متنازعہ آپریشن ’بے بی لفٹ‘ جس کے ذریعے امریکہ نے ہزاروں ویت نامی بچوں کو نکالا
جب امریکی فضائیہ کی کرنل ریجینا اونے نے سی-5 کارگو طیارے میں دھماکے کی آواز سنی تو انھیں فورا ہی احساس ہوا کہ ان کے پاس سینکڑوں بچوں کو حفاظت سے اتارنے کے لیے صرف چند سیکنڈ ہی ہیں۔
اونے پہلی خاتون ہیں جنھیں فریکچر ہونے کے باوجود کئی بچوں کو بچانے کے کے لیے ‘بہادری اور بے لوث کاموں’ کے لیے ایئر فورس سے چینی ایوارڈ ملا۔ انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا: ‘ہمیں معلوم تھا کہ ہم نیچے جا رہے ہیں۔’
لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ کہاں جا رہے ہیں کیونکہ سی-5 [کارگو طیارہ ہونے کے ناطے] میں کھڑکیاں زیادہ نہیں تھیں۔ ہمیں بس اتنا معلوم تھا کہ ہم طیارے کو ہونے والے نقصان کو دیکھ سکتے ہیں۔’
امریکی فضائیہ کی لاک ہیڈ سی-5 اے گیلیکسی پرواز جو حادثے کا شکار ہوئی اس میں کرنل اونے 4 اپریل سنہ 1975 میں سفر کر رہی تھیں۔ اور یہ پرواز نام نہاد ‘بیبی لفٹ آپریشن’ کی پہلی پرواز تصورکی جاتی تھی جو کہ امریکی مسلح افواج کی ایک بڑی کوشش کہی جاتی ہے اور جس کے تحت ویتنام کی جنگ کے خاتمے پر 3,300 سے زائد بچوں کو ایشیائی ملک سے نکالا گیا تھا۔
اس آپریشن میں آسٹریلیا، مغربی جرمنی، فرانس اور کینیڈا جیسے دوسرے ممالک نے بھی شرکت کی تھی۔
اس وقت کے امریکی صدر جیرالڈ فورڈ نے 3 اپریل سنہ 1975 کو سان فرانسسکو سے اعلان کیا کہ ‘میں نے ہدایت کی ہے کہ جنوبی ویتنام سے 2,000 یتیم بچوں کو جلد از جلد امریکہ پہنچانے کے لیے بچوں کے بین الاقوامی امدادی فنڈ میں 20 لاکھ امریکی ڈالر مختص کیے جائیں۔’
بہر حال سی-5 حادثہ بیبی لفٹ آپریشن کا واحد حادثہ نہیں تھا جس نے سینکڑوں لوگوں کی زندگیوں کو ناقابل تلافی طور پر متاثر کیا۔
یونیورسٹی آف میساچوسٹس میں تاریخ کے پروفیسر کرسٹین ایپی نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ‘آپریشن کا ایک منفی پہلو بھی تھا اور وہ یہ کہ تمام بچے یتیم نہیں تھے۔
‘بہت سے ناقدین کا کہنا تھا کہ ان بچوں کو ان کے والدین کی رضامندی کے بغیر امریکہ بھیجنا انھیں اغوا کرنے کے مترادف تھا۔’
اثرات
سی-5 دھماکے کی آواز آنے سے پہلے 22,000 فٹ کی بلندی تک پہنچ گیا تھا۔ کرنل اونے کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت ہی خاص آوازہوتی ہے، جسے کوئی بھی تربیت یافتہ شخص آسانی سے پہچان سکتا ہے۔
انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ‘جب آپ کسی بھی قسم کے ایوی ایشن اسکول جاتے ہیں تو آپ کو اونچائی والے چیمبر سے گزرنا پڑتا ہے، اور آپ کو اس قسم کی تیزی سے کمپریشن کا تجربہ کرنا پڑتا ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ جو کچھ ہوا تھا وہ تیز ڈیکمپریشن تھا۔
‘لہذا وہاں ایسا دھماکہ ہوا جو تیزی سے ڈیکمپریشن کے بعد ہوتا ہے، اور میں نے نیچے دیکھا تو وہاں جنوبی بحیرہ چین تھا، جو یقیناً مجھے نہیں دیکھنا چاہیے تھا، اور یہ کہ ریمپ کا دروازہ چلا گیا تھا اور یہ دیکھا جا سکتا تھا کہ کس طرح سارا ہائیڈرولک سیال رس رہا تھا۔’
طیارہ دو بار ٹکرایا: پہلا، کنارے سے دریائے سائگون میں گرا پھر طیارہ ہوا میں اچھلا اور چند میٹر کے فاصلے پر دوسری بار ٹکرایا جس میں 138 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے اکثر بچے تھے۔
آرین لاک ہارٹ نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ان کے خیال میں وہ اس فلائٹ میں تھیں، اور وہ شاید اس وقت صرف ایک سال کی تھیں۔
‘میں جب ایک سال کی تھی تو مجھے گود لیا گیا تھا اور میرے والدین نے ہمیشہ یہی کہا کہ میں اس پہلی پرواز ہر سوارتھی۔’
انھوں نے مزید بتایا: ‘مجھے اپنے حقیقی خاندان کے بارے میں معلومات نہیں ہیں، مجھے اپنی تاریخ پیدائش بھی نہیں معلوم۔ جس راہبہ نے مجھے میرے والدین سے لیا تھا وہ اسی حادثے میں ہلاک ہو گئیں اور ان کے ساتھ، وہ تمام معلومات جو میری ابتدائی زندگی کے بارے میں تھیں وہ بھی جاتی رہیں۔’
اختتام کا آغاز
سنہ 1975 کے اوائل تک ویتنام کی جنگ میں بڑھتے ہوئے تشدد سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ایک پرآشوب خاتمہ قریب آ رہا ہے اور شمال میں کمیونسٹ حکومت کے دستے جنوب میں امریکی فوجی حمایت کے باوجود حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں سے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر رہے تھے۔
جب کرنل اونے کو آپریشن بیبی لفٹ کے پہلے مشن کے لیے ایوارڈ دیے گئے تو اس وقت انھیں ایئر فورس میں آئے صرف چند سال ہی ہوئے تھے۔ ان ہی دنوں ان کی شادی ہوئی تھی اور وہ ایئر فورس میں فرسٹ لیفٹیننٹ تھیں۔
انھوں نے بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘میرا خیال ہے کہ اس وقت پوری دنیا جان گئی تھی کہ ملک [ویتنام کمیونسٹ قوتوں کے ہاتھوں میں] جانے والا ہے۔’
‘چار اپریل کی صبح انھوں نے ہمیں بتایا کہ ہمیں سائگون [جنوبی حکومت کے کنٹرول والے سب سے اہم شہروں میں سے ایک] سے تقریباً 300 لوگوں کو نکالنا ہے، اور یہ کہ اکثریت بچوں کی ہوگی، جن میں سے بہت سوں کی عمر دو سال سے بھی کم ہوگی۔’
ویت کونگ کی آمد کے ساتھ، جنوب میں یہ سمجھا جانے لگا کہ جو بھی امریکیوں، یا جنوبی حکومت کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے، خطرے میں تھا۔ اس سے بھی زیادہ وہ بچے خطرے میں تھے جو امریکی فوجیوں کی وجہ سے مقامی خواتین کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔
آپریشن بیبی لفٹ کے تحت ویتنام سے امریکہ آنے والی لڑکیوں میں سے ایک اور سارن بائنوم تھیں جو اب لوزیانا کے شہر نیو اورلینز میں فلم ساز ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ان کی کہانی تھی۔
بچے
سارن بی بی سی منڈو کو بتاتی ہیں کہ نیو اورلینز جیسے شہر میں ایشیائی اور سیاہ فام خاتون کے طور پر پروان چڑھنا ایک مشکل مرحلہ تھا اور وہ بھی یہ جانتے ہوئے کہ انھیں ان کی والدہ نے چھوڑ دیا ہے۔
خاص طور پر یہ سوچ کر کہ ان کے والدین کیسے ملے ہوں گے۔
‘آپ جانتے ہیں، بعض اوقات جب آپ صدمے سے نمٹ رہے ہوتے ہیں، خاص طور پر اگر آپ بچے ہیں، تو آپ اس کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض اوقات آپ کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کیوں، لیکن پھر بھی آپ اس کا اظہار کرتے ہیں۔’
وہ کہتی ہیں: ‘میرے اندر بہت غصہ تھا، میں مرد شخصیات یا عام طور پر مردوں پر بھروسہ نہیں کرتی تھی کیونکہ میں نے بہت سے لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ جنگ بہت خوفناک تھی اور خواتین کو طوائفوں کے طور پر رکھا گیا تھا، وہ ایک رات کے لیے ان کے ساتھ ہوتی تھیں اور یہ باتیں کافی افسردہ کرنے والی تھیں۔’
لیکن ان کا کہنا ہے کہ فلم ’اینٹوئن فشر‘ میں افریقی نژاد امریکی اداکار ڈینزل واشنگٹن کی ایک لائن نے انھیں مزید سوچنے سمجھنے پر مجبور کیا۔
‘فلم اینٹوئن کی سچی کہانی پر مبنی ہے، جو بحریہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس میں ایک منظر وہ ہے جہاں اینٹوئن انتہائی غصے میں ہے اور ڈینزل نامی کردار اس سے پوچھتا ہے کہ وہ اتنا غصے میں کیوں ہے تو وہ کہتا ہے: ‘میری ماں نے مجھے چھوڑ دیا، میرا باپ مجھ سے محبت نہیں کرتا، میں کیوں پرواہ کروں؟’
‘اس لمحے، ڈینزیل اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ اپنے ماضی کو دیکھنے کے لیے تمہیں اسے سمجھنا ہو گا، معاف کرنا سیکھنا ہو گا اور آگے بڑھنا ہو گا۔ یہ میرے لیے ایک اہم لمحہ تھا۔’
اس جملے کی وجہ سے وہ ویتنام میں اس یتیم خانے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوئیں جہاں وہ پیدا ہوئی تھیں اور یہ جان سکیں کہ ان جیسے بہت سے بچے فوجیوں اور مقامی خواتین کے درمیان محبت کی کہانیوں کا نتیجہ تھے اور ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے وہ ان کی تصدیق کرنے کے قابل تھیں۔
قیمت کے عوض ڈی این اے خدمات فراہم کرنے والی ایک کپمنی سارن کو اپنے پانچ چچا اور پھوپھی زاد بھائیوں سے رابطہ کرنے اور آخر کار اپنے والد کو ڈھونڈنے میں مدد فراہم کی۔ ان کے والد کی سنہ 2015 میں کینسر کی وجہ سے موت ہو گئی۔
آج سارن اپنے والد کے خونی خاندان سے رشتہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔
سارن نے بی بی سی منڈو کو بتایا: ‘میں تھینکس گیونگ کے دوران اپنے چچا سے ملنے گئی۔ ان سب نے مجھے الگ الگ بتایا کہ میرے والد کو میری موجودگی کا علم تھا۔ حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ لڑکی ہے یا لڑکا، لیکن وہ اتنا جانتے تھے کہ ویتنام میں ان کا ایک بچہ ہے۔’
اور پھر وہ بالآخر اس محبت کا ثبوت تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئیں جو ان کی پیدائش کا موجب ہوا: ‘[میرے چچا نے مجھے بتایا کہ میرے والد] کی ایک گرل فرینڈ تھی اور انھوں نے انھیں ان کی تصویر دکھائی تھی اور انھیں بتایا تھا کہ جب وہ وہاں (ویت نام میں) تھے تو ان کا رشتہ تھا۔’
‘اس سے مجھے امید ملتی ہے، کہ میری حیاتیاتی ماں زندہ ہوگی اور جب بھی میری سالگرہ آتی ہوگی یا ہر مدرز ڈے پر وہ میرے بارے میں سوچتی ہوگی۔’
آخری
آرین جیسے دوسروں کے لیے ان کی شناخت کے بارے میں ماضی کا بوجھ کم ہے لیکن وہ بے پناہ تجسس کا موضوع ہے۔
انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ‘ایک خاص حوالے سے، میں نے قبول کر لیا ہے کہ چیزیں ویسے ہی ہوئی جیسی ہونی تھیں۔’
آرین کا کہنا ہے کہ انھوں نے آپریشن بیبی لفٹ کے بارے میں اس طرح جانا جیسے کوئی اپنے چچا اور دادا دادی کے کارناموں کے بارے میں جانتا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انھیں ان کی اپنی ابتدا جاننے کے بارے میں تجسس نہیں تھا۔ درحقیقت آپریشن بیبی لفٹ نے ان کے اندر ایسا تجسس پیدا کیا کہ وہ اس میں شامل کئی لوگوں سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں جن میں کرنل اونے بھی شامل تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم بہت قریب ہو گئے۔ اور ہم اصل میں ایک ساتھ ویتنام گئے اور ایک کتاب لکھنے کا فیصلہ بھی کیا۔‘
آرین بتاتی ہیں کہ آپریشن ایک ایسا موضوع تھا جو ان کی زندگی میں بار بار سامنے آتا رہا ہے۔
آرین نے آپریشن میں نکالے گئے بچوں کے حوالہ سے کہا کہ ‘یہ ایک پیچیدہ اور خوبصورت کہانی ہے جس کے ساتھ لوگ جڑنے کا رجحان رکھتے ہیں۔۔۔یہ حقیقت کہ وہاں ہماری طرح رضاکاروں کے طور پر شامل ہونے کے لیے لوگ تھے۔ یہ بتاتا ہے کہ ہمارا پس منظر ایک تھا اور اس خاص لمحے کے دوران ہمارے تجربات منفرد تھے۔’
جنگ کی گونج
مورخ کرسٹین ایپی بی بی سی منڈو کو بتاتے ہیں کہ تاریخی طور پر آپریشن بیبی لفٹ ایک تنازعے کے خاتمے کا آغاز تھا جس سے بچا جا سکتا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘اصل حملہ آور امریکہ تھا۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے انڈوچائنا پر فرانسیسی فتح کی حمایت میں مداخلت نہ کی ہوتی تو ویتنام ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت کے تحت 1954 کے جنیوا معاہدے کے مطابق دوبارہ متحد ہو جاتا اور اس طرح اس جنگ سے بچا جا سکتا تھا جس میں تیس لاکھ لوگ مارے گئے۔’
اور اگرچہ وہ جنگ کی حقیقت کو سمجھتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انھیں اس وقت امریکی حکومت کے کچھ ارکان کی پوزیشن کو سمجھنے میں مشکل پیش آئی۔
خاص طور پر اس حالت میں جب کہ وہ جان رہے تھے کہ میدان جنگ میں واقعتاً کیا ہو رہا ہے اور پھر بھی اس کے بارے میں ابہام پیدا کرنے میں کامیاب رہے اور امریکی حکام ایسے فیصلے کر سکتے تھے جس سے شاید جانیں بچ سکتی تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘سی آئی اے اور سفارت خانے کے ارکان کی طرف سے بتانے کے باوجود کہ امریکہ کو وہاں سے نکل جانا چاہیے سفیر گراہم مارٹن کا یہ جنونی خیال تھا کہ جنوبی ویتنام پر امریکہ اپنا کنٹرول برقرار رکھ سکتا ہے۔’
لینڈنگ
سی-5 کی دوسری ٹکر نے کرنل عون کو جہاز کی راہداری میں نیچے کی طرف اچھال دیا جس سے ان کی کمر میں ایک ریڑھ کی ہڈی سمیت سنگین فریکچر ہوئے۔
اونے بتاتی ہیں کہ ‘جس چوٹ سے میں سب سے زیادہ واقف تھی وہ میرے پاؤں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں تھیں۔’
‘اور کبھی کبھی آپ کو اس طرح کا احمقانہ خیال آجاتا اور آپ سوچتے ہیں کہ کیونکہ میں نے اپنے بائیں پاؤں کا جوتا کھو دیا ہے (ٹوٹی ہوئی ہڈیاں دائیں طرف تھیں) تو اب مجھے اپنے ٹوٹے ہوئے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑے گا جس میں کہ جوتی تھی۔’
ان کی کہانی میں کبھی بھی شک کا کوئی گمان نہیں ہوتا۔
ان کے مطابق یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں زندہ بچ جانے والے ساتھیوں نے انھیں بتایا۔
ایک جملے کے بارے میں وہ کہتے ہیں اور اس کے بارے میں مجھے کچھ یاد نہیں ہے، لیکن عملے کے دیگر ارکان نے انتہائی سنجیدگی سے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے مجھے کہتے سنا ہے۔ ‘وہ کہتے ہیں کہ میں نے میجر والیس سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ مجھے ڈیوٹی سے فارغ کر دیں۔ میری چوٹیں مجھے اپنا کام جاری رکھنے سے روکیں گی، اور پھر میں بے ہوش ہو گئی۔’
ان سے بات کرتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے عمل کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی ہیں بلکہ اس سے زیادہ وہ عملے کے ساتھیوں کو اہمیت دیتی ہیں جو اس بدقسمت سی-5 کی بیبی لفٹ پرواز پر تھے۔
‘میں نے ہمیشہ محسوس کیا ہے، اور میں نے اس دن جنرل جونز سے کہا بھی تھا کہ یہ چینی ایوارڈ صرف مجھے نہیں، پورے عملے کو ملنا چاہیے تھا۔۔۔’
Comments are closed.