متحدہ عرب امارات کا خلائی جہاز اپنی پہلی ہی کوشش میں مریخ تک کیسے پہنچا؟
- مصنف, سٹیفن ڈاؤلنگ
- عہدہ, بی بی سی فیوچر
’مسبار الأمل‘ یعنی ’امید ‘ نصف ارب کلومیٹر کے سفر کے بعد مریخ کے مدار میں داخل ہوئی
19 جولائی 2020 کو کووڈ 19 کی عالمی وبا کے ہاتھوں دنیا کے مفلوج ہو جانے کے کچھ ہی دن بعد جاپان کے جنوبی جزیرے تانیگاشیما پر واقع جاپانی خلائی لانچ سائٹ سے ایک راکٹ آسمان کی جانب روانہ کیا گیا۔
خلائی راکٹ کے اندرایک چھوٹا سا خلائی جہاز تھا، جس کی چوڑائی دو میٹر سے تھوڑی زیادہ تھی اور اس کا وزن ایک چھوٹی گاڑی جتنا تھا۔ اس چھوٹے سے خلائی جہاز پر بہت سے کیمرے اور سپیکٹرو میٹر لگے تھے جو کہ اس خلائی مشن کے لیے بہت اہم تھے۔
اس مشن کے تحت اس خلائی جہاز کو زمین سے 49 کروڑ 30 لاکھ کلومیٹر سے زیادہ فاصلے تک جانا تھا۔ اس جہاز کے سنہری رنگ کے بالائی حصے کے اوپر ایک بڑا سیاہ ریڈیو اینٹینا لگا ہوا تھا۔ اس اینٹینا کا کام خلا سے اکٹھے کیے گئے ڈیٹا کو زمین پر اپنے مانیٹرز کے سامنے بیٹھے کنٹرولرز تک پہنچانا تھا۔
اس خلائی جہاز کا نام ’ہوپ‘ یعنی امید تھا۔ یہ نہ تو امریکہ کی ملکیت تھا، نہ روس کی اور نہ ہی کسی جدید یورپی ملک کی۔ درحقیقت یہ متحدہ عرب امارات کی خلائی ایجنسی کی جانب سے روانہ کیا گیا تھا۔ اگر یہ کامیاب ہوتا ہے تو مریخ تک پہنچنے والا یہ کسی بھی عرب ملک کا پہلا خلائی جہاز ہو گا۔ اس کی کامیابی متحدہ عرب امارات کو دنیا کا پانچواں ایسا ملک بنا دے گا جس نے کامیابی سے مریخ کے مدار میں کسی سپیس شپ کو چھوڑا۔
اس مشن کی لانچ سے صرف چھ سال پہلے متحدہ عرب امارات کی خلائی ایجنسی کا وجود تک نہیں تھا۔
محمد بن راشد سپیس سینٹر برج خلیفہ کے مشرق میں تقریباً آدھے گھنٹے کی مسافت پر دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے بالکل آخر میں واقع ہے۔
خلائی مرکز کے معیار کے مطابق یہ نسبتاً ایک مختصر سے عمارت میں ایک کمپیکٹ (جامع) ادارہ ہے۔ یہ سینٹر امریکی شہر ہیوسٹن میں ناسا کے دیوہیکل جانسن سپیس سینٹر کے مقابلے میں اتنا مختصر ہے کہ اس کی کار پارکنگ میں ہی کہیں گم ہو جائے۔
محمد بن راشد خلائی سپیس سینٹر دفاتر، ورکشاپس اور صاف ستھرے کمروں پر مشتمل ہے۔ یہ عمارت 10 سال سے زیادہ پرانی نہیں۔ یہیں سے امارات کے مریخ مشن کے سرخ سیارے کی طرف سفر کی تیاری کا زیادہ تر کام شروع کیا گیا تھا۔
جب میں نے فروری 2022 میں محمد بن راشد سپیس سینٹر کا دورہ کیا تو اس وقت ’مسبار الأمل‘ یعنی ’امید‘ نامی خلائی جہاز زمین سے تقریباً 50 کروڑ کلومیٹر (31 کروڑ میل) سفر کے اختتام پر پہنچ چکا تھا اور مریخ کے گرد مدار میں داخل ہونے کے لیے تیار تھا۔
یہاں تک پہنچنا ایک بڑی کامیابی تھی، خاص طور پر اس خلائی ایجنسی کے لیے جس کا اتنا محدود تجربہ تھا اور پھر متحدہ عرب امارات مریخ تک پہنچنے والے پانچ ممالک میں شامل ہو گیا۔ اس سے پہلے امریکہ، روس، چین اور انڈیا مریخ کے مدار تک پہنچے تھے مگر امریکہ، روس اور چین اپنی پہلی کوشش میں ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے یعنی ان کے ابتدائی تجربے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے تھے۔
مگر متحدہ عرب امارات اپنی پہلی ہی کوشش میں کامیاب ہونے والی دوسری خلائی ایجنسی تھی (انڈیا کی ایجنسی پہلی تھی)۔ متحدہ عرب امارات کے سپیس سینٹر کا افتتاح سنہ 2014 میں ہوا تھا۔ اس سے قبل یورپی خلائی ایجنسی کی طرز پر عرب ممالک کا ایک مشترکہ خلائی پروگرام بنانے کی چھ سال کی کوشش ناکام ہو چکی تھیں۔ اس ناکامی کی وجہ سے متحدہ عرب امارات میں اپنی خلائی ایجنسی قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا۔
متحدہ عرب امارات نے اپنی خلائی ایجنسی کے وجود میں آنے سے پہلے سات سیٹلائٹس (مصنوعی سیارے) فضا میں چھوڑے تھے، یہ تمام غیر ملکی کمپنیوں جیسا کہ یورپ کی ای اے ڈی ایس، امریکا میں بوئنگ اور جنوبی کوریا کی ’سیٹریک انیشیٹو‘ نے بنائے تھے۔
یہ صرف 2018 میں تھا جب اماراتی قوم حقیقت میں اپنا پہلا ڈیزائن بنانے میں کامیاب ہوئی تھی، ’خلیفہ سیٹ ارتھ سینسنگ سیٹلائٹ‘ جسے جنوبی کوریا میں اماراتی انجینیئرز کی ایک ٹیم نے ’سیٹریک انیشیٹو‘ کی مدد سے بنایا گیا تھا۔
’خلیفہ سیٹ‘ کو 2018 میں لانچ کیا گیا جسے قزاقستان کے بیکونور سپیس ڈروم سے پروٹون راکٹ کے ذریعے مدار میں بھیجا گیا۔ اس کے ذریعے زمین سے تقریباً 613 کلومیٹر (380 میل) اوپر سے لی گئی زمین کی ہائی ریزولوشن تصاویر کو شہری منصوبہ بندی سے لے کر قدرتی آفات سے بچنے تک ہر چیز کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیکن سیٹلائٹ کے دوسرے مقاصد بھی تھے یعنی یہ امارات میں ایک خلائی صنعت کے ابتدائی کام کا آغاز تھا۔
فروری 2022 میں عمران شراف امارات کے مریخ مشن کی قیادت کر رہے تھے۔ 38 سالہ شراف کا کہنا ہے کہ اس مشن کی تحریک ’ٹرپل ہیلکس ماڈل تھی، جس میں آپ کے پاس پرائیویٹ شعبہ، حکومت اور ماہرین تعلیم ہیں۔۔۔ تینوں شعبے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔‘
اس کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات نے 21 ویں صدی کی صف اول کی خلائی ایجنسیوں میں سے ایک بننے کا دعویٰ کر دیا تھا۔ سرد جنگ میں ایسی پیشرفت بعید از قیاس معلوم ہوتی تھی لیکن 2020 کی دہائی میں خلائی تحقیق ایک بہت ہی مختلف میدان بن گیا ہے۔
امریکہ اور سوویت یونین کی جغرافیائی سیاسی دشمنی کے زیر تسلط خلائی دوڑ آج کے دور میں منتشر ہو چکی ہے، اور اب اس میں بہت سے مزید کھلاڑی شامل ہو چکے ہیں، جس میں امریکہ کی نجی کمپنی سپیس ایکس اور متحدہ عرب امارت جیسے نسبتاً چھوٹے ممالک کی نئی خلائی ایجنسیاں بھی اس میں شامل ہو چکی ہیں۔
شراف کہتے ہیں کہ ’متحدہ عرب امارات کے پاس انتظار کرنے کا وقت نہیں تھا اور اسے ان صلاحیتوں کی تعمیر کو تیز کرنے اور تیز تر کرنے کی ضرورت تھی۔ اس لیے اس نے ایسا کرنے کے لیے مریخ کا اپنی منزل کے طور پر انتخاب کیا۔‘
مشن کے لیے اکتوبر 2021 میں ملک کی گولڈن جوبلی منانے سے پہلے مریخ کے مدار تک پہنچنے کی ڈیڈ لائن تھی۔
متحدہ عرب امارات کے مریخ مشن کا مقصد صرف عالمی سطح پر متحدہ عرب امارات کا پرچم لہرانا نہیں تھا۔ اس کے بنیادی مقاصد میں مریخ کے موسمی چکروں کی بہترین جامع تصویر تیار کرنا تھا۔ ’مسبار الأمل‘ یعنی ’امید‘ خلائی جہاز تین اہم آلات کے ساتھ مریخ کا مطالعہ کرے گا۔
پہلا ایک ہائی ریزولوشن امیجنگ یونٹ ہے جو سیارے کی فضا میں پانی، برف، دھول اور ایروسول کی پیمائش کرنے کے قابل تھا۔ ایک انفراریڈ سپیکٹرومیٹر سیارے کی سطح اور ماحول کی چمک کی نگرانی کرے گا، سطح کے درجہ حرارت اور فضا میں گرد و غبار کی مقدار کی پیمائش کرے گا۔
اس دوران ہوپ کا الٹرا وائلٹ سپیکٹرومیٹر سیارے کے پورے ماحول کی پیمائش کرے گا اور اس کی ہائیڈروجن اور آکسیجن کی سطحوں کا مطالعہ کرے گا، جو پانی کے بارے میں معلومات فراہم کریں گے۔
جب میں فروری میں دبئی گیا تھا تو 35 سالہ سارہ العامری متحدہ عرب امارات کی وزیر مملکت برائے اعلیٰ سائنس تھیں۔ اس کے بعد وہ ملک کی تعلیم اور مستقبل کی ٹیکنالوجی کی وزیر بن گئی ہیں۔
وہ بچپن سے ہی خلا کے علوم کے بارے میں تجسس رکھتی تھی لیکن امارات کی خلائی صنعت نہ ہونے کی وجہ سے اس کا امکان نہیں تھا، اس کے بجائے انھوں نے کمپیوٹر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔
یہ خلائی جہاز متحدہ عرب امارات کی طرف سے زمین کے مدار سے زیادہ دور جانے والا پہلا خلائی جہاز تھا
22 سال کی عمر میں جب وہ فارغ التحصیل ہوئیں تو متحدہ عرب امارات کی خلائی ایجنسی شکل اختیار کرنا شروع ہو چکی تھی۔ سارہ ترقی کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے پہلے کے دو سیٹلائٹ پرhجیکٹس، دبئی سیٹ-1 اور 2 پر ایک سافٹ ویئر انجینیئر کے طور پر پہنچ گئیں۔
جس وقت متحدہ عرب امارات کی فضائی ایجنسی ’یو اے ای ایس اے‘ (UAESA) ’امید‘ کے آنے والے مشن کے فوائد پر زور دے رہی تھی، سارہ اس پروجیکٹ کے سائنسی معاملات کی سربراہ اور ملک کی جدید علوم کے لیے وزیر تھیں۔
متحدہ عرب امارات کا جرات مندانہ نقطہ نظر اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتا کہ مریخ کی جانب ایک کامیاب خلائی مشن اس کی ایک بہت ہی یادگار جست ہے۔
1960 سے شروع کیے گئے 50 مشنز میں سے کم از کم نصف ناکام ہو چکے ہیں۔ 1970 کی دہائی کے اوائل میں مریخ پر پہلا خلائی جہاز اتارنے کے لیے سویت یونین اور امریکہ کے درمیان ایک جنونی دوڑ نے کئی ناکام مشنز کو جنم دیا۔ اگرچہ حالیہ کوششوں کو زیادہ کامیابی ملی ہے لیکن مریخ ایک مشکلات سے بھری ہوئی منزل بنی ہوئی ہے۔
سارہ کہتی ہیں کہ ’ہر ایک فرد جانتا تھا کہ اگر وہ اپنے ایک چھوٹے سے کام کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا ہے تو یہ مجموعی پروگرام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ یہی جوابدہی کا احساس ہے جو ہر فرد کے پاس تھا۔‘
’اور ہمیں ایک ایسی ٹیم کی ضرورت تھی جس کے ایک ایک رکن میں اس مشن کی کامیابی کے لیے اندرونی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو- نہ صرف یہ سمجھنا کہ اسے مریخ کے لیے ایک مشن حاصل کرنا حیرت انگیز سائنس بات ہے بلکہ یہ قوم کو بدلنے والی ثقافت کو تبدیل کرنے، امید کی کرن پیدا کرنے کے بارے میں بھی اہم ہے۔‘
ان کی مہم، مہارت اور عزم کے باوجود ٹیم کو ایک زبردست دھچکے کا سامنا کرنا پڑا – ہوپ 2020 میں لانچ ہونے والی تھی، بالکل اسی وقت جب کورونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا۔ دبئی کی پرہجوم فضائی حدود اور خلیج فارس کے پرہجوم پانیوں نے متحدہ عرب امارات سے خلا میں راکٹ کے لانچ کرنے کے عمل کو ناممکن بنا دیا ہے۔
اس لیے اسے جاپان سے لانچ ہونا تھا لیکن آنے والی وبائی بیماری نے آخری لمحات میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ متحدہ عرب امارات کو جاپانی حکومت کے ساتھ مسلسل مذاکرات کرنے پڑے تاکہ وہ اپنی فضائی حدود کو کافی دیر تک کھلا رکھیں تاکہ متحدہ عرب امارات ہوپ کو ملک سے باہر جاپان لے جا سکے۔
ایک ہی وقت میں شراف کو تین مختلف ٹیمیں بنانا پڑیں- ایک خلائی جہاز کو سفر کے لیے تیار کرنے کے لیے، ایک اس کے ساتھ ٹوکیو تک کا سفر کرنے کے لیے (اور پھر قرنطینہ میں جانا) اور دوسرا پہلے سے سفر کرنا، قرنطینہ سے کلیئر ہونا، اور پھر خلائی جہاز وصول کرنے کے لیے۔
کیا یہی اس وقت اہم مسئلہ تھا؟ متحدہ عرب امارات کی خلائی ایجنسی کی ٹیم کے لیے کافی ارکان نہیں تھے، اس لیے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کچھ ارکان کو امریکہ میں ’لاسپ‘ (لیبارٹری فار ایٹموسفیرک اینڈ سپیس فزکس) کے لیے دبئی سے بھیجا گیا۔ کچھ نے تانیگاشیما پر لانچ کے عملے کے ساتھ ہفتے گزارے۔
ہوم کو دبئی سے ایک بڑے سوویت دور کے اینٹونوف ہیوی لفٹر پر لے جانا پڑا جسے ایک بڑے ’کلین روم‘ کنٹینر میں لے جایا گیا۔ جاپان پہچنے کے بعد اسے ٹوکیو سے ایک جنوبی بندرگاہ پر منتقل کر دیا گیا اور ایک بجرے کے ذریعے لانچ کی سہولت تک پہنچایا گیاT ایک پیچیدہ ٹیکنالوجی کے کام کے لیے ایک بہت ہی سادہ سا حل۔
’مسبار الأمل‘ یعنی ’امید‘ امریکہ اور جنوبی کوریا میں متحدہ عرب امارات کی خلائی ایجنسی کے شراکت داروں کی مدد سے بنایا گیا تھا
اگرچہ متحدہ عرب امارات کے لاک ڈاؤن میں جانے کی وجہ سے ’امید‘ کی ٹیم میں سے بہت سے لوگ اپنے اپنے گھروں سے کام کر رہے تھے تاہم وقت پر خلائی جہاز کو لانچ کرنے کا کام جاری رہا۔
میں نے سارہ سے پوچھا کہ کیا انھوں نے کبھی لانچ کی آخری تاریخ کے باوجود مزید 18 ماہ کے وقت کی خواہش نہیں کی تھی۔
انھوں نے اس سوال کے جواب میں ہاں کہا لیکن وہ مزید کہتی ہیں کہ انھوں نے وبائی مرض کے دوران ’بہت تیزی سے‘ کام کرنے کے لیے اپنے نظام الاوقات میں رد و بدل کیا۔ لانچ سے پہلے ٹیم اس بارے میں فیصلے کر رہی تھی کہ وہ لاک ڈاؤن کے حالات میں کون سے ٹیسٹ کر سکتے ہیں اور کون سے نہیں۔ ٹیم کے ارکان نے قرنطینہ کے باوجود رضاکارانہ طور پر جاپان کا رخ کیا۔
سارہ کا کہنا ہے کہ ’اپنے اختتام پر میں نے پورے بورڈ میں متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ساتھ جاپان کے سفیر اور جاپان میں ہمارے سفیر سے بات کرنے پر کئی مرتبہ رابطے کیے کیونکہ وہاں سفر پر پابندیاں تھیں۔‘
’وبائی مرض کے عروج پر آپ بالکل انھی لوگوں سے بات کر رہے ہیں جو یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔‘
وہ کہتی کہ ’میں نے ان لوگوں کے ساتھ بات کی جن سے وہ پچھلے مہینوں میں بات کرتی چلی آرہی تھی لیکن لوگ اس مشن کو انجام دینے کے لیے بہت زیادہ تعاون کرنے والے تھے اور انتہائی معاون ثابت ہوئے تھے۔ ہم نے کسی موقع پر یہ نہیں کہا، ’ٹھیک ہے، اب ہم لانچنگ میں ایک دو سال کی تاخیر کرنے پر غور کر رہے ہیں۔‘ مجھے واقعی خوشی ہے کہ یہ معاملہ کبھی بات چیت کا حصہ نہیں بنا۔‘
متحدہ عرب امارات نے اپنی 50 ویں سالگرہ منانے والے سال میں مریخ تک پہنچنے کی آخری تاریخ ایک اضافی انتباہ کے ساتھ رکھی تھی۔ آپ جب چاہیں مریخ کا مشن شروع نہیں کر سکتے۔
امریکی خلائی انجینیئر بریٹ لینڈن، جنھوں نے امریکہ میں ایک ٹیم کے ساتھ متحدہ عرب امارت کے مریخ مشن پر کام کیا، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ لانچ ونڈو کتنا مشکل وقفہ ہو سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آپ صرف ہر دو سال بعد مریخ پر جا سکتے ہیں اور اس لیے آپ لانچ کے ایک خاص موقع کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ صرف اس امکان کے لیے کہ ہمارے پاس عالمی وبائی بیماری ہے اور دو سال کے وقت میں تعمیر کرنا ہے؟ یہ ہمارے ذہن میں قطعی نہیں تھا۔‘
ہم نے ٹیم سے پوچھا ’کیا آپ لوگ جاپان میں سفر کرنے اور قرنطینہ میں رہنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ مجھے یاد نہیں کہ یہ 13 دن کے لیے ہوتا تھا، یا دو ہفتے کے لیے، جہاں آپ بنیادی طور پر ایک کمرے میں پھنس جائیں گے؟ اور میرے پاس رضاکاروں کی کمی نہیں تھی جنھوں نے کہا کہ اوہ، ہاں، میں جا رہا ہوں۔ میں یہ لانچ دیکھنا چاہتا ہوں‘ اور اماراتی ٹیم بھی ایسا ہی تھا۔ میرا مطلب ہے کہ ہمیں صرف مکمل حمایت حاصل تھی۔ تو ہاں، یہ زیادہ چیلنجنگ تھا لیکن ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ ہم اسے روکنے کے لیے جا رہے تھے۔‘
برج خلیفہ کو سرخ روشنیوں سے منور کیا گیا کیونکہ متحدہ عرب امارات کا مریخ مشن مدار میں داخل ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا
فروری 2021 تک، ’امید‘ مریخ کے قریب پہنچ رہی تھی۔
ادھر زمین پر متحدہ عرب امارات کی حکومت نے برج خلیفہ کو اس موقع کی مناسبت سے مریخ کی سرخ روشنیوں سے منور کیا تھا۔
اس کا لانچ مقامی وقت کے مطابق 19:30 بجے ہونا تھا۔ ایک لاکھ 20 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ (74,500 میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے ہوپ نے اپنی رفتار بڑھانے کے لیے 27 منٹ طویل اپنا ایندھن زیادہ مقدار میں جلایا۔ اگر اضافی رفتار کا مرحلہ ناکام ہو جاتا تو خلائی جہاز گہری خلا میں جا گرا ہوتا۔
پریس ٹیم کا ایک رکن جس نے مریخ کے مشن پر کام کیا، نے مجھے بتایا کہ یہ تدبیر مریخ سے تقریباً 1,060 کلومیٹر (662 میل) کے فاصلے پر اپنے طے شدہ منصوبے سے 2,300 کلومیٹر (1,430 میل) سے زیادہ دور شروع کرنی تھی، وہ نقطہ جہاں مدار ہو گا یہ تقریباً نصف ارب کلومیٹر کے سفر کے بعد، مریخ کی کشش ثقل کے قریب ترین۔
اس میں 300 کلومیٹر (186 میل) کی کمی بیشی کی گنجائش تھی اور اس سب کے دوران صرف کچھ منٹ تک سگنلز بھیجنے کے بعد خلائی جہاز مریخ کی دوسری جانب چلا جاتا اور 15 منٹ تک تمام مواصلات سے محروم ہوجاتا۔
اس دوران کسی کو معلوم نہیں ہونا تھا کہ کیا یہ مشن کامیابی سے مریخ کے مدار میں داخل ہو گیا ہے یا نہیں۔ جب دبئی میں ایک مجمع اس کی تصدیق کا انتظار کر رہا تھا تو سارہ سٹیج پر کھڑی پریس سے بات کر رہی تھیں اور ان کے پیچھے ایک سکرین پر سپیس سینٹر کے مشن کنٹرول کے مناظر دکھائی دے رہے تھے۔
اُنھیں معلوم تھا کہ ان تناؤ بھرے لمحات میں کیا توقع کرنی چاہیے۔ نارمل مرحلہ یہ تھا کہ شراف مختلف ٹیموں کے پاس جا کر مختلف چیزوں کی پڑتال کریں۔ اس میں دبئی میں ان کی ٹیم، ایک بیک اپ ٹیم، امریکہ کی لاسپ میں ان کے پارٹنرز، اور انجینیئرنگ، پاور اور نیویگیشن ٹیمیں شامل تھیں۔ مگر لائیو فیڈ پر سارہ نے دیکھا کہ شراف کچھ اضافی چیزوں کی پڑتال کر رہے ہیں۔
سارہ کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے دو مختلف افراد سے معلوم کیا، اُس شخص سے بھی جس کے پاس پروپلشن ڈیٹا تھا اور اُس شخص جس کے پاس انرجی پاور سب سسٹم تھا۔ یہ سب چیک کرنا معمول کی بات نہیں تھی۔ یہ سٹیج پر لائیو تھا۔ جاننا چاہ رہے تھے کہ کیا غلط ہے؟ یہ وہ نہیں تھا جو ہم نے کہا تھا۔ تو میں سوچ رہی تھی ’یہاں کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہوا؟ یہ سکرپٹ میں نہیں تھا!‘
اس کے بعد ایک بے چینی والی خاموشی چھا گئی۔ ’وہ صرف نتائج کی دو بار جانچ کر رہے ہیں۔ یہ معمول کی بات ہے کہ خلائی جہاز سے آنے والی ٹیلی میٹری کو چیک کیا جائے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔‘
سارہ الامیری اس مشن میں سائنس کی سربراہ تھیں اور اب اماراتی حکومت میں وزیر ہیں
خلائی جہاز نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس نے اپنا مدار مکمل کر لیا ہے۔ اس سگنل کو زمین سے مریخ کو الگ کرنے والے 19 کروڑ کلومیٹر (12 کروڑ میل) میں اپنا رابطہ بحال کرنے میں 11 منٹ لگے لیکن اسے کامیابی ملی- امید مریخ کے گرد مدار میں تھی۔
ناکامی کے اعلان والی تقریر کبھی نہیں پڑھی گئی۔ سارہ نے بعد میں اس بند لفافے کو کوڑے دان میں پھینک دیا۔
دنیا بھر میں مشن کی کامیابی کی اطلاع دی گئی تھی لیکن سارہ کے لیے، سب سے بہتر واقعہ ہونا ابھی باقی تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں کہوں گی کہ سب سے قابل فخر لمحہ مریخ سے پہلی غیر پروسیس شدہ تصویر دیکھنا تھا۔ وہ غیر پروسیس شدہ تصویر توقع سے بالاتر تھی، یہاں تک کہ ان چیلنجز کے باوجود جو ہمارے پاس کیمرہ تھے۔ یہ حیرت انگیز تھا۔ میں اس تصویر کو تفصیل کے ساتھ بیان کر سکتی ہوں۔‘
’مجھے لگتا ہے کہ میں شاید بھاگ کر کسی کے پاس گئی ’دیکھو یہ کتنا خوبصورت منظر ہے‘ اور یہ تھوڑا سا سبز منظر لگ رہا تھا۔ آپ کو یہ منظر دیکھنے کو نہیں ملتا۔ آپ کو اس طرح کی بغیر پروسیس شدہ تصاویر نہیں ملتی ہیں۔‘
شراف کا کہنا ہے کہ قومی فخر اور ملکی معیشت کے نئے شعبوں کا آغاز بھی اہم تھا۔
میرے دورے کے مہینوں بعد، انھیں حکومت میں معاون وزیر بنا دیا گیا۔
’امید‘ کا مشن ایک نوجوان قوم کے لیے ایک قابل فخر لمحہ ہے لیکن عالمی سائنسی برادری کے ساتھ قومی فخر کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جو چیز آنے والی دہائیوں میں مشن کی میراث کو مضبوط کرے گی، وہ سائنس ہے۔
مریخ سورج سے 50 فیصد زیادہ دور واقع ہے لیکن دونوں سیاروں کے ماحول میں کچھ بنیادی مماثلتیں بھی ہیں۔ زمین کی طرح مریخ پر بھی اس کے قطبوں میں برف موجود ہے۔
اس کے موسم میں موسمی تغیرات ہیں، ان میں سے کچھ جیسے شدید دھول کے طوفان زمین پر ہمارے آلات کو دکھائی دیتے ہیں۔ مریخ کی پتلی فضا میں ہائیڈروجن اور آکسیجن سے بننے والی برف کی موجودگی سے پتا چلتا ہے کہ مریخ کے پاس کبھی جرثومہ زندگی کو سہولت دینے کے لیے صحیح حالات تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ مریخ پر زندگی تھی لیکن یقینی طور پر ایک واضح نشانی ہے کہ وہاں زندگی ممکن تھی۔
مریخ کے نصف صدی کے مشاہدے کی بدولت ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کرہ ارض کے کچھ موسمی نمونے جو زمین پر پائے جانے والے نمونوں کی نقل کرتے ہیں، جیسے کیٹابیٹک ہوائیں۔ یہ قطبی حصوں کے گرد بنتی ہیں اور برف کے آر پار بہتے ہیں – جب وہ نالوں اور کھائیوں تک پہنچتی ہیں، تو ہموار ہوا کا بہاؤ مزید افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے، جس سے برف اور گرد و غبار کے بڑے بادل اٹھتے ہیں۔
حصۃ المطروشی (درمیان) اب ہوپ مشن کے لیے سائنسی امور کی قائد ہیں، جو مریخ کے موسم کے بارے میں نئی معلومات دریافت کرتی ہے
’مسبار الأمل‘ یعنی ’امید‘ (ہوپ) کا مشن، جیسا کہ یہ سامنے آتا ہے، دونوں سیاروں کے درمیان موسم میں مماثلت اور فرق کے بارے میں مزید معلومات کا انکشاف کر سکتا ہے۔
سارہ اب پروجیکٹ کے سائنس چیف کے طور پر اپنے کردار سے آگے بڑھ گئی ہیں اور ان کی جگہ کمپیوٹر کے ماہر حصۃ المطروشی نے لے لی ہے جنھوں نے سنہ 2015 میں اس پروگرام میں شمولیت اختیار کی تھی، ابتدائی طور پر ان کا کام مشن کے الٹرا وائلٹ سپیکٹرومیٹر پر کام کرنا تھا۔
امارات کے قمری روور مشن کے شروع ہونے سے کچھ دن پہلے المطروشی نے نومبر 2022 میں زوم پر مجھ سے بات کی تھی۔ مریخ کے موسم کی تبدیلیوں کے بارے میں سراغوں کی تلاش ان کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔
المطروشی کہتی ہیں کہ ’ہم چاہتے تھے کہ سائنس منفرد ہو، پھر بھی متعلقہ اور ایسی چیز ہو جس کی طلب اور ضرورت بھی ہو۔ مریخ کے ماحول کا مطالعہ کرنے والی کمیونٹی کی طرف سے مخصوص خلا کو نمایاں کیا گیا تھا۔‘
مثال کے طور پر اگر ہمارے پاس روور ہیں، اور وہ دن رات ڈیٹا کی پیمائش کر رہی ہیں تو ہم پورے سیارے کی کوریج سے محروم ہیں، کیونکہ ہم صرف ایک مقام کا مطالعہ کر رہے ہیں اور پھر جب ہمارے پاس ایسے مدار ہیں جو عالمی سطح پر کوریج حاصل کر رہے ہیں تو ہم دن رات کے تغیرات کو یاد کر رہے ہیں کیونکہ وہ ماحول کے نمونے لے رہے ہیں یا مخصوص اوقات میں مشاہدات لے رہے ہیں۔‘
مریخ کی نگرانی کے ان طریقوں کے درمیان فرق کو پاٹنا بلاشبہ ایک مشکل کام ہے لیکن المطروشی اسی کمی کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بہت مختلف ہے۔ ایک سیارے کے طور پر مریخ آپ کو حیران کر سکتا ہے۔‘
سب سے مکمل تصویر حاصل کرنے کے لیے ’مسبار الأمل‘ یعنی ’امید‘ کو مریخ کے ماحول کی تہوں میں جھانکنا چاہیے، یہ دیکھتے ہوئے کہ کیمیائی ساخت کس طرح اوپر سے سطح تک تبدیل ہوتی ہے۔
المطروشی کا کہنا ہے کہ ’ہمیں ان کے درمیان تعلق کو سمجھنا چاہتے ہیں، کہ کس طرح عمل ہوتا ہے اور کس طرح آب و ہوا میں تبدیلیاں آتی ہیں اور ہائیڈروجن اور آکسیجن کو زیادہ اونچائی پر چھوڑنے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہم ایسے مشن کو ڈیزائن کرکے جانتے تھے کہ ہمیں ایسی معلومات حاصل ہوں گی جو ہم نے پہلے نہیں دیکھی ہیں کیونکہ اس طرح کے مشاہدات کی سہولتیں دستیاب نہیں تھیں۔‘
’مسبار الأمل‘ یعنی ’امید‘ سے پہلے مریخ کے پتلے ماحول کے بارے میں کچھ ادھر کے حصے کا تھا کچھ اُدھر کے حصے کا تھا، یہ مکمل نہیں تھا۔
المطروشی بتاتی ہیں کہ اس سے قبل کی تحقیقات نے دریافت کیا تھا کہ سیارے کے کمزور مقناطیسی میدان کی وجہ سے اس کی کچھ زمین کی طرح کی ہائیڈروجن اور آکسیجن کی فضا خلا میں غائب ہو رہی ہے۔
المطروشی کہتی ہیں کہ ’ہم ان دونوں پر توجہ دے رہے ہیں کیونکہ یہ پانی کے بنیادی اجزا ہیں۔ لہٰذا اگر ہم زندگی کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو یہ سمجھنا واقعی اہم ہے۔‘
’ماڈل بہت مدد کرتے ہیں اور جو کچھ ہو رہا ہے اس کی نقالی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور صورتحال کا احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر یہ ماڈل مشاہدات کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں اور یہ اس پر مبنی ہے، آپ جانتے ہیں، فزکس جسے ہم سمجھتے ہیں۔ تو اگر ہمارے پاس مکمل مشاہدات نہیں تو پھر یقیناً ان ماڈلز میں بھی حدود ہیں جو ہم استعمال کر رہے ہیں۔‘
’مسبار الأمل‘ یعنی ’امید‘ کا بنیادی مریخ مشن مریخ کے آخری سال میں متوقع ہے، مریخ کا ایک سال زمین کے دو سال کے برابر بنتا ہے
وہ کہتی ہیں کہ ’مریخ پر جانے والے مشنوں کے اپنے مقاصد تھے اور ہمیشہ نئے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ اس لیے ابھی بھی جیسا کہ ہم مطالعہ کر رہے ہیں، ہمارے پاس سوال ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سائنسدانوں اور (دیگر) مشنوں کے درمیان تعاون کرنے والی کمیونٹی اکٹھی ہوتی ہے۔‘
مریخ کی آب و ہوا کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے سے اس بات میں مدد مل سکتی ہے کہ ہم یہاں زمین پر طویل مدتی موسمی نمونوں کا مطالعہ کیسے کرتے ہیں۔
المطروشی کہتی ہیں کہ ’مریخ اربوں سال پہلے ایک بڑی تبدیلی سے گزرا تھا اور اس طرح کے عمل کو سمجھنا کہ ماضی کا مریخ کس طرح موجودہ مریخ بن گیا اہم بات ہے کیونکہ ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے سیارے کے ساتھ کیا ہوا کیونکہ ہمارے درمیان کچھ مماثلتیں ہیں۔‘
’میں یہ نہیں کہوں گی کہ ہم بالکل ایک جیسے ہیں-مثال کے طور پر، ہمارے پاس ایک بہت بڑا مقناطیسی میدان ہے جو ہمیں سورج سے بچا رہا ہے، مریخ کے پاس ایسا نہیں۔ اسے وہ تحفظ حاصل نہیں جو ہمیں حاصل ہے۔ تو اس سے ہمیں معلوم ہو سکتا ہے کہ ایسی زبردست تبدیلیاں کیوں ہوتی ہیں۔‘
’ہوپ‘ کا بنیادی مریخ مشن مریخ کے آخری سال میں متوقع ہے، مریخ کا ایک سال زمین کے دو سال کے برابر بنتا ہے لیکن المطروشی کی سائنس ٹیم پہلے ہی سے اس سے آگے دیکھ رہی ہے۔
’اس سال کے دوران جب ہم نے اپنے مشاہدات کیے تھے، سورج اپنی سرگرمی میں زیادہ نہیں تھا – ہم شمسی سائیکل کے سب سے اوپر نہیں تھے۔‘
اگر مشن کو بڑھایا جاتا ہے تو یہ تبدیل ہوسکتا ہے، جس سے کچھ بہت مختلف مشاہدات ہوتے ہیں۔ ’ابھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ سورج کی بہت سی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ اس کا (مریخ) کے ماحول پر کیا اثر پڑتا ہے؟‘
اس کو سمجھنا متحدہ عرب امارات کی ٹیم کو ماضی کے بارے میں گہری بصیرت فراہم کرے گا ’کیونکہ یہ سمجھنے کی کوشش کرنا کہ اس طرح کی سرگرمیاں مریخ کے ماحول کو آب و ہوا کے لحاظ سے اخراج کے لحاظ سے، دھول کے طوفانوں کے لحاظ سے، وغیرہ پر کس طرح اثر انداز ہو رہی ہیں، ہمیں اس بارے میں کچھ رہنمائی فراہم کر سکتا ہے کہ کیا ہوا، یا ان تبدیلیوں میں ان عوامل کا کیا حصہ تھا جو ہم نے ماضی میں دیکھا ہے اور ہم کچھ ایسی فہم و فراست حاصل کر سکتے ہیں جو زمین پر بھی ہماری مدد کر سکتی ہیں۔‘
موسم ہی واحد دریافت نہیں رہا۔ اگست 2022 میں ’ہوپ‘ نے مریخ کے اوپری ماحول میں ایک ’پیوندکار شفق‘ کی پہلی تفصیلی تصاویر واپس بھیجیں، جو سیارے کے ماحول اور شمسی ہواؤں کے درمیان ایک افراتفری کے مشترکہ نقطے کی نشاندہی کرتی ہے۔
سائنسدانوں نے پہلے توقع کی تھی کہ مریخ کے شفق نسبتاً یکساں ہوں گے۔ ’ہوپ‘ کے مشن میں اگلے فروری میں مزید پیشرفت ہو گی، تمام منصوبہ بندی کے ساتھ۔
المطروشی پہلے ہی اس بات کی منتظر ہیں کہ آنے والے مہینوں میں اس کا کیا انکشاف ہو سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مریخ کا کوئی سال ایک جیسا نہیں ہوگا۔‘
مثال کے طور پر یہ سال گرد و غبار کے طوفانوں کے لیے ہلکا رہا ہے جبکہ کچھ شدید علاقائی طوفان برپا ہوئے تاہم پورے سیارے کو مکمل طور پر شدید طوفان کی لپیٹ میں نہیں دیکھا گیا۔
’میں صرف تصور کر سکتی ہوں، اگر ہم ایسے طوفانوں کا مشاہدہ کر سکیں جو پورے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں۔‘
ان کی آواز میں جوش و خروش واضح سنائی دیتا ہے، یہاں تک کہ زوم پر بھی۔ ’یہ واقعی بہت خوشی کی بات ہے۔ سائنس کی بہت ساری گتھیاں سلجھانے کے لیے ہیں۔‘
Comments are closed.