مدینہ میں واقع وہ مقدس مساجد اور سیاحتی مقامات جو دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر لیتے ہیں،تصویر کا ذریعہGetty Images16 منٹ قبلہر سال لاکھوں مسلمان حج اور عمرے کے سلسلے میں مدینہ منورہ آتے ہیں جسے اسلام کا پہلا دارالخلافہ سمجھا جاتا ہے۔مکہ کے بعد اس شہر کو اسلام کا دوسرا سب سے مقدس شہر مانا جاتا ہے جہاں پیغمبر اسلام کی تعمیر کردہ مسجد نبوی واقع ہے۔ سنہ 622 میں تعمیر کی گئی یہ مسجد آج بھی دنیا کی سب سے بڑی مساجد میں شمار کی جاتی ہے۔ اسی شہر میں اسلام کی پہلی مسجد ’مسجدِ قبا‘ بھی واقع ہے۔اسلام کی آمد سے قبل اس شہر کا نام ’یثرب‘ تھا جو اپنی تجارتی اور جغرافیائی اہمیت کے لیے جانا جاتا تھا اور یہاں پہاڑ، میدان، نخلستان، سونے، چاندی اور تانبے کی کانیں تھیں۔سعودی سیاحتی ویب سائٹ ’وزٹ سعودی‘ کے مطابق مسلمان اور غیر ملکی بغیر کسی روک ٹوک کے مدینہ کے سیاحتی مقامات کا دورہ کر سکتے ہیں۔ اور ان مقامات میں اہم جبل اُحد، جبل ذباب، جبل الرماہ (آرچرز ہِل) اور جبل نور شامل ہیں۔ یہ تمام مقامات مذہبی اہمیت رکھتے ہیں۔ جبکہ مدینہ میں کئی میوزیم بھی واقع ہیں جہاں آپ اس شہر کی تاریخ پر نظر ڈال سکتے ہیں۔

ہم نے آپ کے لیے مدینہ کے بعض مقدس سیاحتی مقامات کی ایک فہرست تیار کی ہے۔

مسجد قبا

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمسجد نبوی سے صرف ساڑھے تین کلومیٹر دور مذہب اسلام کی پہلی مسجد واقع ہے جس کی بنیاد خود پیغمبر اسلام نے رکھی۔ خیال ہے کہ پیغمبر اسلام نے مدینہ داخل ہونے سے قبل قبا میں چار روز گزارے تھے اور مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ مسجد قبا میں نماز کی نیت سے جانے کا ثواب ایک عمرے کے برابر ہے۔بہت سے لوگ اس کی منفرد فنِ تعمیر اور تاریخی اہمیت کی وجہ سے اس کا دورہ کرتے ہیں۔ سفید گنبد کے ساتھ اس کے 47 میٹر اونچے چار مینار ہیں جن میں سے پہلے مینار کی تعمیر کو حضرت عمر ابن عبدالعزیز سے منسوب کیا جاتا ہے۔

حجاز ریلوے

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesحجاز ریلوے کو 1900 میں تعمیر کیا گیا جو دمشق کو مدینہ سےملاتی ہے۔ اس نے 1908 میں آپریٹ کرنا شروع کیا اور 1916 میں پہلی عالمی جنگ تک آپریشن جاری رہا۔ تاہم اسے نقصان پہنچا۔مدینہ سے قریب ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت پر واقع العلا میں یہ پرانے تجارتی مقامات میں سے ایک ہے۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Imagesحجاز ریلوے سٹیشن کے قریب مدائن صالح یا الحجر قلعہ سعودی عرب کا یہ مقام یونیسکو کی عالمی آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل ہے جہاں پہلی صدی کے دوران سلطنت نبطی کی باقیات پائی جاتی ہیں۔سیاحوں کے لیے کھلے اس مقام پر 111 مقبرے ہیں جبکہ غاروں میں قدیم مصوری کے آثار ملتے ہیں۔

عروہ بن الزبیر کا محل

،تصویر کا ذریعہVISIT SAUDIپہلی ہجری میں تعمیر ہونے والا یہ مقام اسلامی دور کے آغاز کی نشانیوں میں سے ہے جو مسجد نبوی سے قریب ساڑھے تین کلومیٹر دور ہے۔اسے پتھروں سے تعمیر کیا گیا جن پر مٹی اور پلستر کی ایک تہہ ہے۔ کچھ منزلوں پر اینٹوں کی ٹائلیں اور آتش فشاں کا پتھر لگا ہوا ہے۔یہاں تین بڑے باغات، پرانے دور کے کمرے اور کچن ہیں جبکہ پانی کا کنواں بھی موجود ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ مکہ سے آنے والے مسافر یہیں سے پانی پیا کرتے تھے۔

مسجد قبلتين

،تصویر کا ذریعہSPAمدینہ منورہ کے علاقے بنو سلمہ میں واقع اس مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دو ہجری کے دوران اسی مسجد میں نماز کے دوران تحویل قبلہ کا حکم ملا تھا۔پیغمبر اسلام اور صحابہ نے نماز کے دوران اپنا رُخ یروشلم میں بیت المقدس کی بجائے مکہ میں خانہ کعبہ کی طرف کر لیا تھا۔ چونکہ اس مسجد میں ایک ہی نماز دو مختلف قبلوں کی جانب رُخ کر کے پڑھی گئی اس لیے اسے ’مسجد قبلتین‘ یعنی دو قبلوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔مسجد کا داخلی حصہ قبہ دار ہے جبکہ خارجی حصے کی محراب شمال کی طرف ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں اس کی تعمیر نو ہوئی جبکہ تزئین و آرائش کا کام سعودی شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں ہوا۔

البنت ڈیم اور خیبر

،تصویر کا ذریعہVISIT SAUDIخیبر میں آثار قدیمہ کے متعدد باقیات ہیں جہاں زائرین رُک کر ایک بار غور ضرور کرتے ہیں۔ اگرچہ تاریخی کہانیاں اس بارے میں مختلف ہیں کہ البنت ڈیم کیسے بنایا گیا لیکن اس سے ڈیم کی شان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔البنت ڈیم، جسے صحبہ ڈیم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے بارے میں خیال ہے کہ یہ 3000 سال قبل شیبہ دور میں بنایا گیا تھا۔ یہ ڈیم یمن کے ماریب ڈیم سے ملتا جلتا ہے۔ اس کی مضبوط چٹانیں حرات خیبر کو دوسری طرف کے ڈیم کے پانی سے الگ کرتی ہیں۔ڈیم کے سامنے کھڑے ہو کر آپ محسوس کریں گے کہ آپ ڈیم کی وسعت کے مقابلے میں کتنے کم ہیں، کیونکہ یہ 50 میٹر اونچا، 250 میٹر لمبا اور 10 میٹر چوڑا ہے۔ڈیم کے آس پاس کے علاقے کی نوعیت دیگر علاقوں سے مختلف ہے۔ یہاں کھجور اور دیگر پھلوں کے درخت موجود ہیں۔ ڈیم کی ساخت میں جو چیز آپ کی توجہ حاصل کرے گی وہ یہ ہے کہ اس میں پانی نکالنے کے لیے دروازے نہیں ہیں اور اس کی سیڑھیاں پتھر سے بنی ہیں جسے لوگ ڈیم سے نیچے اترنے کے لیے استعمال کرتے ہوں گے یا یہ پانی کی پیمائش کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔ اس ڈیم کا کچھ حصہ منہدم ہو چکا ہے۔ڈیم کی طرف جانے والی سڑک پکی ہے جس سے گاڑیوں تک رسائی آسان ہے۔،تصویر کا ذریعہVISIT SAUDI

مسجدِ علی

مسجد فتح کے علاقے میں واقع علی ابن ابی طالب مسجد مدینہ منورہ کے زائرین کے لیے ایک ایسی جگہ ہے جو اسلامی ثقافتی ورثے کو ظاہر کرتی ہے۔اسے 706 سے 712 کے دوران تعمیر کیا گیا جس کی آخری تزئین و آرائش 1990 میں شاہ فہد ابن عبد العزیز آل سعود کے دور میں ہوئی تھی۔اس کے سات گنبد ہیں۔ خیال ہے کہ پیغمبر اسلام نے اس مقام پر نماز عید ادا کی تھی اور پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد حضرت علی نے بھی یہاں عید کی نماز پڑھی تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

جنت البقیع

جنت البقیع مدینہ منورہ میں سب سے قدیم اسلامی قبرستان ہے۔ یہاں اصحابِ، اہلِ بیتِ اور کئی شخصیات مدفون ہیں۔ بقیع اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جنگلی پیڑ پودے پائے جاتے ہوں۔قبرستان کے شمال، مشرق اور مغربی اطراف میں تین داخلی دروازے ہیں۔مسجد نبوی شریف کی آخری توسیع میں اس قبرستان اور مسجد نبوی کے درمیان مکانات کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں اب یہ بقیع قبرستان مسجد نبوی شریف کے خارجی صحن سے مل چکا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}