بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’مجھے معلوم ہے طالبان لڑکیوں کو سکول میں پڑھنے نہیں دیں گے‘

افغانستان کا مستقبل: ’مجھے معلوم ہے طالبان لڑکیوں کو سکول میں پڑھنے نہیں دیں گے‘

  • زحل احد
  • بی بی سی دری

خفیہ سکول کا خاکہ

امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے پسِ منظر میں بی بی سی نے تین مختلف نسلوں کی تین خواتین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ انھیں مستقبل کے حوالے سے کیا خدشات لاحق ہیں۔

ان میں سے ایک تجربہ کار ٹیچر ہیں، دوسری یونیورسٹی سے گریجویٹ ہو چکی ہیں جبکہ تیسری ابھی سکول میں پڑھ رہی ہیں۔ ان تمام خواتین کا ماننا ہے کہ عالمی وبا کے دوران انھیں نہ صرف ڈیجیٹل تقسیم سے نبرد آزما ہونا پڑا بلکہ صنفی امتیاز، تہذیب اور تنازع کے خلاف بھی جنگ لڑنی پڑی۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ شہلا فرید نے کتابیں چھپانا شروع کر دی ہیں اور نہ ہی یہ کوئی انھونی ہے کہ وہ اب ایک خفیہ سکول شروع کرنے کا منصوبہ رکھتی ہیں۔

شہلا سمیت افغانستان کی کئی خواتین کی بیٹیوں کی تعلیم خطرے سے دوچار ہے۔

استانی

شہلا اس سے قبل ایک سکول ٹیچر تھیں تاہم آج کل وہ ملک کے دارالحکومت میں قائم کابل یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔

لاک ڈاؤن کے دوران وہ آن لائن پڑھاتی رہی ہیں لیکن وہ بتاتی ہیں کہ ان کے اکثر طلبہ آن لائن کلاسوں کے دوران مسائل سے دوچار رہے ہیں۔

’میری اکثر طالبات کے پاس سمارٹ فون نہیں ہے اور اکثر کو ان کی فیملیز انٹرنیٹ استعمال نہیں کرنے دیتیں۔

’جن طالبات کو کلاس میں شامل ہونے کے لیے ان کے گھر کے کسی مرد کا فون دیا جاتا، ان کی کلاس کے دوران نگرانی کی جاتی، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ کس سے بات کر رہی ہیں۔‘

تاہم صرف ڈیجیٹل تقسیم ہی خواتین کے لیے رکاوٹ نہیں ہے۔

افغانستان میں مسلح طالبان اور حکومت کے درمیان جاری تنازع ایک انتہائی اہم موڑ پر ہے۔

جہاں امریکی کی سربراہی میں یہاں موجود افواج کا انخلا جاری ہے، اکثر افراد کو خدشہ ہے کہ سخت نظریات رکھنے والے اسلام پسند گروہ کی طاقت میں اضافہ ہو گا۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران طالبان کی جانب سے کچھ علاقوں پر قبضوں کے دعوے کیے گئے ہیں۔

طالبان شدت پسند پدر شاہی قوانین نافذ کرنے کے لیے مقبول ہیں اور انھوں نے اس سے قبل حکمرانی کے دوران خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کی تھی اور خواتین کو نوکری کرنے یا کسی مرد رشتہ دار کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔

تاہم اب طالبان کا کہنا ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’خواتین ہوں یا مرد دونوں کے لیے تعلیم انتہائی اہم ہے۔ تاہم خواتین کے لیے ایک خصوصی اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور انھیں پڑھانے کے لیے خواتین اساتذہ کو ہی تعینات کرنا چاہیے۔‘

Artistic image of chasing dreams and ambitions

تاہم شہلا سمیت خواتین کے حقوق کے اکثر حمایتیوں کو ڈر ہے کہ خواتین کو ایک مرتبہ پھر تعلیم سے مکمل طور پر محروم کر دیا جائے گا۔

شہلا کی عمر اب 60 سال کے قریب ہے اور وہ بتاتی ہیں کہ کیسے انھوں نے ماضی میں اس وقت ایک خفیہ سکول قائم کیا تھا جب طالبان نے ملک کا انتظام سنبھالا ہوا تھا۔

ان کی اکثر طالبات کی عمریں نو اور 10 برس کے درمیان تھیں اور وہ روایتی نیلا برقعہ پہنے اس خفیہ سکول میں پڑھنے آتی تھیں۔ شہلا اپنی طالبات کو یہ نصیحت کیا کرتیں کہ وہ اپنی انگریزی کی کتابیں، اسلامی کتابوں میں چھپا کر لایا کریں تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے۔

اپنے گھر کے پیچھے موجود ایک باغیچے میں درخت اور خیمے کے سائے تلے شہلا ایک سلیٹ بورڈ کے ذریعے طالبات کو پڑھایا کرتی تھیں۔

شہلا اس دوران اپنی مشکلات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں نے یہ سکول 20 لڑکیوں سے شروع کیا تھا، لیکن اس کا اختتام صرف چار لڑکیوں پر ہوا، جن میں سے دو میری اپنی بیٹیاں تھیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ طالبان اکثر ان کے گھر پر چھاپہ مارتے تھے تاکہ سکول کی موجودگی کے بارے میں جان سکیں لیکن صرف ایک مرتبہ ’عارضی طور پر‘ وہ سکول کو بند کروا سکے۔

آج پچاس برس بعد شہلا کا کہنا ہے کہ وہ بہت غمگین ہیں کہ انھیں ایک مرتبہ پھر کتابیں اکھٹی کرنا پڑ رہی ہیں تاکہ اگر انھیں دوبارہ خفیہ سکول کھولنا پڑے تو ان کے پاس کتابیں موجود ہوں۔

طالبہ

شہلا کے گھر سے سات گھنٹے کی مسافت پر 16 سالہ وحیدہ کا گھر ہے۔

وحیدہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ہر روز پیدل ہی سکول جاتی ہیں لیکن ان کی سکول جانے کی خواہش ان کے خاندان میں تناؤ کا سبب بن رہی ہے۔

ان کے والد اور دادا ان سے بات نہیں کرتے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ کہتے ہیں کہ مجھے سکول چھوڑ کر شادی کر لینی چاہیے۔‘

Artistic image of pursuing an education

وحیدہ اپنی فیملی کے ساتھ افغانستان کے صوبہ قندھار میں رہتی ہیں جہاں سے طالبان کی بطور گروہ ابتدا ہوئی تھی اور یہاں اکثر علاقے آج بھی ان کے زیرِ انتظام ہیں۔

صوبے میں موجود 17 اضلاع میں سے صرف تین میں لڑکیوں کے لیے سکول موجود ہیں۔

جب بی بی سی نے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے پوچھا کہ اتنے سارے اضلاع میں خواتین کی تعلیم کے لیے سکول کیوں نہیں ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ’قندھار اور ہلمند میں جنگ اتنی شدت کے ساتھ ہوتی رہی ہے کہ سکولوں کو بند کرنا پڑا ہے۔ یہاں لڑکوں کے سکول بھی انتہائی کم تعداد میں ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’اس کے علاوہ یہ لوگوں کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ مقامی افراد اور ان کے ثقافتی قواعد لڑکیوں کے سکول جانے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اس میں کچھ وقت لگے گا، لیکن ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‘

وحیدہ کی تعلیم جاری رکھنے کے پیچھے ان کے بڑے بھائی اور والدہ کی مدد شامل ہے۔

ان کی والدہ کو سکول جا کر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن انھوں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ بڑھتی کشیدگی کے باوجود خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کے لیے لڑتی رہیں۔

وحیدہ کہتی ہیں کہ ’مجھے امید ہے کہ میں اپنی والدہ کے خوابوں کو سچ ثابت کر سکوں گی۔ لیکن موجودہ صورتحال میں مجھے خدشہ ہے کہ یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کر کے دوسروں کے لیے مشعل راہ بننا تو درکنار میں سکول کی تعلیم بھی مکمل نہیں کر سکوں گی۔

تاہم وحیدہ اب بھی پُرامید ہیں کیونکہ ان کے سامنے شمسیہ علی زادہ جیسی کہانیاں بھی موجود ہیں۔

گریجویٹ لڑکی

یہاں ایسی خواتین بھی ہیں جو ڈیجیٹل تقسیم، موجودہ تنازع، صنفی امتیاز اور کووڈ 19 کے باوجود مثالی کردار کی مالک ہیں۔

گذشتہ برس شمسیہ نے افغانستان میں یونیورسٹی میں داخلے کے لیے لیے گئے امتحان میں ایک لاکھ 70 ہزار افراد سے زیادہ نمبر لیے۔

کوئلے کی کان میں کام کرنے والے کان کن کی بیٹی ہونے کے باعث انھوں نے کابل کے انتہائی پسماندہ اور خطرناک علاقوں میں زندگی بسر کی۔

کابل یونیورسٹی پر حملے کا آرٹسٹک خاکہ

سنہ 2018 میں ان کے سکول پر نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا جس میں ان کی 46 سے زیادہ ساتھی طالبات ہلاک ہو گئی تھیں۔

سنہ 2020 میں جب ان کا خاندان ایک نئے علاقے میں منتقل ہوا تو ان کے نئے سکول پر بھی نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے حملہ کر دیا۔

شمسیہ کہتی ہیں کہ ’افغانستان میں تعلیم حاصل کرنا مشکل ہے اور میرے اس حوالے سے بہت سے خدشات ہیں۔ تاہم ہمارے تعلیمی مرکز نے کچھ سکیورٹی کے انتظامات کیے ہیں جن کی وجہ سے ہمیں مدد ملی ہے۔

’اور جب آپ پڑھائی میں اتنے مصروف ہوتے ہیں تو آپ سکیورٹی کے حوالے سے زیادہ نہیں سوچتے۔‘

ترکی میں پڑھائی کے لیے وظیفہ حاصل کرنے والی شمسیہ اب ڈاکٹر بننے کی ٹریننگ حاصل کر رہی ہیں۔

نام نہاد دولتِ اسلامیہ ایک نیا خطرہ

گذشتہ نومبر، جب شہلا کابل یونیورسٹی میں پڑھا رہی تھیں تو متعدد مسلح افراد نے یونیورسٹی میں داخل ہو کر کلاس رومز پر فائرنگ شروع کر دی۔

شہلا کہتی ہیں کہ ’میں کتابوں کی ایک نمائش میں تھی جب مجھے اچانک مسلسل گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ ہر طرف طالبعلم بھاگے جا رہے تھے، کچھ رو رہے تھے اور کچھ دروازے طرف بھاگتے ہوئے فون پر بات کر رہے تھے۔‘

جب حکومتی سکیورٹی فورسز موقع پر پہنچیں تو حملہ آوروں اور حکومتی فورسز کے درمیان جھڑپ شروع ہو گئی جو گھنٹوں جاری رہی۔

اس حملے میں 22 افراد ہلاک ہوئے اور 22 سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے۔

شہلا کہتی ہیں کہ ’ہلاکت ہونے والوں زیادہ تر خواتین تھیں اور پولیس بھی زخمی خواتین کی مدد کرنے کو تیار نہیں تھی کیونکہ ان کے نزدیک خواتین کو چھونا حرام ہے۔‘

’تاہم بعد میں جب سپیشل فورسز کے اہلکار آئے تو انھوں نے لڑکیوں کو باہر لے جانے میں مدد کی۔‘

نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے ’افغان حکومت کے لیے کام کرنے والے ججوں اور تفتیشی افسران کو نشانہ بنایا ہے۔‘

نام نہاد دولتِ اسلامیہ خراسان اس گروہ کی ایک برانچ ہے جو سنہ 2014 میں قائم ہوئی تھی۔

اس کے بعد سے انھوں نے کابل میں تعلیمی اداروں اور سکولوں پر ہونے والے انتہائی ہلاکت خیز حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

Artistic image of the struggle for female education in Afghanistan

خواتین اور بچوں کے علاوہ نومولود بچے بھی گذشتہ برس ایسے ہی حملے کا نشانہ بنے تھے جس کی ذمہ داری نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے قبول کی تھی۔ یہ حملہ ایک ہسپتال کے زچہ بچہ وارڈ پر کیا گیا تھا جس میں 16 افراد ہلاک جبکہ 16 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

تعلیم سے محبت کرنے والی شہلا کے لیے نام نہاد دولتِ اسلامیہ جیسے گروہوں کی جانب سے تشدد میں اضافہ اور طالبان کا اپنے زیرِ انتظام علاقے میں توسیع کرنے کے دعوے دوبارہ کتابیں اکھٹی کرنے کے لیے کافی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یہ یقینی بنانا ہے کہ میرے پاس کثیر تعداد میں کتابیں، ٹوٹ پیڈز، قلم، اور خیمہ خریدنے کے لیے رقم موجود ہو۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ طالبان لڑکیوں کو سکولوں میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اب بھی جب وہ کسی ضلع پر قبضہ کرتے ہیں، تو وہ سب سے پہلے لڑکیوں کے سکول بند کرتے ہیں۔‘

اس تحریر میں شامل کیے گئے خاکے جلا دستمالچی نے بنائے ہیں

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.