- مصنف, جارج سینڈیمین
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
معروف امریکی گلوکار اور ریپر میکلمور نے جب اپنے دبئی میں مجوزہ لائیو پروگرام کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تو ان کے مداحوں اور شائقین میں سے کچھ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ غزہ کے ساتھ یکجہتی کے لیے انھوں نے ایسا کیا۔لیکن ایسا نہیں تھا۔ یہ لائیو پرفارمنس متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں ہونے والی تھی اور اسے سوڈان میں ہونے والی جنگ کی وجہ سے منسوخ کیا گیا ہے۔ اس جنگ میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد بھوک کا شکار ہیں اور سوڈان میں ایک انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے۔گلیمر سے بھرپور دبئی شہر متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا سب سے بڑا شہر ہے تاہم اس پر سوڈان میں متحارب فریقوں میں سے ایک ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کو فنڈز فراہم کرنے کا بڑے پیمانے پر الزام لگایا جاتا رہا ہے۔میکلمور نے سوموار کو اپنی ایک انسٹاگرام پوسٹ میں کہا کہ ’سوڈان کا بحران تباہ کن ہے۔‘ فوڈ سکیورٹی کے کچھ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اکتوبر تک وہاں 25 لاکھ لوگ بھوک اور بیماری کا شکار ہو کر ہلاک ہو سکتے ہیں۔
2012 کے کلاسک ریپ ’تھرفٹ شاپ‘ سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے ریپر میکلمور نے مزید لکھا کہ ایسے میں ’مجھے اپنے آپ سے پوچھنا ہے کہ بطور فنکار میرا کیا فرض ہے؟‘انھوں نے کہا کہ ‘اگر میں اپنی روح کے خلاف جا کر دانستہ طور پر پیسے لیتا ہوں تو میں ان سیاست دانوں سے کس طرح مختلف ہوں جن کے خلاف میں احتجاج کر رہا ہوں؟‘ان کا موقف سوڈان میں جاری تنازع کے خلاف ہے جس کو یوکرین یا غزہ کے مقابلے میں بہت کم عالمی توجہ ملی ہے۔ میکلمور کا کہنا ہے کہ سوڈان کے بحران کو معمول کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کارکنوں کو امید ہے کہ دوسرے فنکار بھی میکلمور کی پیروی کریں گے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا بائیکاٹ سے کچھ بدلے گا؟
امریکہ میں میساچوسٹس کی ٹفٹس یونیورسٹی میں سوڈان کے امور کے ماہر پروفیسر الیکس ڈی وال کا خیال ہے کہ ثقافتی اور کھیلوں کا بائیکاٹ ان علاقائی طاقتوں کو نشانہ بنانے کا ایک مؤثر طریقہ ہو سکتا ہے جن پر جنگ کو ہوا دینے کا الزام ہے۔ان کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب افریقہ میں اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں اور سوڈان میں مخالف فریقوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ لندن میں امارات اور سعودی سفارتخانوں نے بی بی سی کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔پروفیسر ڈی وال کا کہنا ہے کہ حریف عرب ممالک معاشی طور پر اتنے طاقتور ہیں کہ کوئی بھی ان پر پابندی نہیں لگا سکتا۔ ساتھ ہی ان کہنا ہے کہ ایسے کسی بھی اقدام پر عمل درآمد مشکل ہوگا۔انھوں نے مزید کہا کہ یہ بہت سے مغربی ممالک کے لیے ترجیحی نہیں ہوگا کیوں کہ وہ اسرائیل-غزہ جنگ اور ایران کے ساتھ کشیدگی میں پہلے ہی سے الجھے ہوئے ہیں۔لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کا بہت خیال رکھتے ہیں۔’ثقافت اور کھیلوں کی شخصیات کا یہ کہنا کہ ہم وہاں نہیں جا رہے ہیں‘ تجارتی پابندیوں یا مالی جرمانے کے خطرے سے کہیں زیادہ معنی رکھتا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.