’مرد پہلے مدد کی پیشکش کرتے، پھر مجھ سے اور میری نوعمر بیٹیوں سے جنسی تعلق کا مطالبہ کرتے‘

علامتی تصویر
،تصویر کا کیپشن

تولین کہتی ہیں ’میں نے مہینوں سے گوشت نہیں کھایا ہے، لیکن میں خود کو نہیں بیچوں گی‘

چھ بچوں کی ماں تولین نے جنسی اور معاشی استحصال کا سامنا کرنے کے باوجود شام واپس نہ جانے کا عزم کر رکھا ہے۔

وہ ملک شام میں ایک استانی تھیں لیکن اب ترکی میں باورچی کے طور پر کام کرتی ہیں اور ماہانہ 6000 ترک لیرا (220 ڈالر) کماتی ہیں۔ یہ ترکی میں کم سے کم اجرت (420 ڈالر ماہانہ) کا بھی نصف ہے۔

42 سالہ تولین (فرضی نام) کہتی ہیں کہ ان کے ہمراہ شام سے ترکی آنے والے اُن کے شوہر یہاں روزگار کے نامساعد حالات کا مقابلہ نہیں کر سکے چنانچہ دو سال قبل وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کو ترکی ہی میں چھوڑ کر شام واپس چلے گئے۔ شوہر کے واپس چلے جانے کے بعد اُن کی زندگی اور بھی پیچیدہ ہو گئی۔

ترکی میں مرد انھیں مدد یا نوکری کی پیشکش کرتے تھے، لیکن جب انھیں پتہ چلتا کہ وہ ایسی عورت ہیں جنھیں شوہر کا ساتھ میسر نہیں تو وہ اُن کی یا ان کی نوعمر بیٹیوں سے ’جنسی تعلق‘ کا مطالبہ کرتے تھے۔

وہ کہتی ہیں ’باس نے ایک بار میرا بازو پکڑا، میں نے اسے دھکا دیا اور بھاگ گئی۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہم خود کو تھوڑے سے کھانے یا پیسوں کے عوض بیچ دیں گے۔ میں نے مہینوں سے گوشت نہیں کھایا ہے، لیکن میں خود کو نہیں بیچوں گی۔‘

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ترکی نے سرکاری طور پر 33 لاکھ سے زیادہ شامی شہریوں کو پناہ دے رکھی ہے

تولین کے شوہر نے شام میں دوسری شادی کر لی اور اب وہ وہاں ایک نئی اور الگ زندگی گزاررہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’اگر میں شام واپس جاتی ہوں، تو میرے بچوں کی تعلیم متاثر ہو گی۔ مجھے یہاں بھوک، ہراسانی اور غیر ملکیوں سے نفرت جیسے مسائل سے لڑنا پڑتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں شاید واپس نہیں جا سکتی۔‘

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ترکی نے سرکاری طور پر 33 لاکھ سے زیادہ شامی شہریوں کو پناہ دے رکھی ہے۔

شامی عام طور پر ترکی میں ٹیکسٹائل، زراعت، کیٹرنگ اور تعمیرات جیسے شعبوں میں کام کرتے ہیں جہاں غیر رجسٹرڈ روزگار عام ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً دس لاکھ شامی پناہ گزین بغیر حکومتی اجازت کے کام کر رہے ہیں۔ اور غیرقانونی طور پر کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انھیں سماجی تحفظ تک رسائی حاصل نہیں ہے اور انھیں اکثر مقرّر کردہ کم از کم اجرت سے کم تنخواہ دی جاتی ہے۔

ترکی کے لیبر قوانین کے مطابق اگر کوئی آجر کسی غیر ملکی کو ملازمت دینا چاہتا ہے تو اسے کم از کم اجرت سے تین گنا زیادہ اجرت ادا کرنا ہو گی۔

یہی وجہ ہے کہ بہت سے آجر ورک پرمٹ جاری نہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پناہ گزینوں کو بہت کم ادائیگی کر سکتے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں صرف پانچ ہزار شامی خواتین کے پاس ورک پرمٹ ہیں۔ ترکی میں افراطِ زر کی شرح 56 فیصد ہے اور ملک کو ضروریاتِ زندگی کے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ شامی خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں اپنی ملازمت برقرار رکھنے کے لیے جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

علامتی تصویر
،تصویر کا کیپشن

لامیا کو کام کے دوران بھی مسلسل جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا

لامیا مجھے سیڑھیاں چڑھ کر اس خستہ حال عمارت میں لے گئیں جہاں وہ رہتی ہیں۔ یہاں ہمیں گندے پانی کی تیز بو محسوس ہوئی۔

وہ پانچ بچوں کی تنہا ماں ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس یہاں آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ جس فلیٹ میں وہ پہلے رہتی تھیں وہاں ہر وقت چوریاں ہوتی تھیں جبکہ مقامی لوگ انھیں یہ طعنہ بھی دیتے تھے کہ یہ وہ گھر ہے جہاں مرد نہیں ہے۔

38 سالہ لامیا نے بتایا کہ ’میں رات کو سو نہیں سکتی تھی کیونکہ میں اپنے بچوں کی نگرانی کرتی تھی۔ میں ڈر گئی تھی چنانچہ مجھے وہاں سے نکلنا پڑا۔‘

لامیا کہتی ہیں کہ انھیں کام کے دوران بھی مسلسل جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

’جب آپ ایک طلاق یافتہ اکیلی عورت ہوں، تو سب کی نظریں آپ پر ہوتی ہیں۔ وہ مسلسل آپ کا پیچھا کرتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کام پر تنہا عورت کا ہونا مردوں کے لیے ایک مقناطیس کی طرح ہے۔ زیادہ تر مرد پہلے مدد یا نوکری کی پیشکش کے ظاہری ارادے کے ساتھ مجھ سے رابطہ کرتے ہیں لیکن پھر وہ مجھے بتاتے ہیں کہ وہ واقعی مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔‘

’میں نے سیکھا ہے کہ کام پر کسی کو یہ نہیں بتانا کہ میرا کوئی شوہر نہیں ہے۔ اس سے پہلے میرے ایک باس کو پتہ چلا کہ میرے شوہر چلے گئے ہیں تو انھوں نے میرا پیچھا کرنا شروع کر دیا اور مجھے لگاتار فون کرنے لگے۔ مجھے مجبور ہو کر وہ نوکری چھوڑنی پڑی۔‘

قریب ہی واقع ایک اور گھر میں دو اکیلی شامی مائیں اخراجات کو بانٹنے کے لیے ایک ساتھ رہتی ہیں۔

علامتی تصویر
،تصویر کا کیپشن

رعنا کہتی ہیں کہ انھیں اب ترکی میں اپنے بچوں کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا

رعنا بغیر اجازت نامے کے ٹیکسٹائل ورکشاپ میں کام کرتی ہیں اور کم از کم اجرت سے بہت کم کماتی ہیں جبکہ یسریٰ گھر پر رہتی ہیں اور اپنے چار بچوں اور اپنی بوڑھی ماں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں کام کی جگہ اور وسیع تر کمیونٹی میں ہراسانی اور غیر ملکیوں سے نفرت جیسے سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے، ساتھ ہی اکیلی ماں ہونے کی سماجی بدنامی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔

بڑی امیدوں کے ساتھ ترکی آنے کے بعد رعنا کہتی ہیں کہ انھیں اب یہاں اپنے بچوں کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔

’ہم جو پیسہ کماتے ہیں، وہ کرائے اور بلوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ہم ہر وقت بھوکے رہتے ہیں اور سب سے بڑھ کر باہر سب ہم سے نفرت کرتے ہیں۔‘

لامیا کو سماجی بائیکاٹ کی بھی شکایت ہے حالانکہ وہ پہلے ہی ترکی میں 10 سال سے زیادہ وقت گزار چکی ہیں۔

’ایک بار ہم ایک بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے اور کہیں سے دو ترک عورتیں آئیں اور ہم پر چیخنا شروع کر دیا اور کہا کہ تم شام کب واپس جاؤ گے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ چیخ رہی تھیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے پورے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا ہو۔‘

’ہمارا واحد خواب یورپ جانا ہے۔ میں دن رات اس کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ