محمد الضیف: متعدد اسرائیلی قاتلانہ حملوں سے بچنے والے حماس کے ’دی ماسٹر مائنڈ‘ کون ہیں؟،تصویر کا ذریعہAFP
،تصویر کا کیپشنغزہ میں الضیف کو ایک افسانوی حیثیت حاصل ہے جس کی وجہ قاتلانہ حملوں سے بچنے کی صلاحیت بتائی جاتی ہے
25 منٹ قبلہفتے کے دن اسرائیلی فوج کے مطابق غزہ کے شہر خان یونس میں ہونے والے فضائی حملے کا ہدف حماس کے عسکری سربراہ محمد الضیف تھے۔غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فضائی حملے میں بے گھر ہونے والے افراد کے لیے بنائے جانے والے ایک کیمپ میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اسرائیلی فوج کا یہ بیان نشر کیا کہ ’ہماری اطلاع کے مطابق اس مقام پر صرف حماس کے دہشت گرد موجود تھے اور کوئی عام شہری نہیں تھا۔‘اس فضائی حملے کے ایک ہی دن بعد، اتوار کو، ایک اور اسرائیلی فضائی حملے میں خان یونس بریگیڈ کے کمانڈر رفع سلامہ کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا جن کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ حماس کے عسکری کمانڈر محمد الضیف کے قریبی ساتھی اور سات اکتوبر کو اسرائیل میں ہونے والے حملے کے منصوبہ سازوں میں سے ایک تھے۔

تاہم ہفتے کے دن اسرائیلی فضائی حملے کے بعد وزیر اعظم نتن یاہو نے کہا کہ ’اس بات کی کوئی یقین دہانی موجود نہیں کہ اس حملے میں محمد الضیف بھی ہلاک ہوئے۔‘دوسری جانب حماس نے درجنوں عام شہریوں کی ہلاکت کا دعوی کرتے ہوئے اسرائیل پر ’ایک ہولناک قتل کو چھپانے کی کوشش‘ کا الزام لگایا ہے۔،تصویر کا ذریعہIDF

،تصویر کا کیپشنایک اور اسرائیلی فضائی حملے میں خان یونس بریگیڈ کے کمانڈر رفع سلامہ کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا

دہائیوں سے مطلوب

الضیف، جو القسام بریگیڈ کے سربراہ ہیں، دہائیوں سے اسرائیل کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ انھوں نے متعدد فوجیوں سمیت عام شہریوں کی ہلاکت میں کردار ادا کیا ہے۔ان کا اصلی نام محمد ضائب المصری ہے۔ وہ 1965 میں خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔الضیف کا خاندان کافی غریب تھا اور وہ اپنے والد کے ہمراہ سپننگ اور ہولسٹری کا کام کرتے تھے۔ بعد میں الضیف نے پولٹری فارم کھولا اور ڈرائیور کی حیثیت سے بھی کام کیا۔الضیف کے لفظی معنی ’مہمان‘ کے ہیں جس کی وجہ ان کا وہ طرز زندگی ہے جس میں وہ اسرائیلی جاسوسی سے بچنے کے لیے ہر وقت اپنی رہائش کا مقام بدلتے رہتے ہیں۔الضیف نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے سائنس میں ڈگری حاصل کی جہاں انھوں نے فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کے مضمون پڑھے۔اس زمانے میں وہ یونیورسٹی کی تفریحی کمیٹی کے سربراہ بھی تھے اور اسی دوران انھوں نے مزاحیہ سٹیج ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی میں ہی الضیف اخوان المسلمین نامی گروہ میں شامل ہو چکے تھے۔تاہم 1987 میں جب پہلے فلسطینی انتفادہ کے بعد حماس کا قیام ہوا تو الضیف اس نئی تنظیم کی صفوں میں شامل ہو گئے۔صرف دو ہی سال بعد اسرائیلی حکام نے ان کو گرفتار کر لیا جس کے بعد حماس کی عسکری ونگ کے لیے کام کرنے کے الزام میں انھوں نے 16 ماہ قید کاٹی۔انھیں حماس کے عسکری ونگ ’القسام بریگیڈ‘ کے بانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور انھوں نے غرب اردن میں بھی القسام بریگیڈ کی ایک شاخ کی بنیاد رکھی۔2002 میں جب حماس کے عسکری کمانڈر ایک اسرائیلی حملے میں ہلاک ہوئے تو الضیف القسام بریگیڈ کے سربراہ بن گئے۔2015 میں ان کا نام امریکہ کی جانب سے بین الاقوامی دہشت گردوں کی بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ یورپی یونین نے 2023 میں ان کا نام اپنی ایسی ہی بلیک لسٹ میں شامل کر لیا۔

قاتلانہ حملے

الضیف پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے 1996 میں مسافر بسوں پر ہونے والے بم حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی جن میں کئی اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ 1990 کی دہائی کے دوران تین اسرائیلی فوجیوں کی گرفتاری اور ہلاکت میں بھی ان کا نام لیا جاتا ہے۔گمان کیا جاتا ہے کہ الضیف اور غزہ میں حماس کے سیاسی سربراہ یحیی سنوار سات اکتوبر کے حملوں کے مرکزی منصوبہ ساز ہیں۔اس کے علاوہ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ الضیف نے حماس کے سب سے اہم ہتھیار قسام راکٹ کی تیاری اور غزہ میں سرنگوں کا جال بچھانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔کہا جاتا ہے کہ الضیف نے اپنی زندگی کا زیادہ وقت انھی سرنگوں میں گزارا ہے جہاں وہ اسرائیلی فوج سے چھپ کر حماس کے حملوں کی نگرانی کرتے رہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنالضیف نے اپنی زندگی کا زیادہ وقت انھی سرنگوں میں گزارا ہے

پراسرار شخصیت

الضیف ایک پراسرار شخصیت کے مالک ہیں جن کو فلسطینی ’ماسٹر مائنڈ‘ کے نام سے جبکہ اسرائیلی ’نو زندگیوں والی بلی‘ کے نام سے جانتے ہیں۔اس شہرت کی وجہ 2001 سے اب تک تقریبا سات قاتلانہ حملوں میں الضیف کا زندہ بچ جانا ہے۔ان پر ہونے والے سب سے بڑا حملہ 2002 میں ہوا تھا جس میں الضیف خود تو بچ گئے لیکن ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ اسرائیل کا دعوی ہے کہ الضیف ایک ہاتھ اور ایک پیر بھی کھو بیٹھے تھے اور ان کو بات چیت میں مشکلات ہوتی ہیں۔2014 میں اسرائیل نے ایک بار پھر الضیف کو غزہ کی پٹی پر ایک حملے کے دوران قتل کرنے کی کوشش کی جس کے دوران ان کی اہلیہ اور دو بچے ہلاک ہو گئے تھے۔اس حملے کے بعد الضیف نے کم ہی کوئی سراغ چھوڑا ہے۔ ان کی صرف تین ہی تصاویر ہیں جن میں سے ایک میں ان کا چہرہ چھپا ہوا ہے جبکہ دوسری میں صرف ان کا سایہ دکھائی دیتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}