مدینہ: سلمان فارسی سے منسوب کنواں زائرین کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا، مگر اس جگہ کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟،تصویر کا ذریعہSPA
،تصویر کا کیپشن’14 صدیوں سے بھی زیادہ قدیم یہ تاریخی مقام پیغمبر اسلام کی جانب سے صدقہ اور فلاحی کاموں کا زندہ ثبوت ہے‘
13 منٹ قبلسعودی حکام نے مکمل تزین و آرائش اور بحالی کے بعد مدینہ میں واقع تاریخی ’الفقیر‘ کنواں زائرین کے لیے دوبارہ کھول دیا ہے۔سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے ’سعودی پریس ایجنسی‘ کے مطابق 14 صدی سے بھی زائد قدیم یہ تاریخی مقام پیغمبر اسلام کی جانب سے صدقہ اور فلاحی کاموں کا زندہ ثبوت ہے۔مدینہ کے ’العالیہ‘ نامی علاقے میں واقع یہ کنواں سرسبز باغات اور پیغمبر اسلام کی زندگی سے وابستہ دیگر تاریخی مقامات میں گِھرا ہوا ہے۔ماضی میں تین میٹر قطر والے اس کنویں سے روایتی آلات (پُلی اور ڈول) کے ذریعے پانی نکالا جاتا تھا تاہم بعد ازاں سعودی حکام نے اس پر واٹر پمپ نصب کر دیے۔فی الحال اس کنویں کا انتظام و انصرام ’المدینہ ریجن ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘کے دائرہ کار میں آتا ہے۔

اس کنویں کے قرب و جوار میں باغات موجود ہیں جنھیں سیراب کرنے کے لیے اس کنویں سے متصل پانی کی چھوٹی گزرگاہیں بنائی گئی ہیں۔ اس کنویں میں قدرتی طور پر پانی وادیِ بتھن سے آتا ہے۔،تصویر کا ذریعہSPA

،تصویر کا کیپشناس کنویں کے قرب و جوار میں باغات موجود ہیں جنھیں سیراب کرنے کے لیے اس کنویں سے متصل پانی کی چھوٹی گزرگاہیں بنائی گئی ہیں
سعودی پریس ایجنسی نے حال ہی میں بحال کے عمل سے گزرنے والے اس تاریخی مقام کی تصاویر بھی جاری کی ہیں۔ اس مقام کی تجدید کاری کے دوران اب کنویں اور اس تک آنے والے راستوں کے گرد ایک میٹر اونچی لوہے کی باڑ نصب کر دی گئی ہے۔ اس مقام تک لے جانے والے مرکزی راستے کے مین گیٹ اور یہاں موجود آبی گزرگاہوں کو آتش فشانی پتھروں کا استعمال کرتے ہوئے مضبوط بنایا گیا ہے۔ اس مقام کی تزین و آرائش کے دوران کنویں کی اصل ہیت اور شکل کو برقرار رکھنے کو ترجیح دی گئی ہے۔اس مقام پر کھجور کے نئے درختوں کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اندروںی صحن کو پختہ کیا گیا ہے اور اور زائرین کے آرام کے لیے پتھر کے بینچ رکھے گئے ہیں۔ کنویں کے داخلی دروازے پر ایک معلوماتی بورڈ پر کنویں کی تاریخ اور اس کے پیغمبر اسلام سے تعلق کے بارے میں تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔،تصویر کا ذریعہSPA
،تصویر کا کیپشناس کنویں میں قدرتی طور پر پانی وادیِ بتھن سے آتا ہے
یاد رہے کہ سعودی حکام نے اکتوبر 2022 میں ’الفقیر‘ کنویں سمیت مدینہ میں واقع اور پیغمبر اسلام سے منصوب 100 کے قریب تاریخی اور مقدس مقامات کی تزین و آرائش کا منصوبہ شروع کیا تھا۔ تین سال پر محیط اس منصوبے میں ان 100 کے قریب مقامات کی تجدید کرنی ہے اور یہ منصوبہ 2025 تک مکمل ہو گا۔ان مقامات میں غزوہ خندق کے میدان، القبلتین مسجد سمیت بہت سے مقدس مقامات شامل ہیں۔

اسے سلمان فارسی کا کنواں کیوں کہا جاتا ہے؟

،تصویر کا ذریعہSPA

،تصویر کا کیپشناس مقام تک لے جانے والے مرکزی راستے کے مین گیٹ اور یہاں موجود آبی گزرگاہوں کو آتش فشانی پتھروں کا استعمال کرتے ہوئے مضبوط بنایا گیا ہے
محقق وقار مصطفیٰ کے مطابق لفظ ’الفقیر‘ عربی لفظ ’تفقیر‘ سے نکلا ہے اور تفقیر ایسے علاقے کو کہا جاتا ہے جسے کھجور کی کاشت کے لیے کھودا گیا ہو۔اسی کنوئیں کو ’بئر میثب‘ اور ’بئرسلمان الفارسی‘ بھی کہا جاتا ہے۔اس کنوئیں کے قریب لگے بورڈ سے علم ہوتا ہے کہ ’پیغمبر اسلام کے صحابی سلمان فارسی یہاں کام کرتے تھے۔ اور انھیں آزاد کروانے کی غرض سے پیغمبر اسلام نے اس کنوئیں کے ساتھ کھجور کے کئی درخت لگائے تھے جو سب بار آور ہوئے اور ان درختوں نے اگلے ہی سال توقعات سے کہیں بڑھ کر پیداوار دی۔‘صحابی رسول سلمان فارسی کا تعلق فارس (ایران ) سے تھا اور اسلام قبول کرنے سے قبل وہ زرتشت مذہب کے پیروکار تھے۔تاریخ کی کتابوں سے علم ہوتا ہے کہ سلمان فارسی نے پہلے اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر مسیحیت اختیار کی۔ جب ان کے والد کو علم ہوا تو انھیں گھر میں قید کر دیا گیا لیکن وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور شام سے موصل(عراق)، وہاں سے نصیبین (ترکی) اور پھر عموریہ پہنچے۔ یہ وہ وقت تھا جب قبیلہ بنو کلب کا ایک قافلہ عموریہ سے گزرا تو سلمان فارسی اس قافلے میں شامل ہو گئے، لیکن قافلے والوں نے وادی القریٰ میں سلمان فارسی کو ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔،تصویر کا ذریعہSPA
،تصویر کا کیپشنمرکزی دروازہ
اسی یہودی کے ہاں کام کے دوران انھیں اسلام کی دعوت کا پتا چلا اور انھوں نے اسلام قبول کیا تاہم غلامی کے باعث وہ فرائضِ مذہبی ادا نہ کر سکتے تھے اور اسی وجہ سے غزوۂ بدر و غزوہ اُحد میں شریک نہ ہو سکے۔وقار مصطفیٰ نے تاریخی کتب کے حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ سلمان فارسی کے یہودی مالک سے پیغمبر اسلام نے 300 کھجور کے درختوں اور چالیس اوقیہ سونے پر معاملہ طے کیا۔ پیغمبر اسلام نے عام مسلمانوں سے مدد کی سفارش کی جس پر سب نے حسب حیثیت کھجور کے درخت دیے، اور اس طرح 300 درخت ان کو مل گئے اور پیغمبراسلام نے ان کو لگایا اور زمین ہموار کرکے ایک شرط پوری کر دی۔ایک جنگ سے مرغی کے انڈے کے برابر سونا ملا تھا ، یہ وزن میں ٹھیک چالیس اُوقیہ تھا، سلمان فارسی کو آزاد کروانے کے لیے یہ بھی یہودی مالک کو دے دیا گیا۔یوں پیغمبر اسلام نے سلمان فارسی کو غلامی سے نجات دلائی جس کے بعد وہ پیغمبر اسلام کے ساتھ سفر و حضر میں اُن کے ساتھ ساتھ رہنے لگے۔ غزوہ احزاب (جنگ خندق) میں انھی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے خندق کھودی گئی اور دفاعی جنگ لڑی۔پیغمبر اسلام کے بعد خلیفہ عمر بن خطاب نے ان کو مدائن کا گورنر مقرر کیا اور جو تنخواہ انھیں ملتی وہ غریبوں، مسکینوں میں تقسیم کر دیتے اور خود چٹائی بُن کر کماتے جس کا ایک تہائی بھی خیرات کر دیتے تھے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق سلمان فارسی سفر ہمیشہ بغیر زین کے گدھے پر سوار ہو کر کرتے اور ان کی وفات 35 ہجری میں خلیفہ عثمان غنی کے دور خلافت میں مدائن میں ہوا۔اسلامی انسائکلوپیڈیا کے مطابق سلمان اصحابِ صفہ کے بھی رکن تھے۔ یہ ایک ایساگروہ تھاجو محض عبادت الہٰی اور صحبت پیغمبر اسلام کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتا تھا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}