اتوار26؍ربیع الاول 1444ھ23؍اکتوبر 2022ء

مذہبی جماعتیں ٹرانس جینڈرز کے حقوق کیخلاف نہیں ہیں: کامران مرتضیٰ

جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ مذہبی جماعتیں ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے خلاف نہیں ہیں۔

عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوسرے اور آخری روز ٹرانس جینڈرز کے حقوق اور انہیں درپیش خطرات پر سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ٹرانس جینڈرز بل کو سمجھنے کی ضرورت ہے، بل پر دو مؤقف سامنے آ رہے ہیں۔

کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ اس طبی نقص کے ساتھ بچے کو دل سے قبول نہیں کیا جاتا، پورے قانون میں گھر والی زیادتی کو کہیں ایڈریس نہیں کیا گیا، بدنامی کا باعث سمجھتے ہوئے فیملی اس سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوسائٹی اس کے بعد اس جرم میں شریک ہوتی ہے، اس زیادتی کو ختم کرنے کے لیے بل لایا گیا، قانون بنانے والوں میں سے کسی کو بھی اس موضوع پر عبور نہیں تھا، ہمیں بیٹھ کر اس کے حل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، مل بیٹھ کر بل کو اسلام کے مطابق کر لیں تو کوئی حرج نہیں۔

انچارج پروٹیکشن یونٹ نایاب علی نے سینیٹر کامران مرتضیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرانس جینڈرز سے متعلق بین الاقوامی گائیڈ لائنز فالو کرنے کی ضرورت ہے، ہم  ٹرانس جینڈر کو خود سے الگ نہیں سمجھتے۔

نایاب علی کا کہنا ہے کہ سب جماعتوں نے مل کر یہ قانون بنایا، اب کہہ رہے ہیں کہ قانون کا علم نہیں تھا، اسے اب غیر اسلامی اور غیر شرعی کہا جا رہا ہے، اس سے ہماری زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔

کامران مرتضیٰ نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ووٹ کے لیے ہرگز ایسا نہیں کر رہیں، ہم تشدد کے قائل نہیں، ہم آپ کی بہتری چاہتے ہیں۔

مذہبی اسکالر حیدر حیدر فاروق مودودی نے کانفرنس میں کامران مرتضیٰ کی مخالفت کر دی۔

فاروق مودودی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ میری رائے کامران مرتضیٰ سے مختلف ہے۔

ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مہلاب شیخ نے کہا کہ شادی بیاہ میں ناچنے والے پر سوڈومی کا کیس بنا دیا گیا، الہٰ باد کی عدالت نے اس خواجہ سراء کو سزا دی۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر قانون صرف برابری کا حق دیتا ہے، کچھ اضافی نہیں دیا جا رہا۔

تجزیہ کار ریما عمر نے کہا کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں وابستہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین ٹرانس جینڈر سمیت ہر شہری کو برابر حقوق دیتا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے کہا ہے کہ آئین میں محفوظ زندگی کا تصور ہے، ایسی زندگی جو ماحولیاتی خطرات سمیت ہر طرح کے خطروں سے محفوظ ہو۔

عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں پارلیمانی سیکریٹری ماحولیاتی تبدیلی ناز بلوچ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب میں لاکھوں افراد صحت کے مسائل سے دوچار ہیں، پاکستان 7 ہزار گلیشیرز کا گھر ہے، درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے جو بڑی تباہی لا سکتا ہے۔

ناز بلوچ کا یہ بھی کہنا ہے کہ 52 ڈگری درجۂ حرارت تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے، پاکستان موجودہ صورتِ حال سے اکیلا باہر نہیں آ سکتا، مسئلہ ہم نے پیدا نہیں کیا مگر اس کے اثرات جھیل رہے ہیں، جرمن واچ رپورٹ کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ملکوں میں 8 ویں نمبر پر ہے۔

گلگت بلتستان کے ایکٹیوسٹ بابا جان نے کانفرنس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے متعلق نہ سوچا تو یہ علاقہ بنجر ہو جائے گا، گلگت بلتستان میں پہاڑ سرک رہے ہیں، برف کی جھیلیں بن رہی ہیں، جنگلی حیات بھی خطرے میں ہے، تھرمل پر پابندی ہونی چاہیے۔

بابا جان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے جنگل کاٹ کر لکڑیاں اکٹھی کی جاتی ہیں، یہاں کے لوگوں کے لیے اسلام آباد سے حکم آتا ہے، جیسے کے ٹو کو اپنا سمجھتے ہیں ویسے وہاں کے لوگوں کو اپنا سمجھیں، جو ہو رہا ہے اس کے ذمے دار اسلام آباد کے حکمران ہیں، پہلے کوئی سبز درخت نہیں کاٹ سکتا تھا، مارخور نہیں مار سکتا تھا۔

کانفرنس میں شاعرہ، مصنفہ اور کالم نگار کشور ناہید نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے اسکولوں میں تاریخ، جغرافیہ دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے، برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان دو حصوں میں تھا۔

کشور ناہید کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنگلا دیش کا پہلا نام کیا تھا؟ میں نے بچیوں سے پوچھا، کوئی نہیں جانتا تھا، بلوچستان میں بدھا کون تھے، اس بارے میں سلیبس میں شامل نہیں۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.