ماریا بیلووا: روسی صدر کی مشیر جن پر یوکرینی بچوں کے ’اغوا‘ کا الزام ہے

ماریا بیلووا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے وارنٹ گرفتاری کا اجرا کیا گیا ہے اور ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے یوکرین سے بچوں کو غیر قانونی طور پر روس ڈی پورٹ کیا جو جنگی جرائم کے ضمرے میں آتا ہے۔

صدر پوتن کے ساتھ روس کی ایک ایسی سیاست دان کا نام بھی اس معاملے میں سامنے آیا ہے جن کے بارے میں روس سے باہر کم ہی لوگ جانتے ہیں۔

یہ سیاست دان ماریا بیلووا ہیں جو روس میں بچوں کے حقوق کی کمشنر ہیں۔

لیکن ماریا بیلووا کون ہیں اور اس تنازعے میں ان کا کیا کردار ہے؟

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر بچوں کی غیر قانونی منتقلی یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے ہی جاری ہے۔

یوکرین سے بچوں کی روس منتقلی

یوکرین کے حکام کا کہنا ہے کہ تقریباً 20 ہزار بچوں کو ان کی مرضی کے خلاف اور والدین کے بغیر روس منتقل کیا گیا۔

یوکرین کا دعویٰ ہے کہ بہت سے خاندان اپنے بچوں سے ملنا چاہتے ہیں۔ یوکرین اور اس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا جنگی جرائم کے ضمرے میں آتا ہے کیوں کہ روس کا یہ فعل یوکرین کی قوم کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔

یوکرین کے مطابق ان بچوں کو روسی شہریت دی گئی ہے۔

روس

،تصویر کا ذریعہReuters

کیئو کے حکام کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ قدم 1949 کے جینیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت کسی بھی علاقے میں جنگ کے دوران عام شہریوں کی حفاظت کو ممکن بنایا گیا۔

یوکرین کے پراسیکیوٹر جنرل آندرے کوسٹن نے کہا ہے کہ ’ہمارے بچوں کو لے جا کر روس ہمارا مستقبل چوری کر رہا ہے۔‘

تقریباً 380 ایسے بچوں کا روس میں مختلف خاندان خیال رکھ رہے ہیں یعنی ان کو باقاعدہ طور پر گود تو نہیں لیا گیا لیکن ان کی واپسی پیچیدگی کا شکار ہو سکتی ہے۔

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے مطابق ماریا بیلووا اس غیر قانونی عمل کے لیے براہ راست ذمہ دار ہیں۔

روس اس بات کی تردید نہیں کرتا کہ بہت سے یوکرینی بچے روس میں ہیں۔

تاہم روس کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ان بچوں کی تعداد کم ہے۔

بی بی سی نے ماریا بیلووا کے دفتر سے تازہ اعداد و شمار کی درخواست کی اور ان کی جانب سے جواب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

روسی حکام کا کہنا ہے کہ یہ بچے یتیم تھے اور ان کو زبردستی نہیں لے جایا گیا بلکہ ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایسا کیا گیا۔

ماریا بیلووا بچوں کی منتقلی کے اس عمل کا دفاع کرتی رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یوکرین کے بچوں کو میدان جنگ سے دور بحفاظت رکھنے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔

اپنی سوشل میڈیا پوسٹس میں انھوں نے دعوی کیا کہ یہ بچے روس میں خوش ہیں اور اکثریت واپس نہیں جانا چاہتی۔

یہ بھی پڑھیے

ماریا بیلووا کون ہیں؟

ماریا بیلووا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گذشتہ موسم گرما میں ماریا بیلووا نے خود بھی ایک یوکرینی بچے کو گود لیا جس کا تعلق ماریپول سے تھا۔ اس شہر پر روسی فوج نے کئی ماہ کی لڑائی کے بعد قبضہ کیا تھا۔

فلپ گولوونیا نامی یہ بچہ، روسی حکام کے مطابق، یتیم تھا۔ ماریا بیلووا اکثر سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر لگاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ جب پہلی بار انھوں نے اسے دیکھا تو ان کو معلوم ہو گیا تھا کہ ’وہ ان کا تھا۔‘

ماریا بیلووا 10 بچوں کی ماں ہیں جن میں سے پانچ کو انھوں نے گود لے رکھا ہے۔ ایک وقت میں ان کے پاس 18 بچے تھے۔

38 سالہ ماریا بیلووا کا تعلق ماسکو سے 750 کلومیٹر دور پینزا شہر سے ہے۔ وہ اکتوبر 2021 میں بچوں کی حقوق کی کمشنر بنی تھیں۔

اس سے قبل وہ سینیٹر تھیں اور اپنے خطے کی نمائندگی روسی پارلیمان کے ایوان بالا میں کرتی تھیں۔

وہ روس کی حکمران جماعت یونائیٹڈ رشیا کی متحرک رکن ہیں۔

وہ ایک راہب کی اہلیہ ہیں اور اکثر مذہبی تقاریب میں سکارف اوڑھے دکھائی دیتی ہیں۔

ان کی بچوں کے ساتھ فلاحی کام کی تاریخ کا آغاز سنہ دو ہزار کے اوائل میں ہوا جب انھوں نے ایک فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھی۔

اس تنظیم کا نام ’لوئی کوارٹر‘ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نام امریکی جاز موسیقار لوئی آرم سٹرانگ کا حوالہ تھا جو ایک غریب نوجوان ماں کے بیٹے تھے۔

انھوں نے متعدد فلاحی کام کیے جس کے بعد انھوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔

ماریا بیلووا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

الزامات کی تردید

ماریا بیلووا پر بین الاقوامی پابندیاں عائد ہیں اور 17 مارچ کو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔

تاہم انھوں نے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔

’ہم نہیں جانتے کہ آئی سی سی کے ذہن میں کون سے کیسز ہیں۔ کوئی نام نہیں ہیں، کوئی پتہ نہیں ہے، ہم ان معلومات کو کیسے چیک کر سکتے ہیں۔‘

’اگر کوئی بچہ اپنے خاندان سے علیحدہ ہوا ہے تو ہم ان کو ملانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔‘

انھوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاوئنٹ پر لکھا کہ ’ہم کچھ نہیں چھپا رہے، سچ ہمارے ساتھ ہے۔ روس آئی سی سی کو نہیں تسلیم کرتا اور ان کے فیصلے ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔‘

ناتالیا سیکریٹاریوا میموریئل نامی انسانی حقوق تنظیم کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روس جینیوا کنونشن پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل ہے اس لیے آئی سی سی کے فیصلوں کو تسلیم نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ روسی صدر پوتن نے یوکرین کے بچوں کو ملک کی شہریت دینے کے قانون کو آسان بنا دیا تھا۔

روس میں چند حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ یوکرینی شہریوں کو بڑے پیمانے پر روس کے پاسپورٹ فراہم کیے جا رہے ہیں۔

یوکرین اس عمل کو ’قانونی اغوا‘ قرار دیتا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ایک خصوصی کمیشن نے کہا ہے کہ یوکرین کے بچوں کو روس کے خاندانوں کے پاس رکھنا اور انھیں روسی شہریت دینا ان کی شناخت کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

تاہم ماریا بیلووا یہ کہہ چکی ہیں کہ یوکرینی بچوں کی مدد کرنے کے لیے اور ان کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے روسی شہریت دینا ضروری ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ