سندیسیوے وین زل: جنوبی افریقہ کی ڈاکٹر جس نے اپنے بارے میں کھل کر بات کی اور دنیا بھر میں دوست بنائے
جنوبی افریقہ میں اس خاتون کی موت کا سوگ منایا جا رہا ہے جسے وہ ‘عوام کی ڈاکٹر’ کہتے ہیں۔ 45 سالہ ڈاکٹر کی موت کووڈ 19 کے باعث ہونے والی پیچیدگیوں سے ہوئی۔
وولدی کیئرلس بتا رہی ہیں کہ آخر مرنے والی ڈاکٹر سندیسیوے وین زل اتنی خاص کیوں تھیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ہر ایک کے پاس سندی سے متعلق اپنی ہی ایک کہانی ہے اور وہ رواں ہفتے انھیں ٹویٹر پر شیئر کر رہے ہیں کیونکہ یہی وہ پلیٹ فارم تھا جس کے ذریعے ڈاکٹر وین زل اپنے لاکھوں فالوورز تک پہنچتی تھیں۔
وہ ٹوئٹر پر خود کو ‘دی ڈچز آف ہیلنگ’ یعنی شفا کی رانی کہتی تھیں اور وہ جنوبی افریقہ اور اس کے باہر ایسے مریضوں کو صلاح و مشورے اور امداد فراہم کرتی تھیں جنھیں طبی سہولیات تک رسائی حاصل نہ ہو۔
وہ زمبابوے میں پیدا ہوئیں لیکن ایک ڈاکٹر کے طور پر ان کی تربیت جنوبی افریقہ میں ہوئی اور یہیں وہ ایچ آئی وی پبلک ہیلتھ ڈاکٹر اور عام پریکٹیشنر کی حیثیت سے کام کرنے لگيں۔
ایک دہائی قبل انھوں نے ایچ آئی وی/ ایڈز اور ذہنی صحت سے متعلق امور کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بیداری پیدا کرنے اور اپنے قسم کے حسن سلوک کو پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ بھی پڑھیے
دبئی میں مقیم ڈیو لوئس بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر وین زل نے کس طرح ان کی مدد کی تھی اور انھیں لوگوں کے ساتھ رابطہ بنانے میں ملکہ حاصل ہے۔
ان سے ان کا پہلی بار اس وقت سامنا ہوا جب وہ سر درد کے پاؤڈر گرانڈ-پا کی زیادہ خوراک کے ذیلی نقصاندہ اثرات اور اس کی لت کی نوعیت کے بارے میں بتا رہی تھیں۔
مسٹر لوئس نے انکشاف کیا کہ وہ اس لت سے صحت یاب ہو رہے ہیں اور انھوں نے ڈاکٹر وین زل سے گفتگو کا آغاز کیا تھا۔ ڈاکٹر زل نے ان سے کہا کہ کیا وہ لت کے بارے میں ان کے ایک مریض سے بات کرنا پسند کریں گے۔
‘وہ سب کے لیے وقت نکال لیتی تھیں، یہاں تک کہ مجھ جیسی خبطی کے لیے بھی جو کہ ان سے 8000 کلومیٹر دور صحرا میں مقیم ہو۔’ ان کا کہنا ہے کہ وہ بالآخر دوست بن گئے۔
‘حیرت انگیز چیزوں کی چاہنے والی’
ڈاکٹر وین زل کی زندگی ڈی جے بننے کا ہنر سیکھنے سے لے کر جوہانسبرگ کے کایا ایف ایم سٹیشن پر اپنا ہفتہ وار ٹاک شو ‘سائڈ بار ود سندی’ تک پھیلی ہوئی تھی لیکن اس کی بنیاد میں ان کا اپنے مریضوں کے ساتھ عہد اور اپنی فیملی سے محبت تھی۔
کایا ایف ایم نے انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا: ‘وہ اپنے ہر کردار سے لطف اندوز ہوتی تھیں، ایک بیٹی، دوست، محقق، بہن، خالہ، کزن، ڈاکٹر، اسپیکر، کاروباری، طالب علم، سماجی تتلی، پرفومیسٹا، ڈی جے اور حیرت انگیز چیزوں کو پسند کرنے والوں کے طور پر لیکن ایک ماں اور بیوی کے طور پر وہ اپنے بام عروج پر تھیں۔’
ڈاکٹر وین زل کے دو بچے نندی اور مانی باقاعدگی سے ان کی ٹوئٹر ٹائم لائن پر نظر آتے تھے۔
وہ بچے کی ولادت کے بعد کے ذہنی دباؤ میں مبتلا ہونے کے بارے میں کھل کر بات کرتی تھیں اور انھوں نے اپنے اس تجربے کو دوسری ماؤں کی مدد کے لیے استعمال کیا۔
ان کی اپنی ماں کی موت نے انھیں دل کی گہرائیوں تک متاثر کیا اور وہ اکثر اس کے بارے میں بات کرتی تھیں کہ انھیں پیشہ ورانہ مدد کیسے ملی۔ ان کی موت کے بعد جو ہزاروں کہانیاں شیئر کی جا رہی ہیں اس میں بہت سے لوگوں نے بتایا کہ انھوں نے ڈپریشن یعنی افسردگی سے باہر نکلنے میں ان کی کس طرح مدد کی۔
تین سال قبل ایک ایوارڈ کی تقریب میں ڈاکٹر زل نے بتایا کہ کس طرح 19 سال میں رونما ہونے والے ایک واقعے سے ان کے طب کے متعلق تبدیلی آئی۔
انھوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ان کا علاج کیوں کیا جا رہا تھا لیکن انھوں نے یہ ضرور بتایا ڈاکٹروں اور نرسوں نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ ‘وہ میری جان بچانے والے نہیں ہیں۔’
‘میں نے پھر فیصلہ کیا کہ جب میں میڈیکل ڈاکٹر بنوں گی تو میں نہیں چاہوں گی کہ کوئی ایسی صورت حال سے دوچار اور اتنا بے بس ہو کہ اس یہ پتا نہ ہو کہ اسے کیا کرنا ہے۔‘
‘جب آپ بیمار ہوتے ہیں تو آپ بہت لاچار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے فون پر گھنٹوں پورے جنوبی افریقہ اور پوری دنیا کے اجنبیوں کی مدد کرتی ہوں کیونکہ میں بھی اس سے گزر چکی ہوں۔’
ان کی دوست اور بزنس وومن فرح فارچون کی سنہ 2018 میں ایک فوٹو شوٹ میں ڈاکٹر وین زل سے ملاقات ہوئی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ کبھی بھی سمجھ نہیں سکیں کہ ڈاکٹر کو اتنے لوگوں سے بات چیت کرنے کا وقت کہاں سے ملتا تھا۔
فارچون کے مطابق ان کی زندگی بہت مصروف تھی لیکن وہ اپنے تمام کاموں کی تشہیر نہیں کرتی تھیں۔ وہ لوگوں کی مدد پیسے سے کرتیں ان کے ٹیکسی کے کرایے دے کر دیتی تھیں۔
وہ اپنے دوست کی اس کیفیت کی وضاحت اس بات سے کرتی ہیں کہ وہ بھی ذہنی مرض میں مبتلا رہ چکی تھیں، اس لیے وہ اس طرح کرتی تھیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ‘وہ اپنی زندگی میں ایک ایسے دور سے گزریں جہاں وہ افسردگی سے دوچار ہوئیں اور اس سے نکلنے میں انھیں کافی وقت لگا۔ اور جب وہ اس سے باہر آئیں تو وہ ایک ساتھ ہی سب کچھ کرنا چاہتی تھیں۔’
ان کے ساتھی ڈاکٹر سیفاس چیکندا نے کہا کہ وہ اور بہت سے دوسروں نے ان سے سیکھا کہ علاج کس طرح کیا جاتا ہے۔
انھوں نے جمعرات کو جوہانسبرگ میں ایک سروس کو بتایا: ‘وہ آپ کی کہانی سننا چاہتی تھی اور اپنی کہانیاں بھی شیئر کرتی تھیں۔ وہ معلومات بانٹنے میں سخی تھیں۔’
ڈاکٹر وین زل کو فروری میں کووڈ 19 ہو گیا اور انھوں نے انتہائی نگہداشت یونٹ میں کئی ہفتے گزارے۔ان کی زندگی کے آخری دو ماہ ایک مقامی ہسپتال میں گزرے۔
‘سندی کی طرح محبت’
جمعرات کو ان کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ان کے شوہر مارینس وین زل یاد کرتے ہوئے بتایا کہ دوران علاج ان کے وارڈ کی ایک نرس نے پوچھا: ‘سندی اتنی خاص کیوں ہیں؟’
ان کا جواب تھا کہ بہت سے لوگوں کے لیے پیار انھیں مخصوص بناتا ہے اور انھوں وہاں موجود ہر ایک سے کہا کہ ‘سندی کی طرح محبت کریں۔’
ان کے دو چھوٹے بچوں نے بھی اپنی والدہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان کے دس سالہ بیٹے مانی نے اپنے گالوں سے آنسو پونچھتے ہوئے انھیں ایک اچھا انسان بتایا۔ لیکن انھوں نے قابلِ ذکر پرسکون انداز اور پختگی کے ساتھ کہا ‘لیکن تمام اچھی چیزیں ایک دن ختم ہو جاتی ہیں۔’
ان کی 13 سالہ بیٹی نندی نے بتایا کہ ان کی والدہ کس طرح اپنے سارے مریضوں کو اپنے گھر کا فرد سمجھتی تھیں۔
اپنے آخری دنوں میں بھی وہ اپنے مریضوں کو دوسرے ڈاکٹروں کے پاس بھیج رہی تھیں تاکہ انھیں مدد کی مدد مل سکے۔
ڈاکٹر زل کے نام سے منسوب ایک یادگار صفحے پر ہزاروں لوگوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے جن میں ان کے دوست سے لے کر ان کے طلبہ اور اجنبی بھی شامل ہیں اور ہر ایک نے ان کی بظاہر بے حد توانائی کا ذکر کیا ہے جس نے سب کو کسی حد تک چھو لیا تھا۔
زمکیٹا مکاویٹو نے کہا کہ ان کی مدد کی اس وقت کی گئی ‘جب وہ ایک انتہائی تاریک مرحلے سے گزر رہی تھیں اور، اپنی زندگی ختم کرنے کے دہانے پر تھیں۔’
جبکہ فیتھ میمفوکا نے انھیں ایک خوبصورت روح قرار دیا: ‘ہمیشہ مہربان، آپ کو ہنسانے کے لیے ہمیشہ تیار۔ بے لوث اوربے حد کھلی۔ میرے احمقانہ سوالوں کا ہر وقت جوش و خروش سے جواب دینے کے لیے آپ کا شکریہ۔ ہم سب کا اس طرح علاج کرنے کے لیے شکریہ جیسے آپ ہم سب کو جانتی ہوں۔’
ان کے والد موکادیئی مسونڈا زمبابوے کے ایک بزنس مین اور سیاست دان ہیں انھوں نے اپنی بیٹی کے لیے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ وہ ‘میری دادی جو ہمارے اندر بھرنا چاہتی تھی وہ اس کا جیتا جاگتا مظہر تھی کہ ‘تم ہو تو ہم ہیں۔’
دوسرے لفظوں میں انھوں نے کہا کہ ‘جو کچھ بھی آپ حاصل کرنا چاہتے ہو وہ آپ تنہا حاصل نہیں کرسکتے۔’
انھوں نے اس اصول کی پیروی میں اپنی زندگی بسر کی اور جب ہسپتال میں طویل قیام کی وجہ سے میڈیکل بل بڑھنے لگے تو لوگوں نے اس برادری سے رجوع کیا جس کو انھوں نے اتنے برسوں میں تیار کیا تھا۔
اور لوگوں نے #گفٹ سندی لائف مہم کے تحت صرف ایک دن میں انھیں 70 ہزار امریکی ڈالر کا عطیہ دیا۔
یہ اس بات کے ثبوت ہیں کہ وہ لوگوں کے لیے کس اہمیت کی حامل تھیں اور یہ امید کی جاتی ہے کہ ایک فاؤنڈیشن کے قیام سے ڈچز آف ہیلنگ زندگی رہیں گی۔
Comments are closed.