ماسکو حملہ: کیا دولتِ اسلامیہ تاجک شہریوں کو ترکی سے بھرتی کرتی ہے؟،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, سُہراب ضیا
  • عہدہ, بی بی سی فارسی
  • 11 منٹ قبل

تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے سے 40 کلومیٹر دور لویوب نامی ایک گاؤں ہے۔ یہاں بسنے والے لوگوں کو اس بات پر یقین کرنے میں دشواری کا سامنا ہے کہ ان کے علاقے کا ایک شخص ماسکو کے کروکس سٹی ہال پر حملے میں ملوث ہے۔لیکن اس علاقے سے تعلق رکھنے والے فریدون شمس الدین ان چار تاجک شہریوں میں سے ایک ہیں جو روس کے دارالحکومت ماسکو کے کروکس سٹی ہال پر حملے کے الزام میں ایک روسی جیل میں قید ہیں۔روس کے مطابق ان چار افراد نے گذشتہ ہفتے کروکس سٹی ہال پر حملہ کر کے 143 افراد کو قتل کیا تھا۔ پچیس سالہ فریدون پر یہ بھی الزام ہے کہ انھوں نے اس حملے کے لیے مزید دو تاجک شہریوں کو بھرتی کیا۔فریدون کچھ ماہ قبل اپنا گاؤں لویوب چھوڑ کر ملازمت کی تلاش میں روس منتقل ہوئے تھے۔

،تصویر کا ذریعہSERGEI ILNITSKY/EPA-EFE/REX/SHUTTERSTOCK

،تصویر کا کیپشنتاجکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس تقریباً 6 لاکھ 52 ہزار تاجک شہری روس گئے ہیں
ماسکو میں ہونے والے حملے کے چند ہی گھنٹوں بعد تاجکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار لویوب میں نظر آئے اور انھوں نے تفتیش کے لیے فریدون کے والد کو حراست میں لے لیا۔اطلاعات کے مطابق روس سے بھی تفتیش کار تاجکستان پہنچے ہیں جہاں وہ ملزمان کے رشتے داروں سے ملاقات کریں گے۔کروکس سٹی ہال پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم نام نہاد ’دولت اسلامیہ‘ کی ذیلی شاخ ’خُراسان‘ نے قبول کی تھی۔اس حملے کے الزام میں گرفتار کیے گئے چاروں افراد کو جب روس کی عدالت میں پیش کیا گیا تو ان کے چہرے پر تشدد کے نشانات عیاں تھے، جس کے بعد ان کے اعترافی بیانات پر بھی سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔تاجکستان کے صدر امام علی رحمان ایک عرصے سے اپنے ملک اور خصوصاً نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسند کی طرف توجہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے کروکس سٹی ہال پر ہونے والے حملے کی مذمت کی تھی اور اسے شرمناک قرار دیا تھا۔
،تصویر کا کیپشنفریدون کا تعلق تاجکستان کے علاقے لویوب سے ہے
تاجکستان میں حکام نے اب تک نو افراد کو ماسکو حملے میں ملوث افراد سے مبینہ رابطوں کے شبے میں گرفتار کیا ہے۔ ان تمام لوگوں کا تعلق دوشنبے سے قریب علاقے وحدت سے ہے۔کروکس سٹی ہال حملے کے بعد ماسکو میں گرفتار ہونے والے ایک شخص سید اکرم رجب علی زادہ کا تعلق بھی وحدت کے علاقے سے ہی ہے۔اس حملے کے بعد ماسکو میں گرفتار ہونے والے دو مزید افراد کی شناخت محمد صابر فیضوو اور دلیرجان مرزویو کے نام سے ہوئی ہے۔لویوب میں نوجوان افراد زیادہ تر ذراعت یا تعمیرات کے شعبے سے وابستہ ہیں اور باقی افراد مقامی بازار میں ملازمت کرتے ہیں۔فریدون کی طرح اس علاقے سے تعلق رکھنے والے باقی لوگ بھی اکثر نوکریوں کی کمی اور کم تنخواہوں کے سبب ملازمتوں کی تلاش میں روس کا رُخ کرتے ہیں۔تاجکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس تقریباً 6 لاکھ 52 ہزار تاجک شہری روس گئے ہیں۔ دوسری جانب روس کا کہنا ہے کہ تاجکستان سے آنے والے شہریوں کی تعداد کروڑوں میں بھی ہوسکتی ہے۔لویوب میں مقیم ایک شخص نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ فریدون پہلی مرتبہ روس چھ مہینے پہلے گئے تھے، پھر تین مہینے بعد وہ ترکی چکے گئے اور پھر 11 دن بعد وہ وہاں سے واپس آگئے۔جب وہ ترکی گئے تو شاید وہیں ان کی ملاقات سید اکرم رجب علی زادہ سے ہوئی۔،تصویر کا ذریعہREUTERS/YULIA MOROZOVA
،تصویر کا کیپشنلویوب میں نوجوان افراد زیادہ تر ذراعت یا تعمیرات کے شعبے سے وابستہ ہیں
روس میں کام کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے اکثر تارکین وطن ترکی چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’دولتِ اسلامیہ خُراسان‘ کے لوگ بھی ترکی میں موجود ہیں اور یہاں وہ لوگوں کو اپنے گروہ میں بھرتی کرتے ہیں۔مبینہ طور پر روسی سکیورٹی سروسز کی جانب سے لیک کی گئی ایک تین منٹ کی ویڈیو میں ایک روسی فوجی کو اپنے پاؤں سے فریدون کے سر کو ٹھوکر مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ فریدون اس دوران تفتیش کاروں کو بتاتے ہیں کہ انھوں نے کروکس سٹی ہال پر حملہ 5 لاکھ روبل (روسی کرنسی) کے عوض کیا۔لویوب کے ایک اور رہائشی نے فریدون پر تشدد کی ویڈیو دیکھ کر کہا کہ ’سکیورٹی اہلکاروں نے اسے پیٹا اور اس پر اتنا تشدد کیا کہ وہ لینن کی موت کی بھی ذمہ داری قبول کرلیتا۔‘تاجکستان کے صدر نے لوگوں سے درخواست کی ہے کہ وہ بچوں اور نوجوانوں کو شدت پسند گروہوں سے محفوظ رکھیں اور انھیں ’تاجک قوم کا نام برباد نہ کرنے دیں۔‘لیکن دوسری جانب تاجک حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان 2014 سے 2016 تک ان کے دو ہزار شہریوں نے شدت پسند تنظیم نام نہاد ’دولتِ اسلامیہ‘ میں شمولیت اختیار کی تھی اور ان تمام لوگوں کو روس میں ہی بھرتی کیا گیا تھا۔حکام کا کہنا ہے کہ یہ افراد تارکینِ وطن تھے جنھیں سوشل میڈیا یا میسجنگ ایپ ٹیلی گرام کے ذریعے ورغلایا گیا تھا۔حالیہ دور میں شدت پسند تنظیم نام نہاد ’دولتِ اسلامیہ‘ کے حملوں میں ملوث زیادہ تر افراد کا کہنا ہے ان سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کیا گیا تھا اور انھیں پیسے دینے کے وعدے بھی کیے گئے تھے۔،تصویر کا ذریعہALEXANDER SHCHERBAK/KREMLIN POOL/SPUTNIK/EPA-EFE
،تصویر کا کیپشنتاجکستان کے صدر نے لوگوں سے درخواست کی ہے کہ وہ بچوں اور نوجوانوں کو شدت پسند گروہوں سے محفوظ رکھیں
دوشنبے میں واقع ’سینٹر فار افغانستان سٹڈیز‘ سے منسلک قاسم شاہ اسکندراوو کا کہنا ہے کہ وسطی ایشیا کے تارکینِ وطن شدت پسند گروہوں کے لیے آسان ہدف ہوتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حالیہ دور میں ترکی شدت پسند تنظیم نام نہاد ’دولتِ اسلامیہ‘ کے لیے جہادیوں کی بھرتیوں کا مرکز بن کر سامنے آیا ہے، کیونکہ روسی اور تاجک دونوں شہری وہاں بغیر ویزے کے سفر کر سکتے ہیں۔جو تارکینِ وطن روس جاتے ہیں انھیں وہاں رہائش اور ملازمت کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے تین ماہ کی مہلت دی جاتی ہے اور اس ضمن میں انھیں فیس کی مد میں تقریباً 430 ڈالر ادا کرنے ہوتے ہیں۔کچھ تارکینِ وطن تین مہینے کی مہلت ختم ہونے سے پہلے ترکی چلے جاتے ہیں تاکہ وہ فیس کے پیسے بچا سکیں۔ اکثر بعد میں وہ دوبارہ ترکی سے روس آ جاتے ہیں۔لیکن قاسم شاہ کہتے ہیں کہ اکثر تاجک افراد افغانستان میں بھی شدت پسند سوچ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ان کے مطابق تاجکستان کے جنوبی علاقے سے افغانستان کا سفر صرف چند گھنٹوں کا ہی ہے اور وہاں ’دولتِ اسلامیہ خُراسان‘ کا ایک مرکز بن گیا ہے خصوصاً طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد۔گذشتہ برس سے اب تک کچھ حملوں میں تاجک شہریوں کا نام آیا ہے۔ ان میں یہ حملے نمایاں ہیں:چودہ اگست، 2023: ایران کے علاقے شیراز میں فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوا تھا۔تین جنوری ، 2024: جنوبی ایران میں ایک خودکش حملے میں 89 افراد کی ہلاکت۔28 جنوری، 2024: ترکی میں کیتھولک چرچ پر ایک حملے میں ایک ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی۔روس کی سربراہی میں بننے والے عسکری بلاک ’دا کلیکٹیو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن‘ کا کہنا ہے کہ انھوں نے گذشتہ مہینے اپنے جنوبی سرحد پر نام نہاد ’دولتِ اسلامیہ‘ اور دیگر جہادیوں کو متحرک دیکھا تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ’دولتِ اسلامیہ‘ اور القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیمیں اپنے تربیتی مراکز میں اضافہ کر رہی ہیں اور زیادہ تر غیر ملکی جنگجو تاجکستان کے بارڈر کے قریب افغانستان کے شمالی علاقوں میں موجود ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}