میانمار میں فوجی بغاوت: شہری تشدد سے بچنے کے لیے انڈیا میں پناہ لے رہے ہیں
یہ بچی اپنی ماں کے ہمراہ سرحد پار انڈیا میں پناہ لینے پہنچی
میانمار کے شہری فوجی حکومت کے اقتدار پر قبضے کے بعد شروع ہونے والے تشدد کے واقعات کی وجہ سے اپنے ملک سے محفوظ جگہوں پر پناہ لینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
بی بی سی ہندی کے راگویندرا راؤ کے مطابق ایسے لوگوں کی اکثریت جو سرحدی علاقوں کے قرب و جوار میں رہتی ہے، وہ انڈیا میں پناہ لینے کے لیے ہجرت پر مجبور ہے۔
یہ ماکھائی کی تیسری کوشش تھی جب وہ پناہ حاصل کرنے کے لیے انڈیا میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئیں جبکہ باقی بہت سارے لوگ زیرِ زمین طوفانی نالوں سے گزر کر سرحد پار کر پائے ہیں۔ یہ نالے سرحد کے دونوں جانب آباد دیہاتوں کے درمیان قدرتی رابطہ بناتے ہیں۔
پچھلی دو کوششوں کے برعکس اس مرتبہ انڈین سکیورٹی فورسز نے انھیں روکا نہیں۔
ماکھائی ایک فرضی نام ہے جو اصل خاتون کے تحفظ کی وجہ تبدیل کیا گیا ہے۔ وہ 42 برس کی ہے۔ وہ میانمار سے فرار ہونے پر مجبور ہوئی تھیں۔ رواں ماہ کے شروع میں وہ اپنی بہنوں اور بیٹی کے ہمراہ سرحدی ضلع تمو میں واقع میانمار میں اپنے گھر سے فرار ہوئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
وہ شمال مشرقی انڈیا کی ریاست منی پور میں داخل ہوئے تھے۔ مکھائی نے کہا کہ وہ صرف ہجرت کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھے اب فرار ہونے کا موقع ملا تھا۔ اگر میں زیادہ انتظار کرتی تو شاید مجھے دوسرا موقع نہ ملتا۔‘
میانمار جسے برما بھی کہا جاتا ہے، اس وقت تشدد کی لپیٹ میں ہے۔ فروری میں ملک کی فوج نے جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا اور میانمار کی سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کو نظر بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد کے ہفتوں میں فوج نے عوامی مزاحمت کو بغاوت کہتے ہوئے اس پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات لیے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ فوج نے 43 بچوں سمیت 600 سے زائد افراد کو ہلاک کیا ہے۔
مکھائی کا کہنا ہے کہ فوجی گھروں میں گھس جاتے ہیں اور توڑ پھوڑ کرتے اور عام شہریوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں اور انھیں مارتے پیٹتے ہیں۔
کورونا وبا کے دوران انڈیا اور میانمار کی سرحد کو بند کر دیا گیا
میانمار سے آنے والے لوگوں نے وہاں سڑکوں اور یہاں تک کہ گھروں میں لوگوں کے مارے جانے کی کہانیاں سنائیں۔
ان میں سے کسی نے ایک چھ برس کی بچی کا واقعہ بھی سنایا جسے مبینہ طور پر گھر پر چھاپے کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ اپنے والد کے پاس بھاگ کر گئی تھی۔
میانمار فوج کے ترجمان بریگیڈئیر جنرل زاؤ من تون نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ فوج کسی بھی حالت میں کسی گھر میں گھس کر ایک بچی کو گولی نہیں مار سکتی اور اگر ایسا ہوا ہے تو وہ اس واقعے کی تحقیقات کریں گے۔
لیکن سکیورٹی فورسز کے ذریعے اس طرح کے مظالم کی خبریں بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہیں اور جن کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر کافی شور مچا ہوا ہے۔
مکھائی نے کہا کہ جب سے یہ تشدد شروع ہوا ہے ہم اپنے گھروں میں رہنے سے خوفزدہ ہیں۔ ’ہم نے جنگل میں چھپ کر بہت ساری راتیں گزاریں۔‘
منی پور کی ریاستی حکومت نے حال ہی میں سرحدی اضلاع کے اہلکاروں سے کہا تھا کہ وہ میانمار سے آنے والے مہاجرین کو ’شائستگی سے واپس لوٹا دیں‘ تاہم جب لوگوں نے ریاستی حکومت کی اس ہدایت کی مذمت کی تو ریاست نے اس ہدایت کو واپس لے لیا۔
ایک دوسرے حکم میں ریاستی حکومت نے کہا کہ وہ میانمار سے زخمی ہونے والے مہاجرین کو علاج کروانے سمیت ’انسان دوستی پر مبنی تمام اقدامات‘ لیں۔
لیکن انڈیا میں غیر قانونی امیگریشن ایک نازک سیاسی مسئلہ ہے، خاص طور پر مغربی بنگال اور آسام میں جہاں ریاستوں کے علاقائی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان دو ریاستوں میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ماضی میں مختلف موقعوں پر آتی رہی ہے جس کی مقامی لوگ شدید مخالفت کرتے ہیں۔
لوگ کچے راستوں کے ذریعے سرحد عبور کر رہے ہیں
دو دیگر خواتین جو مکھائی کے ہمراہ انڈیا پہنچی، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ میانمار کے حالات میں بہتری آنے پر ہی گھر واپس جانے پر غور کریں گی۔ ان کے شوہر اور ان کے خاندان کے دیگر مرد تاحال میانمار میں ہی ہیں۔
وینئی، جو کہ ایک فرضی نام ہے، نے بتایا کہ ’اگر ضرورت پڑی تو مرد لڑ بھی سکتے ہیں۔ ہم عورتوں کے لیے فرار ہونا مشکل ہو جاتا ہے اگر کوئی فوجی اچانک گھر پر دستک دے۔‘ وہ اپنی نو عمر بیٹی کے ساتھ تمو سے بھاگنے پر مجبور ہوئی تھیں۔
جب تک کہ یہ لوگ اپنے آپ کو اپنے ملک میں محفوظ محسوس نہیں کریں گے وہ منی پور کے ضلع مورہ میں اپنے ہمسایہ ممالک میں رہنے پر مجبور ہیں۔ میانمار کے ساتھ انڈیا کی سرحد کے ساتھ واقع ضلع مورے کو ایک بڑی اہمیت مل گئی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے مابین تمام سرکاری راستوں کو بند کر دیا گیا ہے۔
برسوں سے انڈیا اور میانمار میں سرحد پار کرنے کا ایک آزادانہ سلسلہ قائم رہا ہے جس کی وجہ سے دونوں اطراف کے مقامی افراد 16 کلومیٹر تک کا سفر طے کر سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ 14 دن وہاں مقیم رہ سکتے ہیں۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مارچ سنہ 2020 میں یہ انتظام معطل ک ردیا گیا تھا۔ دونوں اطراف کے لوگوں نے امید ظاہر کی تھی کہ رواں سال سرحد دوبارہ کھل جائے گی لیکن فروری کی بغاوت نے ان امکانات کو ختم کر دیا تھا۔
میانمار کے گاؤں تمو کی عورتیں انڈیا کے گاؤں مورہ میں دودھ فروخت کرنے آتی ہیں
اس وجہ سے میانمار کے بہت سے شہریوں کو ابھی تک سرحد کے اس پار غیر قانونی سفر کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔
ایک تاجر جو روزانہ 20 گھرانوں کو دودھ سپلائی کرنے مورہ آتا ہے، اس نے کہا کہ ’اب انڈیا آنا مشکل ہے۔ اکثر انڈین سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہمیں روکتے ہیں لیکن ہم چپکے سے سرحد پار کرتے رہتے ہیں۔ وہاں ہمارے گھروں میں سب کام بند پڑا ہے۔ وہاں فائرنگ اور دھماکے ہو رہے ہیں۔‘
میانمار میں فوج کے خلاف مظاہروں کی وجہ سے بڑی تعداد میں سرحد سے مسلح افواج کو اندرون ملک تعینات کیا گیا ہے جس کی وجہ سے سرحدیں اور سرحدی علاقے زیادہ محفوظ نہیں رہے ہیں۔ دوسری جانب انڈیا نے بھی ان سرحدی علاقوں میں اپنی فوج میں اضافہ نہیں کیا، جو روزانہ سفر کرنے والوں کو روکنے کے لیے کافی نہیں۔
اپنا تجارتی سامان بیچنے کے بعد میانمار کے یہ شہری کچے اور جنگلی راستوں کے ذریعے سرحد پار کرتے ہیں۔
کچھ کا خیال ہے کہ دونوں اطراف کی سکیورٹی فورسز لوگوں کی اس آمدورفت کو نظر انداز کردیتی ہیں۔
مورہ سے 100 کلو میٹر دور منی پور کے دارالحکومت امپھال میں میانمار کے دو شہری جو گولیاں لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے تھے، ان کا ایک سرکاری ہسپتال میں علاج ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق یہ گولیاں انھیں میانمار میں فوج نے ماری تھیں جب مظاہرین اور فوج کے درمیان 25 مارچ کو تصادم ہوا تھا۔
ان زخمیوں میں سے ایک نے کہا کہ ’میانمار کے فوجی تمو میں جیولری کی ایک دکان لوٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب مقامی باشندوں نے اعتراض کیا اور احتجاج کیا تو انھوں نے فائرنگ کر دی۔ مجھے گولی مار دی گئی۔‘
دوسرے زخمی نے کہا کہ ’اس سے قبل بھی پولیس احتجاج سے نمٹنے کے لیے آتی تھی لیکن اس طرح کا تشدد پہلے نہیں ہوا تھا۔ صورتحال اس وقت بگڑنے لگی جب فوج نے لوگوں پر فائرنگ شروع کردی۔‘
جھڑپ کی رات ان افراد کو تمو سے مورہ کے ہسپتال لایا گیا لیکن میانمار میں گھروں سے بھاگنے والی خواتین کے برعکس یہ مرد جلد سے جلد اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ واپس جانا چاہتے ہیں۔
’دوستی کا پل‘ کہلانے والا یہ سرحدی راستہ آج کل بند پڑا ہے
مقامی سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کوکی کے ممبران ان دونوں زخمی افراد کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور انھیں گھر کا پکا ہوا کھانا پیش کر رہے ہیں۔
تنظیم کے نائب صدر جنگون لو خونگسائی نے کہا کہ ’چونکہ مورہ میں صحت کا مرکز زیادہ بہتر میعار کا نہیں، اس لیے انھیں امپھال لایا گیا۔
کوکی ایک پہاڑی قبیلے کا نام ہے جس کے لوگ انڈیا کی ریاست منی پور، بنگلہ دیش اور میانمار کے سرحدی علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس خطے میں رہنے والے لوگوں کے مابین سرحد پار آمدورفت کو ممکن بناتے ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مقامی حکام کے احکام کے برعکس اہل مورہ ان مہاجرین سے ہمدردی کیوں رکھتے ہیں۔
مورہ یوتھ کلب کے فلپ خونگسائی نے کہا ’ہم ان کی انسانی بنیادوں پر میزبانی کریں گے۔‘
اس یوتھ کلب کے ممبران اُن لوگوں کو کھانا اور پانی فراہم کر رہے ہیں جو سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں۔ ’حکومت کو اپنا کام کرنے دیں، ہم اپنا کام کریں گے۔‘
توقع ہے کہ میانمار سے آنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہو گا اور مورہ میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا کو مشکل وقت میں دوسری طرف کے لوگوں کی مدد کے لیے تیار ہونے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک میانمار سے فرار ہونے والے افراد کا تعلق ہے، ہر دن ان کا خوف بڑھتا جا رہا ہے کہ کہیں انھیں واپس میانمار نہ دھکیل دیا جائے۔
Comments are closed.