وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے محسن بیگ کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں 3 دن کی توسیع کر دی۔
اس سے قبل تھانہ مارگلہ پولیس نے جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر محسن بیگ کو اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تھا اور عدالت سے ملزم کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
اس موقع پر ملزم کی پیروی کرتے ہوئے عبداللطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ہماری استدعا ہے کہ آپ 21 ون ڈی کو دیکھ لیں، 9 بجے مقدمہ درج ہوتا ہے اور سوا 9 بجے چھاپہ مارا جاتا ہے، اس معاملے میں چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا، سفید کپڑوں میں بغیر سرچ وارنٹ لوگ گھر میں داخل ہوئے، پہلی ایف آئی آر 9 بجے لاہور سائبر کرائم سیل میں درج ہوتی ہے، 16 فروری کو انکوائری ہوئی، اسی دن مقدمہ درج ہوا اور ایف آئی اے کی ٹیم اسلام آباد پہنچ گئی۔
لطیف کھوسہ نے سائبر کرائم ونگ میں درج مقدمے کے نکات عدالت کے سامنے پیش کیے اور کہا کہ مقدمے میں ریحام خان کی کتاب کا لکھا گیا مگر انہیں پکڑا نہیں گیا، کتاب میں عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام نے گھر کی بات لکھی ہے، مقدمے میں پینلسٹ کا لکھا گیا ہے، البتہ گرفتار صرف محسن بیگ کو کیا گیا، مدعیٔ مقدمہ خود کتاب کے صفحات بھی بتا رہے ہیں، محسن بیگ کی تھانے میں جو حالت کی گئی وہ آپ نے دیکھی ہو گی۔
جج نے استفسار کیا کہ کیا محسن بیگ کا میڈیکل کروایا گیا ہے؟
لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ پولیس کی تحویل میں جو میڈیکل ہوتا ہے وہ آپ کو معلوم ہی ہے، پولیس نے عدالت سے جھوٹ بول کر محسن بیگ کا جسمانی ریمانڈ لیا، میں اس عدالت سے محسن بیگ کی رہائی کی استدعا کر رہا ہوں، ایڈیشنل سیشن جج کا فیصلہ آپ نے پڑھا ہو گا، 9 بجے لاہور میں ایف آئی اے کا مقدمہ درج ہوا، سوا 9 بجے محسن بیگ کے گھر پہنچ گئے، سپر سونک پاور کے تحت بھی یہ اتنے وقت میں نہیں پہنچ سکتے تھے۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چادر اور چار دیواری کا تقدس اس کیس میں بری طرح پامال کیا گیا، سادہ کپڑوں میں لوگ محسن بیگ کے گھر گھس گئے، 16 تاریخ کو مراد سعید کی درخواست پر انکوائری شروع کی گئی، انکوائری کو انویسٹی گیشن میں بھی تبدیل نہیں کیا گیا، ایف آئی اے کی اسی طرح کی پھرتیاں پہلے بھی کبھی دیکھی ہیں؟ سارے پاکستان میں بات چل رہی ہے کہ مراد سعید کو کس چیز کا ایوارڈ ملا ہے؟ کیا وہ ڈپٹی وزیرِ اعظم بن گئے ہیں؟ ایسا تو کوئی عہدہ موجود ہی نہیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق محسن بیگ نے کہا کہ ریحام خان کی کتاب میں پتہ نہیں کچھ لکھا ہے، ہم روزانہ کتابوں کا حوالہ پیش کرتے ہیں، محسن بیگ نے کیا کیا ہے، پکڑنا ہے تو ریحام خان کو پکڑیں، ریحام خان تو وزیرِ اعظم کی اہلیہ رہ چکی ہیں، یہ لوگ اپنا مذاق خود بنا رہے ہیں، ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ دیگر پینلسٹ نے بھی اس پر بات کی، مگر کسی اور پینلسٹ کو گرفتار نہیں کیا گیا، مراد سعید اپنی درخواست میں خود کتاب کا صفحہ بھی بتا رہے ہیں۔
دورانِ سماعت پولیس نے ملزم کا تصویری ریکارڈ یعنی محسن بیگ کے ہاتھ میں وقوعہ کے وقت پستول پکڑی تصویریں عدالت میں پیش کر دیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ کی کوئی ایک بھی دفعہ اس کیس میں لگتی ہی نہیں، مدعیٔ مقدمہ خود اپنا جلوس نکال رہے ہیں کہ ریحام خان کی کتاب کا صفحہ نمبر 273 لازمی پڑھا جائے، محسن بیگ کے خلاف ایف آئی آر بھی چھاپہ مارنے کے بعد درج کی گئی، چھاپہ مارنے والوں کے پاس ایف آئی آر کی کاپی بھی موجود نہیں تھی، عمران خان کی سابقہ بیوی نے الزام لگایا، محسن بیگ کوکیا معلوم کہ یہ الزام درست ہے یا غلط۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ٹی وی ٹاک شو میں سوال کیا گیا کہ مراد سعید کو پہلا نمبر کیسے ملا؟ محسن بیگ نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ وزیر نمبر ون کیسے بنا، محسن بیگ نے کہا کہ ریحام خان نے اپنی کتاب میں کچھ لکھا ہے، شاید اسی وجہ سے وزیر کو یہ اعزاز ملا ہو، ایف آئی اے سائبر کرائم سیل نے جھوٹا مقدمہ درج کیا، ون فائیو پر میرے مؤکل نے فون کیا اور ایس پی نے ان سے پوچھا آپ کون ہیں۔
انسپکٹر ساجد چیمہ نے عدالت سے استدعا کی کہ پستول کی برآمدگی کرنا ہے، مزید جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ محسن بیگ کو موقع سے گرفتار کر کے اسلحہ برآمد کیا گیا، وہ پولیس کے پاس ہے، ملزم کا چہرہ دیکھیں کتنا تشدد کیا گیا ہے۔
ملزم محسن بیگ نے عدالت کو بتایا کہ میرا 5 گھنٹے تک میڈیکل ہوا، مگر ابھی تک پولیس نے اس کی رپورٹ ہی نہیں لی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ پولیس نے محسن بیگ کو موقع سے گرفتار کیا، ان کے پاس جوکچھ تھا وہ برآمد کر چکی، پولیس کے پاس اب مزید جسمانی ریمانڈ لینے کی کوئی ٹھوس وجہ یا جواز نہیں ہے۔
جج نے انسپکٹر لیگل سے استفسار کیا کہ زخمی کون ہوا ہے؟
انسپکٹر لیگل نے جواب دیا کہ سب انسپکٹر زخمی ہوا ہے۔
جج نے استفسار کیا کہ زخمی کا میڈیکل کہاں ہے؟ اس کا بیان کہاں ہے؟
انسپکٹر لیگل نے بتایا کہ سب انسپکٹر وسیم سکندر ہے، جس کا میڈیکل کرا لیا گیا تھا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ محسن بیگ کو گھر کے اندر سے گرفتار کر کے پستول برآمد کیا گیا۔
جس پر جج نے ایس ایچ او سے استفسار کیا کہ محسن بیگ کو کہاں سے گرفتار کیا گیا تھا؟
ایس ایچ او نے جواب دیا کہ جی کچھ دیر بعد ہی گرفتار کیا گیا تھا۔
عدالت نے محسن بیگ کے جسمانی ریمانڈ میں 3 دن کی توسیع کرتے ہوئے ملزم کو 21 فروری کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دے دیا جبکہ 2 گرفتار ملازمین کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
اس موقع پر محسن بیگ نے کہا کہ سارا کیس ہی جھوٹ پر مبنی ہے، پولیس نے گھر سے سی سی ٹی وی تک اتار لیا، ویڈیو اب بھی موجود ہے، یہ فاشسٹ رجیم ہے، مجھے افسوس ایف آئی اے اور پولیس افسران پر ہے۔
Comments are closed.