا اشارہ شاید ’محورِ مزاحمت‘ یا ایکسز آف رزسٹینس کی طرف ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ایران کے ساتھ تعلقات رکھنے والے مسلح گروہوں کی بہتات ہے، جن میں غزہ میں حماس، لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثی، اور عراق، شام اور بحرین میں سرگرم دیگر گروپ شامل ہیں۔’مزاحمت کے محور‘ کے نام سے جانے جانے والے ان میں سے بہت سے گروہوں کو مغربی ممالک نے دہشت گرد گروہ قرار دیا ہے، اور تھنک ٹینک کرائسز گروپ میں ایرانی امور کے ماہر علی واعظ کے مطابق، ان کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ ’خطے کو امریکہ اور اسرائیل سے لاحق خطرات سے بچایا جائے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’ایران سمجھتا ہے کہ اسے سب سے بڑا خطرہ امریکہ سے ہے اور پھر اس کے فوراً بعد اسرائیل ہے، جسے ایران خطے میں امریکہ کے گماشتے کے طور پر دیکھتا ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’ایران کی طویل المدتی حکمتِ عملی نے یہ ناقابل یقین نیٹ ورک بنایا ہے جو اسے اپنی طاقت دکھانے کی اجازت دیتا ہے۔‘تہران نے 45 سال قبل ملک میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد سے عسکریت پسند گروپوں کی حمایت کی ہے، اور وہ 1980 کی دہائی کے اوائل سے ہی حکومت کی قومی سلامتی کی حکمت عملی کا ایک نمایاں حصہ بن گئے تھے۔حسن نصراللہ کی ہلاکت پر یمن کے حوثیوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ حزب اللہ کے سربراہ کی موت کا سوگ منا رہے ہیں اور حزب اللہ کے لیے ان کی ’حمایت بڑھے گی اور مضبوط ہو گی۔‘دوسری جانب حماس کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ ’قابضین کے جرائم اور قتل و غارت گری سے فلسطین اور لبنان میں مزاحمت کے عزم میں اضافہ ہوگا۔‘مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ خطے میں بڑی جنگ ناگزیر تو نہیں لیکن گذشتہ 24 گھنٹوں میں رونما میں ہونے والے واقعات کے سبب اس کے امکانات ڈرامائی طور پر بڑھ گئے ہیں۔بی بی سی کے نامہ نگار برائی سکیورٹی امور فرینک گارڈنر کہتے ہیں کہ ’زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ہمیں اب اس تنازع میں عراق اور شام میں موجود ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروہ مزید متحرک نظر آئیں گے۔‘امریکی تھنک ٹینک نیولائنز انسٹٹیوٹ کے ڈائریکٹر کامران بخاری بھی کہتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے حالات کا دارومدار ایرانی ردِعمل پر ہوگا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’خامنہ ای اور پاسدارانِ انقلاب کے لیے کچھ نہ کرنا مشکل ہو گا‘
مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں نظر رکھنے والے محققین یہ کہتے ہیں کہ حسن نصر اللہ کی موت پر ایرانی ردِ عمل پر بات کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ماضی میں اس طرح کے حملوں پر ایران کا کیا جواب آیا ہے۔واشنگٹن انسٹٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے سابق سینیئر فیلو فِلپ سمتھ کہتے ہیں کہ ’اس سے پہلے بھی پاسدارانِ انقلاب اور لبنانی حزب اللہ کے اعلیٰ عہدیدار مارے گئے ہیں، اس وقت ایران کی جانب سے جو ردِعمل آیا وہ ایرانی طاقت کا کوئی خاطر خواہ مظاہرہ نہیں تھا۔‘’میرے خیال میں حسن نصراللہ کو اس لیے ہی مارا گیا ہے کیونکہ اسرائیل نے بالآخر ایران کی حکمت عملی کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔‘وہ کہتے ہیں کہ اس سے قبل امریکہ بھی عراق میں پاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی اور عراقی عسکری گروہ کے سربراہ ابو مہدی مہندس کو ہلاک کر کے یہ اقدام کر چکا ہے۔لیکن فلپ سمتھ کہتے ہیں ’اس بات کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ ایران اور حزب اللہ اسرائیل پر جوابی وار نہیں کر سکتے کیونکہ صرف عراق میں ایران کو 55 سے زیادہ گروہوں کی حمایت حاصل ہے۔‘ان کے مطابق یمن میں حوثی بھی بین الاقوامی تجارت کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ ماضِی میں اپنے حملوں سے یہ بات ثابت بھی کر چکے ہیں۔’ایران اور حزب اللہ سمیت اس کے حمایت یافتہ تمام گروہ اسرائیل کو کوئی بڑا ردِ عمل تو دینا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کرسکتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ آیت اللہ علی خامنہ ای اور پاسدارانِ انقلاب کے لیے اب بھی کچھ نہ کرنا بہت مشکل ہو گا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.