یمن میں تین سال کے عرصے میں 100 سے زائد ہلاکتیں مشرق وسطیٰ کے اس غریب ترین ملک میں جاری تلخ بین الاقوامی طاقتوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر رہی ہیں۔ اس خطرناک ماحول نے یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی مستقل بنیادوں پر واپسی کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ اس سے بلواسطہ طور پر ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کی حوصلہ افزائی میں مدد ملی ہے جو اس وقت بحری جہازوں پر حملے اور بحیرہ احمر میں تجارت میں خلل ڈالنے کی وجہ سے خبروں میں ہیں۔ حالیہ دنوں میں، واشنگٹن نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب اس گروپ کو ’عالمی دہشت گرد‘ کے طور پر دوبارہ نامزد کرے گا۔میں اپنے آبائی ملک یمن میں 2014 میں شروع ہونے والے تنازعے پر رپورٹنگ کر رہی ہوں۔ اس لڑائی کے نتیجے میں حکومت نے ملک کے شمال کا کنٹرول کھو دیا اور یہ علاقہ اب حوثیوں کے کنٹرول میں ہے، جو کئی سال کے تجربے کے بعد خاصے سمجھدار اور بہتر ہتھیاروں سے لیس ہو گئے ہیں۔ سنہ 2015 میں امریکہ اور برطانیہ نے سعودی عرب کی سربراہی میں زیادہ تر عرب ریاستوں کے اتحاد کی حمایت کی تھی جس میں متحدہ عرب امارات ایک اہم شراکت دار تھا۔ اتحاد نے جلاوطن یمنی حکومت کو بحال کرنے اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے مقصد سے یمن پر حملہ کیا۔ متحدہ عرب امارات کو جنوب میں سکیورٹی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور وہ خطے میں انسداد دہشت گردی میں امریکہ کا اہم اتحادی بن گیا، اسی کے ساتھ ساتھ القاعدہ طویل عرصے سے جنوب میں موجود تھی۔،تصویر کا ذریعہJack Garland/BBC
یمن کا تنازعہ
- سنہ 2014 میں یمن کی اقلیتی شیعہ مسلم برادری کی ایک شاخ سے تعلق رکھنے والے حوثی جنگجوؤں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔
- صدر عبد ربہ منصور ہادی نے فروری 2015 میں صنعا میں گھر میں نظر بندی سے فرار ہونے کے بعد جنوبی شہر عدن میں ایک عارضی دارالحکومت قائم کیا تھا۔
- سعودی عرب اور آٹھ دیگر سنی عرب ریاستوں نے حوثیوں کے خلاف فضائی کارروائی شروع کی، جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ علاقائی حریف ایران کے حمایت یافتہ ہیں۔ سعودی قیادت والے اتحاد کو امریکہ، برطانیہ اور فرانس سے لاجسٹک مدد ملی۔
- یہاں تک کہ بظاہر ایک ہی طرف کے لوگوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ اگست 2019 میں جنوب میں سعودی حمایت یافتہ سرکاری افواج اور اتحادی جنوبی علیحدگی پسند تحریک، جنوبی عبوری کونسل (ایس ٹی سی) کے مابین لڑائی شروع ہو گئی، جس نے صدر ہادی پر بدانتظامی اور اسلام پسندوں کے ساتھ روابط کا الزام عائد کیا۔
- جزیرہ نما عرب میں القاعدہ (اے کیو اے پی) کے عسکریت پسندوں اور حریف شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ (آئی ایس) سے وابستہ مقامی عسکریت پسندوں نے اس افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنوب کے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور خاص طور پر عدن میں مہلک حملے کیے ہیں۔
- حوثیوں نے اپنے اثر و رسوخ کو بھی وسعت دی ہے۔ نومبر 2023 میں انھوں نے بحیرہ احمر میں بین الاقوامی جہاز رانی کے راستوں پر حملے شروع کیے۔
،تصویر کا ذریعہAbraham Golanلیکن زیادہ سے زیادہ استحکام قائم کرنے کی بجائے، اس وقت رپورٹنگ کی غرض سے ہونے والے مسلسل دوروں کے دوران میں نے یمنی حکومت کے زیر کنٹرول جنوبی علاقوں میں پراسرار ٹارگٹ کلنگ کی ایک لہر دیکھی، جن کا دہشت گرد گروہوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق بغیر کسی کارروائی کے شہریوں کے قتل کو ماورائے عدالت شمار کیا جائے گا۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت اخوان المسلمون کی یمنی شاخ اصلاح کے ارکان تھے۔ یہ ایک مقبول بین الاقوامی سنی اسلامی تحریک ہے جس کی امریکہ نے کبھی بھی دہشت گرد تنظیم کے طور پر درجہ بندی نہیں کی لیکن متحدہ عرب امارات سمیت متعدد عرب ممالک میں اس پر پابندی عائد ہے جہاں اس کی سیاسی سرگرمی اور انتخابات کے لیے حمایت کو ملک کا شاہی خاندان اپنی حکمرانی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ پہلے قاتلانہ مشن کی لیک ہونے والی ڈرون فوٹیج نے مجھے ان پراسرار ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے ایک نقطہِ آغاز فراہم کیا۔ اس کی تاریخ دسمبر 2015 تھی اور اس کا سراغ ایک نجی امریکی سکیورٹی کمپنی سپیئر آپریشنز گروپ کے ارکان سے لگایا گیا تھا۔آخر کار میں 2020 میں لندن کے ایک ریستوراں میں فوٹیج میں دکھائے جانے والے آپریشن کے پسِ منظر میں موجود ایک شخص سے ملی۔ سابق امریکی نیوی سیل آئزک گلمور، جو بعد میں سپیئر کے چیف آپریٹنگ آفیسر بن گئے، ان متعدد امریکیوں میں سے ایک تھے جن کا کہنا ہے کہ انھیں متحدہ عرب امارات نے یمن میں قتل عام کرنے کے لیے بھرتی کیا تھا۔
- غزہ پر حملے کی وجہ سے کیا عرب ممالک پہلے کی طرح مغرب کو تیل فروخت کرنا بند کریں گے؟18 نومبر 2023
- اسلامی تعاون تنظیم کے تاریخی اجلاس میں اسرائیل کیخلاف کسی عملی اقدام پر اتفاق کیوں نہیں ہو سکا؟ 12 نومبر 2023
- معاشی مفادات کا تحفظ یا ’ایماندار ثالث‘ کا عالمی تشخص: اسرائیل، حماس جنگ سے چین کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟2 نومبر 2023
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.