مذہبی فرقے اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والا تصادم جس کا اختتام 86 اموات اور ایک عمارت کے راکھ بن جانے پر ہوا

واکو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

30 سال قبل امریکی ریاست ٹیکساس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ایک چھوٹی سی مذہبی کمیونٹی کے ہیڈکوارٹر کا 51 دن کا محاصرہ کیا گیا

  • مصنف, لیری سیلز
  • عہدہ, نامہ نگار بی بی سی ورلڈ، لاس اینجلس

اس کہانی کا اختتام 86 اموات اور ایک عمارت کے راکھ کا ڈھیر بن جانے پر ہوا۔

یہ 30 سال قبل پیش آنے والے واقعے کا المناک انجام تھا جس کے نتیجے میں امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ایک چھوٹی سی مذہبی کمیونٹی کے ہیڈکوارٹر کا 51 دن کا محاصرہ ختم ہوا۔

اس کہانی کا آغاز 28 فروری 1993 کو ہوا تھا جب امریکہ کے ’بیورو آف الکوحل، ٹوبیکو، فائر آرمز اینڈ ایکسپلوسیوز‘ یعنی (اے ٹی ایف) کے ایجنٹوں نے اُس اہم مشن کا آغاز کیا جس کی منصوبہ بندی وہ گذشتہ کچھ عرصے سے کر رہے تھے۔

اے ٹی ایف نامی یہ حکومتی ایجنسی کئی مہینوں سے ’سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ چرچ‘ کی جنرل ایسوسی ایشن کی جانب سے غیر قانونی ہتھیاروں کی خرید و فروخت کے حوالے سے تفتیش کر رہی تھی۔

ایجنسی نے پہلے ہی ایک خفیہ آپریشن مکمل کر لیا تھا جس کے تحت ایجنسی کے دو اہلکاروں نے یونیورسٹی طلبا کا روپ دھار کر اس مذہبی فرقے کے اہم رہنما ورنن ہاویل، جنھوں نے اپنا نام بدل کر ڈیوڈ کوریش رکھ لیا تھا، کے ساتھ اپنے رابطے استوار کر لیے تھے۔

ابتدائی تفتیش مکمل کرنے کے بعد ماہ فروری کے ایک دن 76 ایجنٹوں پر مشمل ایک قافلہ ٹیکساس کے قصبے ’واکو‘ سے 15 منٹ کی مسافت پر واقع اس فرقے کے ٹھکانے کی جانب رواں دواں تھا۔ ان ایجنٹوں کے پاس تلاشی اور گرفتاری کے وارنٹس تھے جبکہ انھوں نے ملٹری ٹریننگ بھی لے رکھی تھی۔

ڈیوڈ کوریش

،تصویر کا ذریعہVT

،تصویر کا کیپشن

ڈیوڈ کوریش

اس فرقے کے ماننے والوں نے اپنے اس ٹھکانے کا نام ’ماؤنٹ کارمل‘ رکھا ہوا تھا اور ان کے عقیدے کے مطابق دنیا میں آنے والی بڑی تباہی (قیامت) کے بعد اس ٹھکانے کا مقدر ایک نئی الٰہی بادشاہی کا مرکز بننا تھا۔

اس فرقے کے سربراہ اپنے آپ کو نام نہاد مسیحا قرار دینے والے 34 سالہ ڈیوڈ کوریش تھے، جن کی متعدد بیویاں تھیں جن میں سے چند نابالغ تھیں اور جن سے اس کے کئی بچے بھی تھے۔

لیکن جب قانون نافذ کرنے والے اہکاروں کا قافلہ ایک کچی سڑک کے اختتام پر واقع اس مذہبی فرقے کے ہیڈ کوارٹر تک پہنچا تو اس عقیدے کے پیروکار پہلے ہی سے وہاں ان کی آمد کے منتظر تھے کیونکہ انھیں اپنے ذرائع سے اس آپریشن کی بھنک پڑ چکی تھی۔

جلد ہی دو طرفہ فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا جو لگ بھگ 90 منٹ تک جاری رہا۔

ہیدر جونز اس مذہبی فرقے کی سربراہ کی بھانجی ہیں اور جب یہ آپریشن ہوا اس وقت ان کی عمر نو سال تھی اور وہ اس کمپاؤنڈ میں موجود تھیں جس کا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے محاصرہ کیا گیا تھا۔

30 سال پہلے پیش آنے والے اس واقعے کے بارے نیٹ فلکس کی ڈاکومینٹری کو بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں نے دیکھا کہ کس طرح گولیاں کوریش کی بیویوں میں سے ایک کو لگیں۔ مجھے اُن کی چیخیں یاد ہیں، میں انھیں بھول نہیں سکتی۔ اس واقعے کا سب سے ناقابل فراموش حصہ گولیاں لگنے سے زخمی اور ہلاک ہونے والوں کی چیخیں سننا تھا۔‘

اس تصادم کے نتیجے میں اے ٹی ایف کے چار ایجنٹ جبکہ مذہبی فرقے کے دو پیروکار ہلاک ہوئے جبکہ دونوں طرف کے درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والوں میں کوریش بھی شامل تھیں جنھیں دو گولیاں لگی تھیں: ایک کمر میں اور دوسری پہلو میں۔

نوے منٹ کی لگاتار فائرنگ کے بعد دن ساڑھے گیارہ بجے فائر بندی پر اتفاق ہوا اور اس آپریشن کی باگ دوڑ اے ٹی ایف سے لے کر فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کو دے دی گئی۔

ایف بی آئی کی جانب سے آپریشن کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد اس خونی تنازعے نے ایک نئی جہت اختیار کر لی۔

نیو یارکر میگزین کے لیے صحافی میلکوم گلیڈول نے دوران آپریشن مذہبی فرقے کے ہیڈ کوارٹر کے باہر کا منظر کچھ یوں پیش کیا: ’ایف بی آئی نے امریکہ کی تاریخ میں اپنے ہی مشتبہ شہریوں کے خلاف اب تک کی سب سے بڑی فورس اکھٹی کر لی ہے جس میں 10 بریڈلی ٹینک، دو ابرامز ٹینک، چار جنگی گاڑیاں، 668 ایجنٹس کے علاوہ چھ کسٹمز، 15 آرمی اہلکار، ٹیکساس نیشنل گارڈ کے 13 ارکان، 31 ٹیکساس رینجرز، 131 افسران ریاستی محکمہ پبلک سیفٹی سے، 17 میکلینن کاؤنٹی شیرف آفس سے اور 18 واکو پولیس افسران۔ مجموعی طور پر قانون نافذ کرنے والے 899 اہلکار۔‘

امریکی فورسز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

آپریشن کے لیے ٹینک بھی تعینات کیے گئے تھے

صحافیوں کی ایک فوج بھی اپنے کیمرے اور موبائل یونٹس کے ساتھ ان مناظر کو لائیو نشر کرنے کے لیے جائے وقوعہ پر پہنچ چکی تھی۔

مقامی ٹی وی چینل کے لیے اس آپریشن کو کور کرنے والے صحافی جان میک لیمور نے نیٹ فلکس کی دستاویزی فلم میں بتایا کہ ’یہ سینما تھیٹر میں جنگی فلم دیکھنے کے مترادف تھا، مگر حقیقت یہ تھی کہ یہ فلم حقیقی زندگی میں چل رہی تھی۔‘

یہ وہ لمحہ تھا جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس عمارت کا محاصرہ کر لیا جو اگلے 51 روز تک جاری رہا جس کا انجام تناؤ، غلط فہمیوں، غلطیوں اور بھیانک نتائج کی صورت میں نکلا۔

ناکام مذاکرات

واکو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایف بی آئی کی مذاکراتی ٹیم کی طرف سے کوریش کو ہتھیار ڈالنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کالیں موصول ہونے لگیں جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے دوسرے ہتھکنڈے بھی اپنائے اور جلد ہی یہ معاملہ مقامی میڈیا سے نکل کر عالمی میڈیا تک پہنچ گیا۔

کچھ ہی دنوں میں بات چیت کا نتیجہ سامنے آنے لگا۔ مذہبی فرقے کے رہنما نے اہلکاروں سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ہر روز ریڈیو پر اُن کی طرف سے ایک پیغام نشر کریں گے تو اس کے عوض وہ ہیڈکوارٹر میں موجود دو بچوں کو رہا کر دیں گے۔

اس کمپاؤنڈ سے رہائی پانے والی پہلے کم عمر بچے سکاٹ کی والدہ کیتھی شروڈر (جو کمپاؤنڈ میں موجود تھیں) نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرتے ہوئے رخصت کیا تھا کہ ’یاد رکھو کہ خدا اپنے تخت پر براجمان ہے اور ڈیوڈ آپ سے پیار کرتا ہے۔‘

کیتھی نے نیٹ فلکس کی ڈاکیومینٹری میں بتایا کہ جب وہ اپنے بیٹے کو رخصت کر رہی تھیں تو ’مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ میں اسے بچا رہی ہوں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ اس وقت ان کی سوچ یہ تھی کہ ’مجھے جینے کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ مجھے صرف خدا کے ساتھ رفاقت میں رہنے کی پرواہ تھی۔‘

بازیاب ہونے والے بچوں کو واکو قصبے میں ’میتھوڈسٹ ہوم‘ لے جایا گیا اور اس امید پر ان کی باتیں ریکارڈ کی گئیں کہ انھیں دیکھ کر اندر موجود پیروکاروں کو ہتھیار ڈالنے اور کمپاؤنڈ چھوڑنے کی ترغیب ملے گی۔

اس ترکیب نے کام کیا اور 21 بچوں سمیت 35 افراد کمپاؤنڈ سے باہر آئے۔ لوگوں کو باہر آتا دیکھ کر ایف بی آئی افسران نے سوچا کہ اب اس معاملے کا اختتام بس قریب ہی ہے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ کچھ ہی وقت میں فرقے کا سربراہ کوریش بھی ہتھیار پھینک کر اپنے آپ کو حکام کے حوالے کر دے گا، مگر جلد ہی یہ امیدیں کوریش کی جانب سے کیے جانے والے ایک اعلان کے ساتھ ٹوٹ گئیں۔ وہ اعلان یہ تھا:

کوریش: خدا نے مجھے مزید انتظار کرنے کا حکم دیا ہے۔

ایف بی آئی ایجنٹ: کیا آپ کو خدا پر بھروسہ ہے؟

کوریش: میں ہی خدا ہوں۔

اور اس اعلان کے بعد 23 مارچ تک کوئی پیروکار کمپاؤنڈ چھوڑ کر باہر نہیں آیا۔

دوسری جانب سکیورٹی فورسز کی طرف سے انھیں زبردستی باہر نکالنے کے لیے محاصرہ سخت تر ہوتا گیا، کمپلیکس کی بجلی کاٹ دی گئی، رات کے اوقات میں طاقتور فلڈ لائٹس سے یہ کمپاؤنڈ روشن رہتا جبکہ سپیکرز سے بلند پاپ میوزک جیسی تیز آوازیں جانتے بوجھتے نکالی جاتیں۔

واکو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

آپریشن کے مکمل ہونے پر کمپاؤنڈ جل کر راکھ ہو چکا تھا

ایف بی آئی کی اجازت سے کمپاؤنڈ میں لے جائے گئے کیمرے کی مدد سے کوریش نے خود کو کئی بچوں اور نوجوان خواتین کے ساتھ فلمایا تھا اور ان کا تعارف اپنی بیویوں اور بچوں کے طور پر کروایا تھا۔ انھوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ اندر موجود افراد کو یرغمال نہیں بنایا گیا بلکہ وہ اپنی مرضی سے موجود ہیں۔

’تمہارا خیال کون رکھتا ہے؟‘ ویڈیو میں وہ ایک بچے سے دریافت کرتا ہے۔

شروڈر ان 11 بالغ افراد میں سے ایک تھیں جنھوں نے رضاکارانہ طور پر ماؤنٹ کارمل کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور انھیں حراست میں لیا گیا تھا۔

بعدازاں ان پر قتل کی سازش اور حملہ کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ اُن کے لیڈر کے لیے گروپ میں کئی خواتین کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنا معمول سمجھا جاتا تھا، یہاں تک کہ نابالغ بچیوں کے ساتھ بھی۔

اس موضوع پر بننے والی تازہ ترین ڈاکیومنٹری میں انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے اعتقاد کے نظام میں تمام لڑکیوں کو 12 سال کی عمر میں بالغ سمجھا جاتا تھا۔‘ یاد کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ کیسے وہ خود رات گئے بائبل کے مطالعے کے ہونے والے سیشنز میں صرف اس لیے موجود رہتیں کہ کب انھیں ان کے لیڈر اپنے لیے منتخب کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ اس کے لیے باقاعدہ دعا کرتی تھیں۔

’اور پھر جب پہلی بار انھوں نے میرے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا تو ہم تنہا تھے۔‘

پھر وہ وقت آیا جب ایف بی آئی، محکمہ انصاف اور اٹارنی جنرل آفس کے سینیئر حکام نے اپریل کے مہینے میں اس آپریشن کو انجام تک پہنچانے سے متعلق غور کرنا شروع کیا کیونکہ اس آپریشن پر حکومت کے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں ڈالر خرچ ہو رہے تھے جبکہ اس کیس کی وجہ سے عالمی سطح پر امریکہ کی بدنامی الگ ہو رہی تھی۔

چنانچہ 19 اپریل کو صبح چھ بجے کے قریب چیف مذاکرات کار بائرن سیج نے کمپاؤنڈ میں موجود لوگوں کو فون کے ذریعے مطلع کیا جلد ہی عمارت میں آنسو گیس کے شیل پھینکے جائیں گے تاکہ لوگوں کو باہر نکلنے پر مجبور کیا جا سکے، مگر ساتھ ہی یہ یقین دہانی کروائی گئی کہ اہلکار کمپاؤنڈ پر دھاوا نہیں بولیں گے۔ اس پیغام کو پبلک ایڈریس سسٹم پر دہرایا گیا۔

اس اعلان کے فوراً بعد کمپاؤنڈ کے اندر سے ایف بی آئی کے اہلکاروں اور گاڑیوں پر گولیاں چلنی شروع ہو گئیں۔ اور اسی وقت مذاکرات کاروں کے اعتراضات کے باوجود ریسکیو ٹیم کے کمانڈر نے پورے کمپلیکس پر بیک وقت گیس شیل چلانے کا حکم دے دیا۔

انھوں نے لگاتار چھ گھنٹے تک آنسو گیس کے شیل فائر کیے، مگر اندر سے کسی نے عمارت نہیں چھوڑی۔ اتنی شدید شیلنگ کی وجہ سے دوپہر کے قریب کمپاؤنڈ میں تین مقامات پر آگ لگ گئی۔

چند ہی منٹوں میں ماؤنٹ کارمل جل کر راکھ ہو گیا اور آگ بجھانے کے لیے فائر فائٹرز وقت پر نہیں پہنچ سکے، مگر ایسا کیوں ہوا یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ اندر موجود کوئی فرد زندہ نہیں بچ سکا۔

کمپاؤنڈ ان لوگوں کی اجتماعی قبر بن چکا تھا جو انتہائی متنازع مذہبی عقیدے کے پیروکار تھے۔

ذمہ داری اور شکوک و شبہات

بل کلنٹن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکی صدر بل کلنٹن نے جو صرف تین ماہ کے لیے عہدے پر تھے اگلے دن بیان دیا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ جنونیوں کے ایک گروہ کے خود کو مارنے کے فیصلے کے واقعے کی حکومت ذمہ دار ہے۔‘

انھوں نے یہ بات اس لیے کہی کیونکہ شاید وہ اس حقیقت سے آگاہ نہیں تھے کہ یہ واقعہ اُن کی حکومت کے پہلے سال کو کتنا ہلا کر رکھ دے گا اور یہ 1994 میں ریپبلکن پارٹی کے دوبارہ کانگریس پر حکمرانی حاصل کرنے میں کیا کردار ادا کرے گا۔

ان تمام واقعات کے دوران رائے عامہ منقسم تھی۔ ایک وہ لوگ تھے جنھوں نے ڈیوڈ اور اس کے پیروکاروں کو ایک پاگل اور جنونی فرقہ قرار دیا تھا اور جو خود اپنی موت کے ذمہ دار تھے۔ جبکہ دوسرے وفاقی حکومت کی کارروائی کو زیادتی قرار دیتے ہوئے تنقید کرنے لگے تھے۔

لامار ڈی بیونٹ یونیورسٹی میں سوشیالوجی آف ریلیجنز کے پروفیسر سٹیورٹ اے رائٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگلے سال ایک سروے میں عوام کی غیر معمولی اکثریت نے واکو میں ہونے والے واقعے کے لیے بڑی حد تک وفاقی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔‘

سینکڑوں مضامین کے مصنف اور ’آرمیگڈن ان واکو‘ کتاب کے ایڈیٹر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’وقت گزرنے کے ساتھ اور متعدد ماہرین تعلیم جنھوں نے اس واقعے کے حقائق کی تشکیل نو کی ہے، یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ معاملات پرامن طریقے سے حل کیے جا سکتے تھے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’بہت سارے شواہد موجود ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور آج اس کارروائی میں شامل کچھ لوگوں کی طرف سے اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے۔‘

محاصرے کے دوران ایف بی آئی کے چیف مذاکرات کار گیری نوسنر نے بارہا اس کا اعتراف کیا کہ ’ڈیوڈ کوریش اس کے ذمہ دار تھے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے بطور ادارہ غلطیاں نہیں کیں، ہم سے غلطیاں سرزد ہوئی، واکو میں ہم اتنی جانیں نہیں بچائیں جتنی ہم بچا سکتے تھے۔ تو میرے نزدیک یہ ایک ناکامی تھی۔‘

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اپریل 1995 اور مئی 1996 کے درمیان کانگریس کی دو کمیٹیوں نے ماؤنٹ کارمل کے محاصرے کے دوران وفاقی فورسز کی کارروائیوں کی چھان بین کی۔

اگرچہ انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ واقعے کی حتمی ذمہ داری کوریش پر عائد ہوتی ہے، تاہم حتمی رپورٹ میں ملوث ایجنسیوں کے فیصلوں اور اقدامات پر سخت تنقید کی گئی۔

دیگر حکام کے علاوہ ان کمیٹیوں نے نوٹ کیا کہ ڈیوڈ اور اس کے پیروکاروں کے بارے میں اے ٹی ایف کی تحقیقات ’مکمل طور پر ناقص‘ اور ایک وفاقی ایجنسی کے ’کم سے کم پیشہ وارانہ معیار سے بھی بدتر‘ تھیں۔

حتمی رپورٹ میں اٹارنی جنرل رینو کے محاصرے کو ختم کرنے کے لیے گرین لائٹ مداخلت کے فیصلے کو ’قبل از وقت، گمراہ کن اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا گیا۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’آنسو گیس سے متاثر ہونے والوں افراد خصوصاً چھوٹے بچوں، حاملہ خواتین اور بوڑھوں کو ’فوری اور شدید‘ جسمانی تکلیف ہوئی اور اس کے استعمال کو مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ حکام کو آخر تک پرامن بازیابی کے لیے مذاکرات کرنا چاہییں تھے۔

البتہ رپورٹ میں اس واقعے میں فائرنگ کے آغاز سے ہی فورسز کی جانب سے احکامات کو زیر بحث نہیں لایا گیا تاکہ اس نظریے کی نفی کی جا سکے ایجنٹ ہی جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر اس کی وجہ تھے۔

رپورٹ میں جائے وقوعہ پر آگ بجھانے والے آلات نہ ہونے اور فائر ڈیپارٹمنٹ کو کال کرنے میں تاخیر کا جواز پیش کرنے کے لیے محکمہ انصاف کے دلائل سے بھی اختلاف نہیں کیا گیا۔

اس رپورٹ نے سانحے میں حکام کے کردار کے بارے میں سازشی نظریات یعنی وہ مفروضے جو جنگل کی آگ کی طرح پھیلنا شروع ہو چکے تھے، کو ہوا دینے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔

پروفیسر رائٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کا فائدہ شروع سے ہی انتہائی دائیں بازو کے گروہوں نے اٹھایا تھا جو ہتھیار اٹھانے کے حق اور حکومت مخالف نظریات کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اور انھوں نے ڈیوڈ فرقے کو ’شہید‘ قرار دیا۔‘

بہت سے افراد نے ڈیوڈ اور اس کے پیروکاروں کو امریکہ میں دو بنیادی حقوق، عبادت کی آزادی اور ہتھیار اٹھانے کی آزادی کے محافظ کے طور پر دیکھا۔

ڈیوڈ کوریش نے خود محاصرے کے دوران ان حقوق کے بارے میں کہا تھا کہ ’اس ملک میں ایسا نہیں ہونے والا ہے۔‘ اور اسی وجہ سے وہ وفاقی حکومت کو ان آزادیوں کا دشمن سمجھتے تھے۔

کچھ ڈیوڈ برادری کے لوگ جو اس سانحے میں زندہ بچ گئے تھے، جیسے ڈیوڈ تھیبوڈو، نے تسلیم کیا ہے کہ بعض اوقات جب وہ سماج میں اچھوت تھے، تو صرف دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے ان پر توجہ دی تھی۔ انھوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ’دائیں بازو کے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں سننا چاہتا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔‘

محاصرے کے دو سال بعد ٹموتھی میکویہ نامی ایک نوجوان جس نے واکو میں ڈیوڈ اور اس کے پیروکاروں کے لیے حمایت کا اظہار کیا تھا اور نئے ورلڈ آرڈر کے ردعمل میں جنونی ہو گیا تھا نے اوکلاہوما سٹی میں ایک وفاقی عمارت پر بم حملے کیا تھا جس میں 168 افراد ہلاک اور 700 زخمی ہوئے تھے۔

آج بھی یہ امریکی تاریخ کا سب سے مہلک ’داخلی دہشت گرد حملہ‘ ہے۔

ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس سانحے نے سازشی نظریات رکھنے والے الیکس جونز کو بھی متاثر کیا جس نے اس وقت ایک نوجوان ریڈیو اناؤنسر ہونے کے ناطے 1998 میں ڈیوڈیائی دارالحکومت کی تعمیر نو کے لیے ایک مہم کا اہتمام کیا تاکہ ہلاک ہونے والوں کو خراج تحسین پیش کیا جا سکے۔

آج بھی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ایک نمایاں شخصیت، الیکس جونز 2016 کے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرنے والے پہلے اور نمایاں آوازوں میں سے ایک تھے۔

کئی دہائیوں بعد بھی سانحہ واکو کا حوالہ ملیشاؤں اور سفید فام بالادستی کے حامیوں جیسا کہ پراؤڈ بوائز یا اوتھ کیپرز گروہوں جنھوں نے جنوری 2021 میں کیپیٹل ہل پر حملہ کیا تھا، کے ذہنوں سے نہیں نکلا ہے۔

نفرت اور انتہا پسندی کے خلاف غیر سرکاری عالمی تنظیم کے شریک بانی ہیّڈی بریچ نے بی بی سی کے نامہ نگار شام کبرل کو بتایا کہ ’واکو اب بھی اس حکومت مخالف حلقوں میں ایسے واقعہ کے طور پر گونجتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وفاقی حکومت اپنے شہریوں کی حفاظت نہیں کرتی اور وہ شہری حقوق کی خلاف ورزی کرنے اور ان سے ہتھیار چھیننے کے لیے تیار ہے۔‘

کچھ لوگوں کو اس کی گونج اس سانحے کی 30 ویں برسی کے چند دن بعد ٹرمپ کی جانب سے 25 مارچ کو واکو ہوائی اڈے سے اپنی 2024 کی صدارتی مہم شروع کرنے کے فیصلے میں سنائی دیتی ہے۔

تاہم ان کی سیاسی ٹیم نے ایسے کسی بھی ارادے کی تردید کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ اس مقام کو مرکزی اور ٹیکساس کے مرکزی میٹروپولیٹن علاقوں سے قریب ہونے کی بنا پر چنا گیا تھا۔ کیونکہ یہاں ان کی کٹر ووٹرز رہتے ہیں۔

اگرچہ ان کے کچھ حامی اور ناقدین پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ ان کی جانب سے اپنا پہلا سیاسی اجتماع اس جگہ سے کرنا جو بہت سے لوگوں کے لیے حکومت کے خلاف لڑائی کی علامت بن چکا ہے محض اتفاق ہے۔

ٹینیسی سے ریٹائرڈ ٹرمپ کے حامی شیرون اینڈرسن نے سابقہ صدر کے خلاف مجرمانہ الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے ٹیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ ’سانحہ واکو بھی حکومت کا اختیارات سے تجاوز تھا اور آج وہ ٹرمپ کے ساتھ بھی تجاوز کر رہے ہیں۔‘

ٹرمپ نے خود اپنے آپ کو عوام کے سامنے ایسے پیش کیا ہے جیسے وہ سیاسی طور پر متحرک محکمہ انصاف کا شکار اور نشانہ بن رہے ہیں۔

واکو میں اپنی سیاسی میٹنگ کے دوران انھوں نے حکومت پر تنقید کرنے کا موقع بھی نہیں گنوایا اور متعدد بار انھوں نے 2020 کے انتخابات جن میں وہ بائیڈن سے ہار گئے تھے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ’دھاندلی زدہ‘ تھے۔

انھوں نے ان لوگوں کی بھی تعریف کی جنھوں نے چھ جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل پر دھاوا بول کر بائیڈن کی بطور صدر تصدیق کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم متعدد وفاقی حکومتی ایجنسیاں اس حملے میں ٹرمپ کے مبینہ کردار کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ .

ٹرمپ نے سینکڑوں حامیوں کے سامنے اعلان کیا کہ ’ہمارے دشمن ہمیں روکنے کے لیے بے چین ہیں اور انھوں نے ہمارے جذبے کو کچلنے اور ہماری ثابت قدمی کو توڑنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ لیکن وہ ناکام رہے ہیں۔ اس عمل نے ہمیں صرف مضبوط بنایا ہے۔ اور 2024 عظیم حتمی جنگ ہو گی۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پروفیسر رائٹ کا کہنا ہے کہ ’اس مقام سے چند کلومیٹر دور جہاں امریکی تاریخ میں عام شہریوں اور وفاقی فورسز کے درمیان سب سے بڑا تصادم ہوا تھا صدر ٹرمپ کی جانب سے دھواں دار تقریر کرنا اتفاقیہ نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے زیادہ علامتی اور کیا ہو سکتا ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ